ڈینئل پرل کیس: ‘عدالتی فیصلہ متاثرین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے’امریکہ

امریکہ نے صحافی ڈینئل پرل کے قتل سے متعلق عدالتی فیصلے کو دہشت گردی کے متاثرین کا مذاق اڑانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ امریکہ کی نائب معاون وزیرِ خارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ امریکی صحافی ڈینئل پرل کے گھناؤنے اغوا اور قتل کے ذمہ داروں کو لازمی انصاف کی راہ سے گزرنا ہو گا۔ایک ٹوئٹ میں ایلس ویلز نے کہا کہ ڈینئل پرل کے قاتلوں کی سزا کو ختم کرنا دنیا بھر میں دہشت گردی کے متاثرین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ایلس ویلز نے ڈینئل کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزمان کی رہائی کے عدالتی حکم کو چیلنج کرنے کے پاکستانی حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔یاد رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے جمعرات کو ڈینئل پرل قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تین ملزمان کو بری اور مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقامی ٹی وی چینل ‘جیو نیوز’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ڈینئل پرل قتل کیس کا فیصلہ آنے کی ٹائمنگ پر حیران ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ حکومت اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرے گی۔ اُن کے بقول دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔واضح رہے کہ امریکی اخبار ‘وال اسٹریٹ جرنل’ سے وابستہ صحافی ڈینئل پرل کو 2002ء کے اوائل میں کراچی سے اغوا کیا گیا تھا اور اسی سال مئی میں ان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔اس کیس میں پولیس نے چار ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان میں سے تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی تھی۔سزا کے خلاف ملزمان نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ ملزمان کے وکلا نہ ہونے کی وجہ سے اپیلوں کی سماعت تقریباً 10 برس تک بغیر کارروائی کے ملتوی ہوتی رہی اور اس طرح اس کیس کا فیصلہ آنے میں 18 سال کا عرصہ لگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں