کرونا کا پھیلاؤ اور بلوچستان میں غیر تسلی بخش طبی سہولیات

گہرام اسلم بلوچ
2019کے آواخراور 2020 کی شروعات میں اشرف المخلوقات تیزی سے پھیلتی ہوئی ایک ایسی (گلوبل ڈیزیز) میں مبتلا ہو رہی ہے یہ وبا اپنی نوعیت کے خطرناک ترین اور اب تک کی تحقیق اور ماہرین کے مطابق ناقابل علاج مرض ہے ماسوائے چند احتیاطی تدابیر کے علاوہ ان کی تدارک اسوقت ناممکن ہے۔ اسکو COVID-19)، (نول کرونا وائرس) اس لیے کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے 2019 کی آواخر میں چین کے شہر (ووہان) میں نمودار ہونے والی مرض (کرونا وائرس) تیزی کیساتھ پھیلتا ہوا ایک (گلوبل ڈیزیز) PANDEMIC، بن گئی۔ چین، ایران اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں یہ مرض ایک ایسے وقت میں نمودار ہوا جب ایران کے بارڈر تفتان سے (زائرین) بلوچستان میں داخل ہوئے۔ اْن زائرین میں کروناکی تشخیص ہوئی۔ جغرافیائی اعتبار سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور بلوچستان ایران سے 900 کلومیٹر اور افغانستان سے 1300 کلومیٹر بارڈر شیئر کرتا ہے۔ ایران سے روزانہ کی بنیاد پرسینکڑوں مسافر بارڈر کراس کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی پھیلتی ہوئی وبا ہے کہ اب تک اسکا علاج صرف احتیاط اور تنہائی ہے، ملکی و بین الاقوامی صحت کے اداروں اور ماہرین کے مطابق انٹر نیشنل پروٹوکول کو فالو کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے (کروڈ19 لگنے کے امکانات کم ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ بلوچستان میں ایک روایت ہے کہ ہر جاننے والے عزیز و اقارب کو ہاتھ ملانے کیساتھ ساتھ گلے لگانا اس کی ثقافت روایت کی خوبصورتی ہے۔ احتیاطی تدابیر کے مطابق کسی سے ہاتھ ملانے اور گلے لگانے سے گریز کیا جانا چایئے اور وقتا فوقتا ہاتھ واش کرنا، سینٹائزر اور ماسک استعمال کرنا۔ اور یہ اپنی نوعیت کا مختلف مرض ہے کہ اس سے بچنے کی صرف ایک ہی علاج ہے کہ اپنوں سے چاہتے ہوئے بھی نہ ملنا کتنی تکلیف ہوتی ہے کسی کو تڑپتا ہوا دیکھ کر بھی مدد نہیں کرنا، خدانخواستہ اگر ایسی صورت حال ہو تو کوئی اپنے پیاروں کو آخری آرام گاہ تک پہنچانے میں کندھا نہیں دے سکتا۔ مزید احتیاطی تدابیر کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو اس مرض میں مبتلا شخص سے تمام رشتے ناطے نا چاہتے ہوئے بھی ختم کرنا پڑتا ہے اور اْن سے دور رہنا اْنکے بہترین دوست ہوسکتے ہیں۔اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو بلوچستان اور اسلام میں مریض اور انکے لوحقین کی عیادت کرنے کی روایت بھی موجود ہے۔کوئٹہ میں (کووڈ19) کے حوالے سے قائم کنٹرول روم سیل کے ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق اسوقت بلوچستان کے 36 اضلاع اور سٹیز میں 108 قرنطینہ سنٹرز قائم ہیں جبکہ ان قرنطینہ سنٹرز میں 6912 مشتبہ مریضوں کی (کیپسٹی) ہے۔ اسوقت بلوچستان میں باہر سے سفر کر کہ ہوئے کرونا متاثرین کی تعداد 132 اور لوکل ٹرانسمیشن 25 جب کہ 1 نامعلوم کیس درج ہے۔اب تک 19 مریض صحتیاب جب کہ 1 مریض ہلاک ہوئی ہے۔
جب سے بلوچستان میں کوڈ19 کے آثار نظر آئے ہیں (ماسک) ناپید ہے اور میڈیکل اسٹورز ذخیرہ اندوزی کے ذریعے ناصرف بلیک میں فروخت کر رہے بلکہ باہر اسمگلنگ کر انے کی خبر کا پوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے ابتدائی دنوں میں کوئٹہ کی (اسسٹنٹ کمشنر ندا کاظمی) نے کوئٹہ کے میڈکل اسٹورز میں چھاپہ مار کر آئندہ ماسک کی ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی سے گریز کرنے کی تلقین کی۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبہ اب تک (ملیریا اور پولیو) سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال میں اسطرح کی گلوبل ڈیزیز کا نمودار ہونا ملک اور بلوچستان کے لیے بہت بڑا چیلنج۔ اس سے نمٹنے کے لیے اپنی مددآپ کے تحت اقدامات اْٹھانا ہونگے کیونکہ اس مرض سے پوری دنیا متاثر ہے اس صورتحال میں کوئی کسی کا مدد نہیں کرسکتا۔ اسوقت بلوچستان میں دو نئے قرنطینہ سنٹرز قائم کئے اب کل تین قرنطینہ سنٹرز ہیں۔
"اس حوالے سے ہم نے بلوچستان حکومت کی موقف جاننے کے لیے وزیر اعلی بلوچستان محترم جام کمال خان عالیانی کے ترجمان جناب لیاقت شاہوانی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی معلوم نہیں کن مصروفیات کی بنا پر وہ موقف دینے سے معذرت کی "۔
اس حوالے سے اپنے ایک مصدقہ ذرائع سے معلوم کیا کہ ابتدائی دنوں میں تفتان میں 2797 زائرین موجود تھے جن میں بلوچستان کے زائرین کی تعداد 413 ہے اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق دیگر صوبوں کے زائرین کی ان کے صوبوں تک براہ راست واپسی شروع کر دی گئی ہے جس کے لئے حکومت بلوچستان نے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا ہے۔
اس حوالے سے میں نے سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا کے متحرک رہنما اور صحافتی تربیتی ادارہ (انڈیویڈول لینڈ) کے سربراہ؛ گل مینہ بلال صاحبہ؛ سے ملکی آئین کی آرٹیکل (19۔اے) کے تحت سوال نامہ بھیجے انکی طرف سے اس مسلے پر پوری طور پر اپنی موقف دیتے ہوئے کہاگیاکہ کرونا وائرس کے حوالے سے میرے نزدیک سماجی رابطوں کی ویب سائٹس زیادہ متحرک تھیں بہ نسبت پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے, جس کی وجہ سے جھوٹی خبریں زیادہ تیزی سے گردش کرنے لگیں. (وزیرداخلہ صاحب کو تفتان بارڈر پر دیا جانے والا ڈیمو, مختلف انداز سے پیش گیا "کہ کروناوائرس سے متاثرہ شخص پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے مختلف اضلاع میں ہمارے تربیت یافتہ رضاکار سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر آگاہی مہم چلا رہے ہیں وہ اسوقت بلوچستان سمیت سندھ، خیبرپختونخواہ، پنجاب، گلگت بلتستان، اے، جے کے اور ملک بھر میں ہمارے رضاکار WHO و دیگر متعلقہ اداروں کے اشتراک سے انکے بروشر, پوسٹر, پمفلٹ, بذریعہ ریڈیو آڈیو پیغامات, ویڈیو پیغامات کی تشہیر کر رہے ہیں۔ بلوچستا ن کے مختلف اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ سروسز کی بندش اوراحتیاطی تدابیر کی مہم میں رکاوٹ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وہ مختصرا کہتی ہیں کہ وہ احتیاطی تدابیر سے محروم ہوسکتے ہیں (اسکا مطلب یہ ہے کہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ ایسے دور دراز علاقوں میں خطرات زیادہ ہوسکتے ہیں شاید وہ بروقت اسکو سمجھنے سے قاصر ہوسکتے ہیں) آخر میں انکا یہی پیغام تھا کہ حکومت کے ساتھ مل کر تعاون کریں, خود علیحدگی اختیار کر لیں اور نزلہ زکام بخار کی صورت میں حکومت کی جانب سے دیئے گئے ہیلپ لائن نمبرز پر رابطہ کریں۔
کووڈ 19 اور تربت کی صورتحال: تربت بلوچستان کا دوسرا بڑا ضلع ہے جسکی سرحد یں براہ راست (مند ریدیگ) بارڈر سے ایران سے ملتے ہیں بارڈر سے معمولات زندگی میں روزنہ سینکڑوں لوگ بارڈر کراس کرتے ہیں۔
مزید براں گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر کیچ تربت میجر ریٹائرڈ محمد الیاس کبزئی نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ضلع تربت کیچ سے متصل بارڈر (مند ردیگ) پر قائم قرنطینہ سنٹر سے 83 زائرین کی اسکریننگ کلیئر ہونے کے بعد انہیں باحفاظت انکے آبائی علاقوں میں روانہ کردیا گیا۔ مند ردیگ قرنطینہ سے سکھر جانے والے زائرین میں 13 خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ 83 لوگوں کو دوبسوں کے ذریعے، ایف، سی اور لیویز کی سخت سیکورٹی کیساتھ مند سے سکھر روانہ کردئے ہیں۔
حکومت بلوچستان کی غفلت اور عجلت کی وجہ سے پورا ملک نول کرونا وائرس کا شکار ہوا اگر وہ عجلت سے کام نہ لیتے زائرین کو وفاق کے کہنے پر تفتان بارڈر سے آنے کی کلیرنس نہیں دیتے تو شاید آج عوام کو یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتے۔ انہیں صبر و تحمل سے کام لینا چایئے تھا۔کورونا وبا کے پیش نظر احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے تربت کے مقامی سول سوسائٹی کے رہنماوں کی جانب سے "کورونا سے پاک تربت "مہم کا آغاز کردیا۔انکے ذمہ دارن، اعجاز ایدووکیٹ، کفا دوست رند، حمل امین و دیگر رضا کاروں نے بتایا کہ مکران ایران کے بارڈر سے ملتا یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش اشیا خردونوش برائے راست ایران سے وابستہ ہے اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مالبردار گاڑیاں ایرانی ڈیزل سمیت اشیا خردونوش کے سامان آتے ہیں اگر کورونا سے نمٹنے کے لیے حکومت ناکام رہی قابو نہیں کر سکی تو شدید خدشہ ہے کہ کورونا وبا سے بے شمار لوگ متاثر ہوسکتے ہیں۔ کیچ رضا کاروں کی جانب گزشتہ روز تربت پریس کلب کے سامنے عوامی آگاہی مہم کے دوران عوام سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسوقت ڈبلیو، ایچ،او کے احتیاطی تدابیر کے مطابق عوام الناس اپنی حفاظت خود کرسکتا ہے اگر انہوں نے سماجی فاصلے و دیگر تدابیر کا خیال نہیں رکھا تو کیچ تربت میں کورونا پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہوسکتی ہے۔ رضاکاروں نے بتایا کہ اسوقت تربت میں حکومت کی جانب سے کوئی سہولیات نہیں ہے انتظامیہ کی جانب سے دیگر صوبوں سے آنے والے پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کے باوجود بسز (تربت سٹی سے دور،ڈی بلوچ) کے مقام پر مسافروں کو اْتار کر بغیر کوئی اسکرینئگ کے شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ کفا دوست نے اپنے رضاکاروں کا ھال دیتے ہوئے بتایا کہ آج سے ہم اپنی مدد آپ کے تحت اور عوام کی سپورٹ سے 1000 گھروں میں مفت راشن تقسیم کریں گے۔ (جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں