22 خاندان
تحریر ۔ انور ساجدی
یہ جو وزیراعظم محترم اٹھتے بیٹھتے ایوب خان کے سنہرے دور اور اسکی صنعتی ترقی کے گن گاتے ہیں لگتا ہے کہ انہیں تاریخی حقائق کا زیادہ علم نہیں ہے ایوب خان کے دور میں5سالہ منصوبے بنتے تھے جو سالانہ ترقیاتی پروگرام کے علاوہ تھے وہ دنیا میںصنعتی احیاءکادور تھا کیونکہ دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے صرف15سال گزرے تھے یورپی ممالک خاص طور پر انگلینڈ اور جرمنی جو جنگ کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے تعمیر نو کیلئے سردھڑ کی بازی لگارہے تھے دوسری جنگ عظیم تک امریکہ کو چھوڑ کر انگلینڈ سب سے بڑا صنعتی ملک تھا جبکہ جرمنی اس کا واحد مدمقابل تھا لیکن دونوں ت باہ ہوگئے ادھر ایشیائی ملک جاپان بھی ایٹم بم گرنے کی وجہ سے ملیا میٹ ہوگیا تھا چنانچہ جاپان بھی اس صنعتی دوڑ میںشامل ہوگیا تینوں ممالک 15سال کے عرصہ میںدوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے لیکن انگلینڈ کی جگہ امریکہ لے چکا تھا نہ صرف صنعتی دوڑمیںبلکہ سیاسی اعتبار سے بھی وہ سپر پاور بن چکا تھا روس جو جنگ عظیم کے سب سے زیادہ جانی ومالی ہزیمت سے دوچار ہوا تھا وہ بھی اشترا کی دنیا کا سپرپاور بن چکا تھا اس لئے پاکستان اور انڈونیشیا میںبھی صنعتی ترقی کے مثبت اثرات پڑے تھے جنرل ایوب خان نے اقتدار میںآنے کے بعد نامور قادیانی معیشت دان ایم ایم احمد کو پلاننگ کمیشن کا چیئرمین بنایا یہ قادیانی سربراہ مرزا غلام احمد کے پوتے تھے اس زمانے میںقادیانیوں کے بارے میںاتنا امتیاز نہیںبرتا جاتا تھا اس زمانے میںجو ترقی ہوئی وہ ایم ایم احمد کی کاشوں کی مرہون منت تھی پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بنیاد اسی زمانے میںپڑی تھی تاہم شروع کے سالوں میںپاکستان غذائی قلت کا شکار تھا اور امریکی گندم کا محتاج تھا جو پی ایل 480کے تحت بطور امداد ملتی تھی۔ملک بھر میںصنعتی علاقے قائم ہوئے جن میںکراچی کا سائٹ سب سے نمایاں تھا جو اس زمانے میںملک کا سب سے بڑا صنعتی زون تھا ایم ایم احمد کے بعد ڈاکٹر محبوب الحق پلاننگ کمیشن سے وابستہ ہوئے انہیں خود نمائی اور پبلسٹی کا بڑا شوق تھا اس لئے انکے ایک تحقیقی بیان نے ہلچل مچادی جس میںانہوںنے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کی بیشتر دولت22خاندانوں کے پاس ہے ان خاندانوں میںآدم جی احمد داﺅد ولیکا سہگل فینسی ہارون اور دیگر لوگ شامل تھے۔دلچسپ بات یہ تھی کہ ان میںسے سہگل کے سوا کوئی مقامی خاندان شامل نہیں تھا باقی سارے ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے ان میںسے آدم جی اور داﺅد انڈیا میںبھی درمیانہ درجہ کے بزنس مین تھے جبکہ باقی پاکستان آکر یہاں کی پہلی حکومت کی زرہ نوازی اوراعانت سے بڑے بڑے صنعتکار بن گئے ان لوگوں کو حکومت نے کارخانے بناکر چابیاں حوالے کیں ڈاکٹر محبوب الحق کے انکشاف کے بعد عوام میںان سرمایہ داروں کیخلاف ایک عمومی نفرت پیدا ہوگئی جب ایوب خان کیخلاف تحریک شروع ہوئی تو محنت کشوں کی ریلیوں میںانکے جبرواستحصال کاخاص طور پر ذکر کیا جاتاتھا اور حکومتی سرپرستی کوہدف تنقید بنایا جاتا تھا کراچی میںموٹرسازی کی پہلی بڑی کمپنی ہارون خاندان نے گندھارا کے نام سے قائم کیا تھا جس پر ایوب خان کے صاحبزادوں گوہر ایوب اور اختر ایوب نے قبضہ کیا تھا اس کارخانے میںکاراور ٹرک تیار ہوتے تھے 1972ءمیںذوالفقار علی بھٹو نے گندھارا نسان فیکٹری کو قومی ملکیت میںلے لیا تھا نہ صرف یہ بلکہ بھٹو نے22خاندانوں سمیت دیگرصنعتکاروں کے صنعتی یونٹ بھی قومیالئے تھے۔ایک مرتبہ تو ملک کے تمام کروڑ پتی (اس زمانے میںارب پتی نہیں ہوتے تھے)کنگال ہوگئے تھے یہی وجہ ہے کہ1977ءکو جب ضیاءالحق نے بھٹو کاتختہ الٹا تو سارے سیٹھ جو روپوش تھے باہر آگئے اور انہوںنے ضیاءالحق کے اقدام پر جشن منایا جنرل صاحب نے بھی دیر نہیں لگائی اور سارے صنعتی یونٹ پرانے مالکان کو واپس کردیئے البتہ پرانے سیٹھ صاحبان داﺅد اور آدم جی کوچھوڑ کر اپنی پرانی پوزیشن پر بحال نہ ہوسکے ضیاءالحق نے سرمایہ داروں کی ایک نئی اور گماشتہ کلاس پیدا کی خاص طور پر افغانستان میںسوویت یونین کے خلاف امریکہ نے جو اربوں ڈالر بھیجے انکو ہضم کرکے سرمایہ داروں کا وہ طبقہ پیدا ہوگیا جو اس وقت ملک پر چھایا ہوا ہے اس نودولتیہ طبقہ میں شریف فیملی جنرل اختر عبدالرحمن ہاشوانی وغیرہ شامل ہیں۔1985ءسے لیکر تاحال کئی اور لوگ بھی اس کارواں میںشامل ہوگئے ان لوگوں میںچوہدری برادران جہانگیرترین ،سیف اللہ برادران قابل ذکر ہیں۔
جنرل ضیاءالحق نے جو جعلی اشرافیہ تیار کی انہوںنے صنعتی پیداوار کے ذریعے دولت اکٹھی نہیں کی بلکہ انہوںنے سیاست اور کاروبارکو ملادیا یہ لوگ اسمبلیوں میںبھی جاپہنچے اور اعلیٰ وزارتوں پر بھی فائز ہوگئے انہوںنے سرکاری وسائل کو اپنے کاروبارکے فروغ کیلئے استعمال کیا اگر میاںنوازشریف ،وزیراعلیٰ اور وزیراعظم نہ بنتے تو وہ کبھی کھرب پتی نہ بنتے یا اگر جہانگرین ترین فیڈرل منسٹر نہ ہوتے تو وہ اپنی شوگرملوں کے ذریعے چینی کی49فیصد پیداوار پر کنٹرول حاصل نہ کرتے،اگرچہ ڈاکٹرمحبوب الحق کی طرح موجودہ زمانے میںکسی نے سائنسی انداز میںریسرچ ورک نہیں کیا تاہم اندازہ ہے کہ اس وقت 22کی بجائے ایک سو خاندان 80فیصد دولت کے مالک ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ سیاست پر بھی چھائے ہوئے ہیں۔یعنی فی زمانہ کاروبار کاروبار نہ رہا اور سیاست سیاست نہ رہی دونوں کا اختلاط برائی کاایسا محور ہے کہ اس نے ریاست کو بری طرح جکڑ رکھا ہے اور اسے ترقی کی دوڑ میںآگے بڑھنے سے روک رہا ہے بھٹو نے ایک طرف پرائیویٹ صنعتکاروں کو بے دست وپا کردیا تو دوسری طرف اس نے اداروں کو بھی کاروبار میںآنے کی اجازت دی سرکار کا ایک طاقتور حصہ بذات خود سب سے بڑا صنعتکار اورسرمایہ دار ہے ایک ایسی ریاست جہاں بظاہر پارلیمانی نظام ہو کہنے کو جمہوری نظام نافذ ہو وہاں پر اس طرح کی صورتحال ہو کہ بڑے بڑے صنعتی اداروں کے مالک خود ریاستی ادارے ہوں وہاں پر کوئی صحتمند مسابقت قائم ہونا مشکل ہے۔ضیاءالحق نے جو نظام دیا اس میںمحنت کشوں کی کوئی اہمیت نہیں رکھی گئی حتیٰ کہ انکی یونین سازی اورسودے بازی کے بنیادی حق کو بھی سلب کیا گیا ان کامسلط کردہ جعلی اشرافیہ جعلی صنعتکار اور نودولیتے سرمایہ دار طویل عرصہ سے اسٹیٹس کو برقرار رکھے ہوئے ہیں تاکہ کسی سطح پر بھی کوئی تبدیلی نہ آئے۔
ضیاءالحق کے جانشین میاںنوازشریف تواپنی ذاتی دولت میںخوب اضافہ کیا لیکن ایسے ریاستی ادارے بنائے جن کا مقصد جعلی احتساب تھا تاکہ انکے راستے میںکوئی رکاوٹ نہ آئے آج خود نوازشریف جن اداروں کے انتقام کا نشانہ ہیں وہ خود انکے بنائے ہوئے ہیں مثال کے طور پر نیب انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ،ایف آئی اے اور آئی بی کو سیاسی وکاروباری مخالفین کیخلاف استعمال کرنے کی روایت بھی نوازشریف نے ڈالی تھی برسوں بعد ثابت ہوا ہے کہ نوازشریف کی سیاست کا مقصد ریاستی ترقی یا عوام کی خوشحالی نہیں تھا بلکہ اربوں ڈالر کمانا تھا ان سے پہلے انڈونیشیا کے آمر سوہارتو فلپائن کے آمرمارکوس اور دیگر نے بھی اپنے اقتدار کو دولت کمانے کی خاطر استعمال کیاتھا بہر حال نوازشریف ان لوگوں سے زیادہ باصلاحیت اور ہنرمند اس لئے ہیں کہ سیاست میںبھی ان کا مقام قائم ہے اور انکی جماعت کسی بھی تبدیلی کے نتیجے میںمتبادل ہوسکتی ہے جبکہ بے تحاشا دولت کمانے کا خواب بھی انہوںنے اچھے انداز میںپورا کیا ہے یہی شوق ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری نے بھی کمال خوبی سے پوراکیاہے۔انکی جماعت مرکز میںپانچ سالہ اقتدار پورے کرنے کے بعد12سال سے سندھ میںبھی برسراقتدار ہے اگردیکھاجائے تو رولنگ اشرافیہ میںجنگ وجدل رسہ کشی ایک طرح سے جعلی ہے موجودہ وزیراعظم عمران خان کی پوری کابینہ جنرل مشرف اورزرداری کے وزراءپرمشتمل ہے یہی لوگ کبھی ادھر اورکبھی ادھر کئے جاتے ہیں تمام لڑائی ذاتی مفادات اور زیادہ باری لینے کیلئے ہے وقت پڑنے پر یہ پوری مخلوق مدد کیلئے ایک ہی طرف دیکھتی ہے جسکو بھی آشیرباد ملے وہ قبول کرنے میںایک لمحے کی دیر بھی نہیںلگاتا۔
سیاسی اور غیرسیاسی سانڈوں کی اس لڑائی میں صرف میڈیا شہید ہونے جارہاہے کیونکہ اسٹیٹس کو کسی علمبردار قوتیں میڈیا کی دخل اندازی کیخلاف ہیں اور وہ نہیں چاہتیں کہ انکے اختیارات میںکوئی اوررخنہ انداز ہولیکن کبھی کبھار ایسی انہونی ہوجاتی ہے کہ جس کے بارے میںکسی نے سوچاہی نہیں ہے جیسے کہ ان دنوں ایک ناگہانی قدرتی آفت نے ساری دنیا کے ساتھ اس ریاست کو بھی اپنی لپیٹ میںلے رکھا ہے اس کے باوجود مخصوص طبقہ اس کو بھی اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے کی کوششوں میںمصروف ہے۔
یہ22خاندانوں کی یاد اس لئے آئی کہ آج کل سوشل میڈیا میںطوفان برپا ہے کہ انڈیا کے ارب پتی سیٹھوںنے کرونا کے مقابلہ کیلئے کئی کھرب روپے حکومتی فنڈ میںدیئے ہیں لیکن پاکستان کے بارے میںسیٹھوں کوسانپ سونگھ گیا ہے صرف سیٹھ حسین داﺅد نے گزشتہ روز ایک ارب روپے فنڈ میںدیئے ہیں۔اس کام میںبھی کچھ نہ کچھ ذاتی مفاد کا دخل ہے ایک تو وہ سب سے بڑے صنعتی یونٹ اینگرو کے سربراہ ہیں اینگرو تھرکول پروجیکٹ بھی چلارہا ہے جس کے منظورشدہ زرمبادلہ کے غلط استعمال کا کیس چل رہا ہے جبکہ وہ حبکو کو سی پیک میںشامل کرواکر مزید مراعات کے متمنی ہیں جودیگرسیٹھ صاحبان ہیں وہ بھاری امدادی رقم وزیراعظم کے فنڈ میںدے کر جان بخشی کرواسکتے ہیں۔