عالمی وبا: جو غلطی 100 سال قبل ایشیا نے کی، اب مغربی ممالک کر رہے ہیں

دسمبر 2019 میں چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس سے 5 اپریل تک دنیا کے 180 سے زائد ممالک میں 12 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوچکے تھے جب کہ اس سے ہلاکتیں بھی بڑھ کر 66 ہزار کے قریب جا پہنچی تھیں۔
کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بعد ماہرین صحت اور حکومتوں نے اپنے لوگوں کو فیس ماسک پہننے کی ہدایات بھی کیں اور کئی ممالک میں لوگ ان ہدایات پر عمل بھی کر رہے ہیں، تاہم بعض ممالک میں اب تک ایسا نہیں ہو پایا۔
اگرچہ پاکستان سے لے کر برطانیہ اور امریکا سے لے کر بھارت تک فیس ماسک کی قلت پیدا ہوچکی ہے اور اب خبریں ہیں کہ امریکی کمپنیوں نے جن متعدد ممالک سے فیس ماسک بنانے کے آرڈرز لیے رکھے تھے انہیں بھی کینسل کرکے اپنے ہی ملک کے لوگوں کے لیے فیس ماسک جمع کرنا شروع کردیے ہیں۔
لیکن اس باوجود تاحال امریکا سمیت مغربی دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کی جانب سے فیس ماسک نہیں پہنے جا رہے اور کئی ماہرین اس عمل کو بہت بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔
کئی ماہرین کے مطابق امریکا سمیت دیگر مغربی ممالک کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باوجود فیس ماسک نہ پہننا ایسا ہی ہے جیسے 100 سال قبل اسپینش فلو کے پھیلاؤ کے وقت ایشیائی ممالک کی جانب سے فیس ماسک کو اہمیت نہ دینا تھا۔
ماہرین کے مطابق آج کے مغربی ممالک ایشیائی ممالک کی جانب سے 100 سال قبل کی گئی غلطی کو دہرا رہے ہیں جب کہ ایشیائی ممالک ایک صدی قبل کی گئی غلطی سے سیکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے ایک مضمون کے مطابق آج سے ٹھیک ایک سال قبل 1918 میں جب دنیا میں اسپینش فلو کی وبا پھوٹ پڑی تو امریکی ریاست کیلی فورنیا کا شہر سان فرانسسکو وہ پہلا شہر بنا تھا جس کی مقامی حکومت نے بیماری سے بچنےکے لیے فیس ماسک پہننا لازمی قرار دیا تھا۔
اسپینش فلو کی وبا جنگ عظیم اول کے دوران شروع ہوئی تھی اور اس سے دنیا بھر میں تقریبا 50 کروڑ افراد متاثر جب کہ 5 کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے، جس میں سے 10 لاکھ افراد صرف امریکا میں ہلاک ہوئے تھے۔
100 سال قبل سان فرانسسکو حکومت نے فیس ماسک نہ پہننے پر جرمانہ عائد کرنے کا قانون نافذ کیا تھا—فوٹو: سی این این
جس طرح آج کورونا وائرس سے امریکی ریاست نیویارک کا شہر نیویارک سب سے زیادہ متاثر ہے، اسی طرح 1918 میں اسپینش فلو سے سب سے زیادہ سان فرانسسکو متاثر ہوا تھا اور وہاں کی انتظامیہ نے وبا سے نمٹنے کے لیے سخت لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے فیس ماسک پہننا لازمی قرار دیا تھا۔
سی این این کے مضمون میں بتایا گیا کہ سان فرانسسکو کی حکومت نے 1918 میں اسپینش فلو کے وقت فیس ماسک نہ پہننے والے شخص پر 5 سے 100 ڈالر تک جرمانہ اور 10 دن تک قید یا دونوں سزاؤں کا اطلاق کر رکھا تھا، جس وجہ سے لوگوں نے فیس ماسک پہننا شروع کیا جس کے نتیجے میں اسپینش فلو کے پھیلاؤ میں واضح طور پر کمی دیکھی گئی۔
مضمون میں بتایا گیا کہ سان فرانسسکو کی انتظامیہ نے اکتوبر 1918 کے آغاز میں فیس ماسک پہننا لازمی قرار دیا جس کے بعد کیلی فورنیا ریاست کے دیگر شہروں نے بھی فیس ماسک پہننا لازمی قرار دیا اور پھر یہی سلسلہ امریکا کی تمام ریاستوں تک پھیل گیا۔
مضمون میں بتایا گیا کہ اسپینش فلو کا مقابلہ کرنے کے لیے سان فرانسسکو کی حکومت کی جانب سے فیس ماسک پہننے کو لازمی قرار دیے جانے کے فیصلے نے نہ صرف امریکا کی تمام ریاستوں نے اپنایا بلکہ یورپ کے کئی ممالک نے بھی اس عمل کا آغاز کیا۔
ایک صدی قبل امریکا کی پولیس سمیت دیگر سرکاری افسران کو بھی فیس ماسک پہننے کا پابند کیا گیا تھا—فوٹو: سی این این
مضمون کے مطابق سان فرانسسکو کے ایک ماہ بعد فرانس کے شہر پیرس کی انتظامیہ نے بھی فیس ماسک پہننا لازمی قرار دیا اور یوں فیس ماسک پہننے کا آغاز جو امریکا سے شروع ہوا تھا وہ یورپ تک پھیل گیا۔
مضمون میں اس وقت کے معروف اخبارات و میگزین میں شائع ہونے والے مضامین کا بھی حوالہ دیا گیا اور بتایا گیا کہ کس طرح 100 سال قبل حکومتوں کی جانب سے فیس ماسک پہننے کو لازمی قرار دیے جانے کے چرچز و فلاحی تنظمیوں نے انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز کا ساتھ دیا اور انہیں بہت بڑی تعداد میں فیس ماسک تیار کرکے دیے، تاکہ اسپینش فلو جیسی وبا کا مقابلہ کیا جا سکے۔
مضمون میں بتایا گیا کہ اس وقت جہاں عام لوگوں کو ماسک پہننے کے لیے پابند کیا گیا، وہیں پولیس، فوج، طبی رضاکاروں، بحری جہاز کے عملے سمیت سرکاری ملازمین و افسران کو بھی لازمی طور پر فیس ماسک استعمال کرنے کا پابند کیا گیا تھا اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی نکلے تھے۔
مضمون میں ایک صدی قبل کے حالات کا موازنہ حالیہ دور سے کیا گیا اور بتایا گیا کہ کس طرح اب مغربی ممالک کے ماہرین اور حکمران فیس ماسک پہننے یا نہ پہننے پر مختلف رائے رکھتے ہیں اور اس کا اثر کس قدر معاشرے پر پڑ رہا ہے کہ لوگ مغربی ممالک میں لوگ فیس ماسک ہی نہیں پہن رہے۔
مضمون کے مطابق اگر حالیہ دور میں دیکھا جائے تو ایشیائی ممالک جن میں تائیوان سے لے کر فلپائن تک کے ممالک شامل ہیں، تمام ممالک میں لوگ فیس ماسک پہن رہے ہیں اور وہاں پر بظاہر کورونا وائرس کا پھیلاؤ بھی کم ہے۔
اگرچہ مضمون میں ایشیائی ممالک میں فیس ماسک کے زیادہ استعمال کو کورونا کے کم پھیلاؤ کا نتیجہ قرار نہیں دیا گیا، تاہم بتایا گیا ہے کہ ایشیائی ممالک نے گزشتہ 100 سال میں اپنے ہاں آنے والی بیماریوں اور وباؤں سے سیکھا ہے اور وہ اب احتیاط کی طور پر فیس ماسک کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔
مغربی ممالک کے مقابلے ایشیائی ممالک میں فیس ماسک کے زیادہ استعمال کے حوالے سے مضمون میں بتایا گیا کہ چوں کہ ایشیائی ممالک کو اسپینش فلو کے بعد بھی کئی بیماریوں اور وباؤں کا سامنا رہا ہے اور یہاں تک کہ ڈیڑھ دہائی قبل 2003 میں ہی ایشیا میں سارس وائرس آیا تھا، جس نے ایشیائی ممالک کو خبردار کیا اور وہ حفاظت کے طور پر فیس ماسک پہننے لگے۔
مضمون کے مطابق ایشیائی ممالک نے ایک کے بعد ایک وبا کا مقابلہ کرنے کے بعد اپنی غلطیوں سے سیکھا اور اب تقریبا تمام ایشیائی ممالک میں فیس ماسک کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے تاہم مغربی ممالک میں امریکا سے لے کر برطانیہ تک فیس ماسک کا استعمال کم دکھائی دیتا ہے۔تاہم اب امریکا سے لے کر برطانیہ تک کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کے بعد وہاں کے ماہرین اور حکومت لوگوں کو فیس ماسک استعمال کرنے پر مجبور کر رہے ہیں لیکن چار ہفتے قبل تک وہاں کے ماہرین یہ کہتے دکھائی دیتے تھے کہ صحت مند افراد کو ماسک پہننے کی ضرورت نہیں۔لیکن اب امریکا کے ماہرین صحت نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ممکنہ طور پر کورونا وائرس ہوا کے ذریعے بھی پھیل رہا ہے، اس لیے باہر نکلتے وقت ہر کسی کو فیس ماسک استعمال کرنا چاہیے۔
ایشیائی ممالک کی طرح مغربی ممالک میں بھی فیس ماسک کی قلت کے بعد لوگ ہاتھ سے تیار فیس ماسک استعمال کر رہے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں