پاک افغان سفارتی تعلقات منقطع

افغان حکومت نے پاکستان میں متعین سفیر نجیب اللہ علی خیل کوواپس بلا لیا ہے وجہ اسلام آباد میں سفیر کی بیٹی کا مبینہ اغوا، تشدداورناقص سیکیورٹی بتائی گئی ہے۔افغان حکومت کا کہنا ہے کہ بیٹی پر تشدد سے ہماری روح بھی زخمی ہوئی ہے۔ جب تک واقعہ میں ملوث افراد کو سزااور سفارت کاروں کو تحفظ نہیں دیا جاتا،علہ نہیں جائے گا۔ افغانستان کا اعلیٰ سطح کا وفد جلدی ہی پاکستان کا دورہ کرے گا۔پاکستان نے سفیر واپس بلانے کے فیصلے کو افسوسناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ سفیر اس واقعہ کی تحقیقات میں تعاون کریں۔وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا میں ملوث تمام عناصر کو جلد از جلد گرفتار کرکے تمام حقائق میڈیا کے سامنے پیش کریں گے۔وزیر داخلہ نے پورے وثوق سے کہا کہ یہ عالمی سازش اور را کا ایجنڈا ہے، اغوا کا معاملہ نہیں ہے۔ لڑکی گھر سے نکل کرپیدل مارکیٹ پہنچی وہاں سے ایک ٹیکسی کے ذریعے کھڈا مارکیٹاور وہاں سے دوسری ٹیکسی کے ذریعے راولپنڈی میں ایک شاپنگ مال پہنچی اوروہاں سے تیسری ٹیکسی کے ذریعے دامن کوہ چلی گئی تھی۔جن ٹیکسیوں میں اس نے سفر کیا ہے ان کے ڈرائیورزکو بھی شامل تفتیش کرلیا ہے، اور ان مقامات پر جانے کی سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج موصول ہوگئی ہیں، کیس کی لڑیاں کھل رہی ہیں، اب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ افغان سفیر کی بیٹی راولپنڈی سے دامن کوہ اور وہاں سے ایف نائن پارک کیسے پہنچی؟جہاں سے انہوں نے فون کیا تھا۔تفتیشی ذرائع بھی تفتیش کے دوران اس سے ملتی جلتی پیشرفت بتا رہے ہیں اس میں بھی اغوا والا مؤقف کمزور دکھائی دیتا ہے۔ تاہم معاملہ حساس نوعیت کا ہے، دو ملکوں کے تعلقات پر اثر انداز ہوا ہے،اس لئے مکمل تفتیش سامنے آنے تک قیاس آرائی نہ کی جائے۔افغان سفیر نے میڈیا پر اپنی بیٹی کے تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے مجبوراً یہ تصویر شیئر کرنی پڑی ہے اس لئے کسی اور بچی کی تصویر کو میری بیٹی کی تصویر کے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کی بعض عناصر اس واقعے کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کرکے تفتیشی عمل کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا چاہتے ہیں یا ان کے عزائم کچھ اور ہیں۔وزیر اعظم عمران خان افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا کی تفتیش کو دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے افغانستان اس وقت داخلی محاذ پر خانہ جنگی کی کیفیت سے دوچار ہے۔افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اقتدار کی جنگ لڑی جا رہی ہے، دوحہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ پاکستان اور اشرف غنی حکومت میں پہلے ہی الزام تراشی اور استرداد کا سلسلہ جاری ہے۔پہلے بھی مثالی تعلقات کا فقدان رہا ہے۔ایک کانفرنس میں افغان صدر نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان سے 10 ہزارافراد افغانستان میں داخل ہوئے تھے،اس کی تردید ان کی موجودگی میں ہی پاکستان کے وزیر اعظم نے کر دی تھی۔اس کے علاوہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستان آنے کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں،اقوام متحدہ نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے مزید فنڈز کی اپیل کی ہے۔لیکن اس بار روس اور چین کے علاوہ دیگر ہمسایہ ملک بھی کوشاں ہیں کہ افغانستان طویل خانہ جنگی کی طرف نہ جائے، افغان طالبان اور افغان حکومت باہمی مذاکرات کے ذریعے حکومت سازی کے مسائل حل کریں۔افغان طالبان کی جانب سے کہا جارہا ہے کہااس ضمن میں کسی ملک سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد بھی بار بار یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ اس مرتبہ ماضی والی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔ بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا جائے گا۔خواتین سمیت انسانی حقوق افغانستان میں نافذ رہیں گے۔خواتین کو محرم کے بغیر آنے جانے کی آزادی ہوگی، تعلیم حاصل کر سکیں گی،کاروبار اور ملازمت کا حق حاصل ہوگا۔صرف زبانی کلامی دعووں سے کام نہیں چلے گا،یہ سب کچھ زمین پر ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیئے۔افغانستان 193ملکعوں کی عالمی برسادری کا ایک رکن ہے، کوئی الگ تھلگ جزیرہ نہیں۔توقع کی جانی چاہیئے کہ افغان حکومت بھی داخلی محاذ پر خانہ جنگی کے خاتمہ کو پہلی ترجیح سمجھتے ہوئے افغان طالبان سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیادوں پر کسی قابل عمل اور دیرپا معاہدے تک پہنچنے میں تساہل سے کام نہیں لے گی۔امریکہ سے انخلاء کی شرائط کی بجائے اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کے دوران لب و لہجہ باوقار ہونا چاہیئے۔دونوں نے اسی ملک میں رہنا ہے۔ کوئی فریق دوسرے کو نہ ماضی میں نیست و نابود کر سکا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک کے پاس نیلسن منڈیلا یا آیت اللہ خمینی جیساکوئی کرشمہ ساز لیڈر ہے کہ تمام افغان عوام اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے۔مشکل حالات اور مشکل مسائل حل کرنے کے لئے دونوں فریق غیر معمولی فہم و فراست سے کام لیں۔دونوں فریق یاد رکھیں خانہ جنگی مسائل کا حل نہیں دے سکے گی۔ایک عبوری حکومت پر اتفاق کیا جائے، اسے مختصر مدت میں انتخابات کرانے کی ذمہ داری سونپی جائے اور مستقل حل نکالا جائے۔ پاکستان لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی مہمانداری گزشتہ کئی دہائیوں سے کر رہا ہے۔یہ آسان کام نہیں،ملک کی معیشت بری طرح متأثر ہوتی ہے، دیگر سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔خود مہاجرین کے بچے اسکول جانے کی بجائے والدین کی کفالت کا بوجھ قبل از وقت اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانے پر مجبور ہیں، اپناگھر ایک جنت سمجھا جاتا ہے،پرائے دیس میں ان دیکھی مشکلات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیئے۔افغان حکومت اور افغان طالبان اپنے ہم وطنوں پر رحم کریں۔ بندوق رکھیں،امن قائم کریں۔افغان سفیر کی بیٹی کے ساتھ جو مبینہ بد سلوکی ہوئی اس کی تحقیقات میں تعاون کیا جائے۔تعاون کے بغیر اصل مجرموں تک رسائی میں تاخیر ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔یہ کوئی راز نہیں کہ افغانستان میں جاری بد امنی کے منفی اثرات براہ راست پاکستان پر پڑتے ہیں۔ افغان سفیر کی بیٹی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے تانے بانے بھی اسی سمت اشارہ کرتے ہیں۔افغان حکومت زمینی حقائق کے مطابق اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی طے کریں۔اپنا گھر درست کرنے پر توجہ دیں چاردہائیوں تک عوام نے گولے بارود کا عذاب جھیلا ہے۔انہیں پرسکون زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے، افغان حکومت اور افغان طالبان اس ذمہ داری سے روگردانی نہ کریں۔پاکستان بھی تحقیقات میڈیاکے سامنے لائیں،تاکہ یہ کشیدگی ختم ہو سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں