بوسیدہ ستون

تحریر: انور ساجدی
جواداحمد چند سال قبل تک ایک مقبول گلوکار تھے نہ جانے کیا ہوا کہ انہوں نے اپنا منافع بخش پیشہ ترک کرکے سیاست کے دریا میں کود پڑے وہ بھی الگ سیاست منفرد سیاست جسے سرمایہ داروں کی زبان میں خودکشی کا نام بھی دیاجاسکتا ہے غالباً انہوں نے کیجیریوال کی عام آدمی پارٹی سے متاثر ہوکر ”برابری پارٹی“ بنائی وہ اس کا نام مساوات پارٹی بھی رکھ سکتے تھے لیکن ماضی میں پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ حنیف رامے نے اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو سے بغاوت کی تو انہوں نے اسی نام سے اپنی پارٹی بنائی لیکن ان کا حشر بھی جتوئی‘پیرزادہ‘ کھر اور مولانا کوثرنیازی جیسا ہوا آخری عمر میں وہ امریکہ شفٹ ہوئے اور وہیں پر اس دنیا سے ایسے کوچ کیا کہ کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔
جواد احمد کی یاد اس لئے آئی کہ انہوں نے
کرونا کی وبا کے دوران حکومتی امداد سے
متعلق سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ پی ٹی آئی
کے ایم این اے،ایم پی اے اور پارٹی لیڈر
عمران خان قوم کو یہ بتائیں کہ اس مشکل
وقت میں خود اپنی کروڑوں،اربوں کی
جائیدادوں کا کتنا فیصد حصہ کرونا فنڈ میں
دیا ہے اسکی لسٹ شائع کی جائے
اسکے بعد وہ دوسرے لوگوں سے چندہ مانگیں
یہ ہماری خیرات اور ٹیکس کے پیسے بڑی
شان سے عوام میں بانٹ کرسیاست کررہے
ہیں اپنی پوسٹ میں جواد احمد سے ایک
غلطی ہوگئی ہے بھئی یہ لوگ خیرات اور
ٹیکس کے پیسے کہاں عوام میں بانٹ
رہے ہیں یہ پاکستانی حکمرانوں کی روایت
ہے کہ ہر زلزلہ سیلاب اور قدرتی آفت کے
بعد یہ اور موٹے تازے اورتگڑے ہوکرنکلتے
ہیں انکے دلوں میں عوام کیلئے کوئی محبت
کوئی جذبہ اور صلہ رحمی نہیں ہے مثال کے
طور پر کرونا کوآئے دومہینے ہونے کو ہیں
یہ لوگ ابھی تک یہ منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ
امداد کس طرح تقسیم کی جائے۔وزیراعظم
کے اعلان کے مطابق سابقہ بینظیرانکم سپورٹ
موجودہ احساس پروگرام کے تحت آج سے
مستحق لوگوں میں امداد کی تقسیم شروع
ہوجائے گی یہ لوگ تورجسٹرڈہیں اور پہلے
سے ہرماہ کچھ نہ کچھ لے رہے ہیں اصل
مسئلہ دیہاڑی دارطبقہ کا ہے وہ بے چارے تو
رجسٹرڈ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی ریکارڈہے
کرونا کوآئے کافی دن ہوچکے ہیں نہ مرکزی سرکار نے ان کا ریکارڈ بنایا اور نہ یہی صوبائی حکومتوں نے ان کا کھوج لگانے کی کوشش کی لہٰذا امداد سے یہی سب سے زیادہ مستحق طبقہ ہی محروم رہے گا۔ان لوگوں کی ایک قلیل تعداد تک مخیر حضرات نے رسائی حاصل کی ہے حکومتیں سورہی ہیں سب سے افسوسناک سلوک سندھ حکومت کا ہے اس نے شروع میں کافی بلند وبانگ دعوے کئے تھے اور گھر گھر راشن پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن ہر روز اس دعوے کی حقیقت کھل کر سامنے آرہی ہے گزشتہ روز لیاری کے ایک علاقہ میں عوام نے مایوس ہوکر پیپلزپارٹی کا پرچم نذرآتش کردیا لیاری اوراس طرح کے علاقوں میں لاک ڈاؤن بھی ناکام ہے کیونکہ روٹی نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے خدشہ ہے کہ کرونا کی وبا کراچی کی کچی آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ابتک ان علاقوں کے دوخاندان مرض میں مبتلا پائے گئے ہیں کراچی کے سینکڑوں کچی آبادیاں ہیں اگر وبا ان میں سرایت کرگئی تو آوے کا آوا بگڑ جائیگا لاک ڈاؤن سمیت حکومت کی ساری سختیاں دھرے کے دھری رہ جائیں گی۔
کراچی میں کچھ گمنام لوگ مستحقین کی مدد کررہے ہیں جو گمنام ہیں اور انہیں کوئی نہیں جانتا جبکہ نامی گرامی ارب پتی سیٹھ غریبوں کی مدد کی بجائے خود حکومت سے خیرات اور مراعات مانگ رہے ہیں جمعرات کو کراچی کے چھوٹے تاجروں کے لیڈر عتیق میر اور کراچی اسٹاک ایکسچینج کے اہم کھلاڑی قاسم سراج تیلی،ظفر موتی والا اور فیڈریشن کے صدر نے سیٹھوں اور تاجروں کیلئے پیکیج کا مطالبہ کیا ہے حالانکہ چند روز قبل وزیراعظم نے اپنے ہاتھوں سے ان لوگوں کو ایک سو ارب روپے کے چیک تقسیم کئے تھے جبکہ بلڈرمافیا کو دوسوارب روپے کے ٹیکسوں میں چھوٹ دی تھی اور انہیں اجازت دی تھی کہ وہ اپنی بلیک منی کو تعمیراتی کاموں میں لگاسکتے ہیں اسکے باوجود اس طبقہ کا پیٹ نہیں بھرا اور وہ مزید عنایات اوررعایات کا طالب ہے وزیراعظم نے سیٹھوں کومراعات دیتے وقت یہ نہیں سوچا کہ اس وقت غریب طبقہ اور محنت کش مشکلات کا شکار ہیں انہوں نے برآمدات میں اضافہ کیلئے بھی پیکیج کا اعلان کیا حالانکہ سارے کارخانے بند ہیں توپیداوار کہاں ہوگی اور مال کہاں جائیگا۔
چونکہ وزیراعظم کا گہرا تعلق سیٹھ صاحبان سے ہے کیونکہ وہ اکثر انہیں کروڑوں کا چندہ دے کر اربوں وصول کرتے رہے ہیں لہٰذا انکی نظر غریب لوگوں تک نہیں جاتی حالانکہ انہوں نے نیا پاکستان بنانے اور تبدیلی لانے کانعرہ لگایا تھا گزشتہ انتخابات میں تمام جماعتوں کے انیکٹیلز توڑکرکامیابی حاصل کی اور جس کی وجہ سے انکی تبدیلی کا نعرہ کالاباغ کے مقام پر دریائے سندھ میں ڈوب گیا وہ سابق حکمرانوں کی طرح ”اسٹیٹس کو“ برقراررکھے ہوئے ہیں اور بیڈگورننس کی وجہ سے سابقہ حکومتوں سے بھی پیچھے ہیں کرونا پھیلنے کے بعد انکے قوت فیصلہ کاپول بھی کھل چکا اورثابت ہوگیا کہ بحران کے وقت وہ قیادت کرنے کے اہل نہیں ہیں آج کل وہ ڈرارہے ہیں کہ کرونا اتنا پھیل جائیگا کہ اسپتالوں میں جگہ نہیں ہوگی حالانکہ شروع میں موصوف نے فرمایا تھا کہ یہ معمولی نزلہ اور زکام ہے وزیراعظم کو بیماری کی سنگینی کاپتہ چلا تو بہت دیر میں چلا جس کی وجہ سے کافی سارانقصان ہوگیا۔
عین بیماری کے عروج میں انہوں نے صوبوں کے دورے کافیصلہ کیاہے۔انہیں چاہئے تھا کہ جس دارالحکومت میں جاتے اپنے ساتھ ڈاکٹروں کے تحفظ کا سامان سی130طیارے میں لے جاتے لیکن وہ ہرجگہ جاکر طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہیں کرتے اس وقت انکے دوروں کی ضرورت نہیں بلکہ اسلام آباد میں ڈٹ کر بیٹھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے اگر انہوں نے صوبوں کی مدد کرنی ہے تو امداد کا حصہ انکے ہاتھوں میں رکھیں اور نگرانی کریں کہ یہ امداد عام آدمی تک پہنچ رہی ہے کہ نہیں وزیراعظم دراصل ”ون مین شو“ پر یقین رکھتے ہیں وہ اپنے کاموں میں کسی کو شریک کرنے کے روادار نہیں اس لئے انہوں نے اپوزیشن کو ”دھوبی“ کاکتا بناکر رکھا ہے ان کا کہنا ہے کہ کرپٹ لوگوں سے کیا ملنا اور کیا بات کرنی ہے حالانکہ تازہ ترین واقعات میں انکے اپنے ساتھی چور ثابت ہوئے ہیں اسی دوران وزیراعظم ایک اورخطرناک کام کرنے جارہے ہیں انہوں نے گزشتہ دو حکومتوں کے دوران حاصل کردہ بیرونی قرضوں کی رپورٹ بنوالی ہے اور وہ کسی وقت بھی ٹی وی پر آکر ان قرضوں کو خردبرد کرنے کا الزام لگانے والے ہیں یہ الگ بات کہ انہوں نے خود جو قرضے لئے ہیں ان کا حساب کتاب بھی نہیں ہے اگر وزیراعظم نے سابقہ قرضوں کو اسکینڈل بناکر پیش کیا تو آئندہ عالمی ادارے اپناہاتھ کھینچ لیں گے اور نہ ہی کوئی ملک امداد دے گا وزیراعظم کو بس نام کمانا ہے چاہے وہ کیسے بھی کمائیں اگر وہ کل کو کرسی سے اتر گئے تو چند دن بھی بنی گالا میں سکون سے نہیں بیٹھ سکیں گے بلکہ سیدھا نیب کے شکنجے میں آجائیں گے انکے ساتھیوں نے جو کچھ کیا ہے وہ ریکارڈ میں محفوظ ہے بس کرسی سے اترنے کی دیر ہے۔
ویسے پاکستان میں اسٹیٹس کو اوراسے چلانے والے عالی دماغ ناکام ہوگئے ہیں نئے حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ایک نئی سیاسی فورس بلکہ عوامی سیاسی فورس وجود میں آجائے بے شک لوگ اکیلے ہونے پر جواداحمد کا مذاق اڑائیں لیکن انہوں نے ایک نیاخیال پیش کیا اور انکے نئے خیال کا تعلق آنے والے کل سے ہے اس وقت جتنی جماعتیں رہنما اور انکے پشت پناہ ہیں وہ ازکار رفتہ اورسیاست کہنہ کے نمائندہ ہیں ان پر مشتمل نظام دیمک زدہ ہے جو کسی قابل نہیں ہے جس طرح1950ء کی دہائی میں تمام ترقی پسند جماعتوں نے ادغام کرکے نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی تھی آج ایک بار پھر اسی طرح کاعمل درکار ہے جواد احمد تو سرمایہ دار اور جاگیردار نہیں ہیں لیکن انکے پاس نئی سوچ اور فکر ضرور ہے ملک میں اس طرح کی سوچ رکھنے والے سیاسی کارکنوں کی کمی نہیں ہے بس اس نظام اور اسکے سرپرستوں کونہایت ہمت اور بہادری کے ساتھ چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا موجودہ گلاسڑا نظام اور سیاسی کلچر کو جلاکر دفن کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسکی بنیاد عوام دشمنی،کرپشن،لوٹ مار اور تابع فرمان ہوتا ہے اگریہ نظام برقرار رہا جو نہ جمہوری ہے،نہ پارلیمانی ہے اور نہ آمرانہ ہے،پتہ نہیں کیا ہے یہ ریاست مزید تباہ حالی کاشکار ہوجائے گی اور اس قابل نہیں رہے گی یہ کھربوں ڈالر کے غیرترقیاتی بوجھ اٹھاسکے۔
اگر میں سیاست میں ہوتا تو جواداحمد کاساتھ
دیتا تاکہ ایک سے دوہوجائیں اور کسی نے تو
آنا نہیں تھالیکن مجبوری یہ ہے کہ میں کسی قسم
کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا جواداحمد
سراسرگھاٹے میں رہیں گے اگر وہ پڑھے لکھے
نہ ہوتے اورشیخ رشید احمد کی طرح جوتے چمکا
کررکھتے تو انہیں بھی ایک سیٹ اور ایک
وزارت مل سکتی تھی لیکن انکی خامی یہ ہے
کہ انہوں نے ڈھیر ساری کتابیں پڑھ رکھی ہیں
اور وہ گارڈن کالج کے ایف اے فیل نہیں ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں