قوم وقومیت اورڈیرہ غازی خان اور راجن پورکے لوگوں کا قومی پس منظرسٹالن کی نظریہ قوم و قومیت کے تناظرمیں
عبدالقیوم بزدار
سٹالن اپنی کتاب ”قوم اورقومیت“ میں لکھتے ہیں ”قوم انسانوں کے ایک ایسے پائیدار گروہ کانام ہے جس کے ارتقا اور عروج میں تاریخ نے ہاتھ بٹائی ہو اور جس کے اندر اشتراک زبان، اشتراک ارض اوراشتراکِ معاش پایاجاتا ہو اورساتھ ہی اس کی نفسیاتی ساخت ایک جیسی ہو وہ نفسیاتی ساخت جس کا اظہار تہذیبی اتحاد کی صورت میں ہو“وہ مزید اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”اس پرکسی کو کوئی اعتراض نہیں کہ قوم دیگرتمام تاریخی مظاہر کی طرح تبدیلی اورانقلاب کا گہوارہ ہے اس کی ایک مخصوص ابتدا اور انتہا ہوتی ہےاوپر قومیت کی جوخوبیاں بیان کی ہیں ان میں سے کسی ایک خصوصیت کی بنیاد پر کسی انسانی جمعیت کو قوم نہیں کہہ سکتے اور اس حقیقت سیبھی ہم انکار نہیں کرسکتے اگرکسی انسانی جمعیت میں قومیت کی باقی تمام خوبیاں پائی جائیں اگرچہ ایک خوبی کی کمی ہے تووہ ”قوم“ کہلا سکتی ہےمثلاً کسی انسانی گروہ میں قومی کردار اورنفسیاتی کردار ایک جیسا ہولیکن باقی خوبیاں ندارد تووہ قوم نہیں کہلاسکتی مثلا روس،گارجیا اور کوہ قاف کے یہودیوں کے درمیان ایک قومی کردار کے ہوتے ہوئے بھی قوم نہیں کہلاسکتی کیونکہ ان کے درمیان قومیت کی باقی تمام خصوصیات ندارد ہیں“تو سٹالن کی انہی توضیح اور تعریف کی کی رو سے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے رہنے والے انسانی جمعیت کے بارے میں جومنظرنامہ پھوٹتا ہے وہ کچھ یوں ہے ان کے ارتقا اور عروج میں تاریخ نے ہاتھ بٹائی ہے ان کا خطہ ارض مشترک ہے اور ان علاقوں کا بلوچستان کے ساتھ کسی قسم کی قدرتی حدبندی نہیں جبکہ انہی علاقوں کی قدرتی حدبندی دریائے سندھ کرتی ہے انہی علاقوں کے بہت سے قبائل کی زمینیں اور آبادیاں بلوچستان میں آباد ہیں یہ خالصتاً انگریزوں کی طرف سے نوآبادیاتی سیاسی انتظام اور فاروڈ بلاک کی وجہ سے علیحدہ رکھے گئے جس طرح گندمک معاہدے اور گولڈ سمتھ لائن معاہدے بلوچ اورپشتون سرزمین کی سرحدیں صرف سامراجی اغراض ومقاصد کے لئے افغانستان، ایران،برٹش بلوچستان اور برٹش انڈیا میں شامل کیاگیا ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں بسنے والی انسانی جمعیت کی نفسیاتی ساخت بھی بلوچستان میں بسنے والی بلوچوں کی طرح ہے ان کیخوشی،غمی،غیرت،احساس تفاخر اور بلوچی ازم وغیرہ کرمان سے لے کرڈیرہ غازی خان تک ایک جیسی ہے ان میں بھی کوئی ردو بدل نہیں ان میں اشتراکِ منڈی بھی حیرت انگیز طور پر موجودہے،ان کے معاشی ذرائع اور معاشی مفاد میں بھی خاصی مماثلت پائی جاتی ہے اور اس خطے میں بلوچی اور سرائیکی سمجھی اور بولی جاتی ہے اور عجب بات ہے کہ سرائیکی زبان بونے والوں کی اکثریت کاتعلق بھی بلوچ قبائل سے ہے۔صرف اسی ایک زبان کی خصوصیت کی بنیاد پر کیسے وہ سرائیکی قومیت کاحصہ بن سکتے ہیں جبکہ ان کی تاریخی ہیرو چاکرخان،گہرام،رامین،بیورغ اور ان کے داستان بھی پانی و مرید سے مزین ہو اور ان پرمستزاد یہ کہ تاریخ کیارتقا اور عروج نے قوم بنانے میں ہاتھ بٹایاہو،مشترکہ ارض،مشترکہ معاشی منڈی،مشترکہ لسانی ورثہ اور قومی کردار بھی ہو تو سرائیکی قوم پرست انہیں کیسے بلوچ قومیت سے نکال سکتے ہیں؟؟اور ان کی مجموعی زندگی بلوچ اور بلوچی ازم کی بنیاد پر چل رہی ہو جس کی بنیاد پر ہم ببانگ دھل کہہ سکتے ہیں صرف زبان کی بنیاد پر ہم سرائیکی نہیں بن سکتے اور نہ ہی زبان کی بنیاد پرقوم تبدیل ہوسکتی ہے یہ تاریخی مظاہر کاردعمل ہے اسے ہم محض لسانی تناظر میں جانچ نہیں سکتےحالانکہ ایک ہی خطے میں رہنے والی دو زبانیں بولنے والے ایک مشترکہ تاریخ والی انسانی جمعیت ایک ہی قوم کے حصے ہوتے ہیں جن میں اشتراکِ سرزمین ہے،جن کی مشترکہِ تاریخ ہو،جن کے معاشی مفاد مشترکہ ہو،قومی کردار اور نفسیاتی ساخت بھی ایک جیسی ہوتو وہ کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم سرائیکی قوم کاحصہ ہے؟؟جبکہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں آباد تمام بلوچ قبائل ایک مشترکہ تاریخ رکھتے ہیں،ان کے معاشی،سیاسی،لسانی، نفسیاتی اورتہذیبی اظہاریے ایک جیسے ہوں تو سرائیکی قوم پرست کیسے کہہ سکتے ہیں ہم سرائیکی ہیں؟؟ اور وہ اس کافیصلہ کس عمرانی نظریے کی بنیاد پر کررہے ہیں؟؟شاید وہ علمی اور سائنسی طریقہ کار سے نا واقفیت کی بنا پرایسا کررہے ہیں یا یہ ہمارا مذاق اڑانے کے لئے ایسا کررہے ہیں
خدا کرے!!! ایسا نہ ہو۔۔آمین