کچھ تو لوگ کہیں گے

تحریر: جمشید حسنی
میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں یہ نہیں کہ واقعات اور موضوعات کی کمی ہے،ٹی وی کے ہر چینل پر کھڑوس ریٹائرڈ جنرل،بیورو کریٹ،صحافی،ماہرین معاشیات،سیاستدان بیٹھے ہوتے ہیں جن کے پاس نہ جانتے ہوئے بھی کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے تبصرے تجزیے پیش گوئیاں ہر چینل پر کسی صحافی کامستقل پروگرام ہوتا ہے مجھے کسی سے چڑ نہیں رشک آتا ہے کہ ہم بات کرنے کا ڈھنگ ابھی تک کیوں نہ سیکھ سکے۔
ہمارے مرحوم وکیل دوست نورمحمد اچکزئی جمہوری وطن پارٹی میں تھے اس نے بتایا میزان چوک میں پارٹی کا جلسہ تھا سلیم بگٹی نے خطاب کیا۔
اس وقت اہم مسئلہ افغانستان ہے۔ہمارے شیر وزیر نے قسم کھا رکھی ہے کہ کچھ نہ کچھ بولنا ہے،خارجہ معاملات،وزارت خارجہ،وزیر خارجہ کا موضوع ہوتا ہے،ون وزیروں سے پوچھیں کہ افغانستان کے بارے میں انہوں نے کتنی کتابیں پڑھی ہیں کسی علاقے میں کونسی قوم رہتی ہے،سن 80میں افغانستان کے بارے میں لوئس ڈمیرے کی.تحقیقاتی کتاب کا چرچا تھا افغانستان کی گریٹر کابل ہیں۔امیر کے قتل کے بعد شروع ہوئی آج افغان، تاجک،ازبک،ہزارہ،مغل،پشتون،فارسی بان میں بٹا ہوا ہے وادی نہج شیر میں احمد شاہ مسعود کا بابھائی اور بیٹا ہیں مزار شریف روستم تھا ہرات میں اسماعیل خان تھا،طالبان تمام پشتون ہیں آج بڑا مسئلہ قومی اور امورپراتحاد ہے طالبا ن کی حکومت بن نہیں رہی ہم کو آرم نہیں آتا پھر یہ بیانیہ کہ ہم غیر جانبدار ہیں طالبان نے فی الحال صرف چین کے بارے میں مثبت اظہار کیا ہے،یورپ امریکہ ہے مستقبل کے تعلقات مبہم ہیں،مغرب امریکہ نے افغانستان کے اثاثے منجمد کردیئے ہیں اسلامی عالمی سیاست میں اتنے طاقتور ہیں کہ پہلے چالیس لاکھ مہاجر پاکستان میں ہیں۔گڑبڑ بڑھی تو مزید مہاجر آسکتے ہیں افغانستان سے ستر ہزار شہریوں کا انخلاء ہوچکا ہے 2500امریکی ہیں آسٹریلیا یوگنڈہ نے دو دو ہزار شہری لینے کا وعدہ کیا ہے مگر یہ کافی نہیں افغان ان پڑھ غیر ہنر مند قوم ہے۔ یورپی ممالک میں جسمانی مشقت سے زندگی کی بہتری کاامکان نہیں فرانس میں چالیس لاکھ الجزائری آباد ہیں ان کا معیار زندگی عام فرانسیسی کے معیار زندگی سے کم ہے نسلی تعصب ہے و ہ مسلمان ہیں۔
پاکستان میں افغان شہریوں کو پاکستانیوں کے حقوق حاصل نہیں نہ سرکاری ملازمت ملتی ہے۔افغانستان کی زراعت محدود ہے نہ دریائے نیل ہے نہ گنگا جمنا نہ دریائے سندھ نہ دریائے نہ معدنیات،انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے کوئی کارخانہ،صنعت نہیں،تعلیم محدود ہے،طرز زندگی اکثیریت خانہ بدوش جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے یورپ کی بحالی کے لئے آئی ایم ایف بنائی،جنوبی شمالی کوریا جاپان ویت نام باہمت قومیں ہیں اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئیں،جاپان اس وقت عالمی معاشی صنعتی قوت ہے۔کار سازی میں ٹویا ٹا کی آمدن دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔تعلیم تیکنیکی مہارت کے لئے وقت اور وسائل درکار ہوتے ہیں افغانستان میں چالیس سال خانہ جنگی رہی یورپ امریکہ کو افغانستان سے دلچسپی نہیں امریکہ روس رسوا ہو کر نکلے،کہتے ہیں ممکن ہے کہ وہ افغانستان کو ٹیکنالوجی دیں گے وہ تو کہتے ہیں ملک گروی رکھو،آئی ایم ایف سے سود پر قرض لو اور اس کی معاشی پالیسی مانو،افغانستان میں امن ہوجائے تو بڑی بات ہے۔
رہے ہم ہمارے بیانات اور ڈینگیں یہاں تو افغان امور پر فردوس عاشق اعوان،فواد چوہدری،شیخ رشید اتھارٹی ہیں،ان کے بیان سنیں ہم معاشی طور پر اتنے مستحکم نہیں کہ افغانستان کے لئے کچھ کرسکیں گے۔ہم تو درآمدی دال،آٹا،چینی خوردنی تیل مہنگے داموں درآمد کرتے ہیں زیتون کے باغ سال میں تو فصل نہیں دیتے،افغانستان میں حکومت میں نہیں معلوم نہیں مستقبل میں حکومت کی نوعیت کیا ہوگی ملک اسلامی امارت ہوگیا ہے جھنڈے تبدیل کردیا گیا ہے۔جمہوریت ووٹ کی کوئی بات نہیں،
پاکستان کی پوزیشن عجیب ہے سلامتی کونسل میں پاکستان کو نہیں پوچھا گیا امریکہ ہمیں منہ لگانے کو تیار نہیں ملک میں کرونا ہے افغان سرحد کھولو بند کرو نہ ٹرانزٹ تجارت ختم ہوسکتی ہے نہ لوگوں کا آنا جانا طالبان حکومت کوامریکہ یورپ نے تسلیم نہیں کرنا،سلامتی کونسل میں سے تین نشستیں اور ویٹو امریکہ برطانیہ فرانس کے پاس ہے،ہماری حکومت رابطہ کر ے تو کس سے کرے،سلامتی کونسل میں روس چین کچھ نہ کرسکیں گے افغانستان کی مشکلات کم نہیں ہوئی،معاملہ فواد چوہدری کے بیانوں سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔