تیزاب

تحریر: انورساجدی
لوگ افغانستان کا رونا رورہے ہیں لیکن اس کے پڑوس میں واقعے مستحکم ریاست کے حالات بھی ٹھیک نہیں۔افغانستان میں تو دوبارہ طالبان کا انقلاب آیا ہے اور وہاں سے امریکہ دوسری بار فرار ہوا ہے لیکن پاکستان میں ایک حکومت قائم ہے ادارے دائم ہیں اس کے باوجود مجموعی طور پر صورتحال کنٹرول سے باہر ہے ایسالگتا ہے کہ یہاں کے لوگ ایک تیزاب زدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں کسی کو معلوم نہیں کہ کیا کرنا ہے حکومت ہو یا عام لوگ سب ابہام کا شکار ہیں جنرل ضیاؤ الحق نے1980ء کی دہائی میں دونوں ممالک کوافراتفری انتشار اور دہشت گردی کے جس تیزاب میں ڈالا تھا اس کے اثرات ابھی تک برقرار ہیں۔
برسوں پہلے لاہور میں ایک ہولناک اسکینڈل سامنے آیا تھا جس میں ایک شخص جاوید اقبال نے100بچوں کو قتل کے بعد تیزاب کے تالاب میں ڈالا تھا یہ اس ریاست کی تاریخ کا سب سے افسوسناک واقعہ تھا اس کے باوجود مختلف حکومتوں نے تیزاب کے کھلے عام فروخت پر پابندی نہیں لگائی غالباً یہ دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں تیزاب پانی کی بوتلوں کی طرح فروخت ہوتا ہے۔دوسرا واقعہ قصور میں سینکڑوں بچوں کو ریپ کے بعد اذیتیں دے کر قتل کرنا تھا چند اینکروں نے وارداتوں میں ملوث افراد کو ایک ایسے گینگ کاحصہ بتایا تھا جو ڈارک ویب سے وابستہ تھے ڈارک ویب پر ایسے ہولناک جرائم کی لاکھوں ڈالر قیمت ادا کی جاتی ہے ایک اینکر شاہد مسعود واقعہ کو رپورٹ کرنے کی وجہ سے اپنے کیریئر سے ہاتھ دھو بیٹھے کیونکہ بہت ہی بااثر لوگ ان واقعات کے پیچھے تھے صرف ایک نوجوان کو پھانسی دے کر واقعہ کو داخل دفتر کردیا گیا ضیاؤ الحق کے دور میں ایک ہتھوڑا گروپ راتوں رات سرگرم ہوگیا تھا جو بے گناہ لوگوں کے سرکچلتا تھا لیکن آج تک اس کی تحقیقات نہیں ہوئی اور تو اور ضیاؤ الحق کے دور میں اوجھڑی کیمپ سانحہ پیش آیا تھا جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے تھے جن میں شاہد خاقان کے والد خاقان عباسی بھی شامل تھے محمد خان جونیجو نے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا تو انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے اہل پنجاب کا دعویٰ ہے کہ لاہور پاکستان کا دل ہے لیکن گزشتہ تین سالوں سے اس شہر میں انسانیت کیخلاف مظالم کا ختم نہ ہونے والا ایک سلسلہ چل رہا ہے لیکن حکومت سطحی اقدامات اٹھاکر آگ بجھانے کی کوشش کررہی ہے اگر لاہور کے حالیہ واقعات کراچی میں ہوتے تو اس وقت انصافی لیڈر اورسارے اینکر سندھ حکومت کیخلاف مورچہ لگاکر یک زبان ہوکر مطالبہ کررہے ہوتے کہ سندھ میں گورنرراج لگایاجائے۔
ایک واقعہ گوادر میں ہوا جب لوگوں نے پینے کے پانی کی فراہمی کا مطالبہ کیا دوسرکاری اہل کاروں نے مظاہرہ میں گھس کر غنڈوں کی طرح کابرتاؤ کیا ان کی آواز واضح طور پر سنی جاسکتی ہے کہ گزشتہ حکومت آپ کی تھی۔پانی دینا اس کا کام تھا یہ ہماری حکومت ہے ہم اپنی مرضی کے مطابق کام کریں گے معلوم نہیں کہ کب سے بلوچستان کے سرکاری ملازم حکمران جماعت کے رکن بن گئے ہیں حالانکہ وہ پبلک سرونٹ ہیں ان کاکام ہے مسائل حل کرنا عوام کو زدوکوب کرنا نہیں پھر لوگ اپنے ایک بنیادی حق کا مطالبہ کررہے تھے کوئی خلاف قانون عمل نہیں کررہے تھے بلوچستان کی انتظامیہ اپنے اصل فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہے اس کا زور بھی نہتے عوام پر چلتا ہے ایک اہم بات یہ ہے گزشتہ تین سالوں میں حکومت زمین یا زمینی حقائق کے مطابق نہیں چل رہی بلکہ وہ نیٹ پر چل رہی ہے اس لئے وہ عوام اور زمینی حقائق سے کہیں دور ہے اسلام آباد میں وزیراعظم کو آراستہ لاؤنجز خوبصورت گرافک اورسلائیڈز کے ذریعے ترقی کے وہ نظارے دکھائے جاتے ہیں جو سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا کے مناظر پیش کرتے ہیں انہیں دیکھ کر وزیراعظم مطمئن ہوکر چلے جاتے اور اپوزیشن اور میڈیا کو برابھلا کہتے ہیں جو ان کے خیال میں تصویرکا اصل رخ پیش نہیں کرتے اسی وجہ سے حکومت نے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ میڈیا کو نانی یاد دلائی جائے اگر یہ کالا سیاہ قانون منظورہوگیا تو میڈیا کا آزادانہ کردار ختم ہوجائے گا اس کی حیثیت مغل دربار کے ان قصیدہ گو مصاجبین کی رہ جائے گی جو اچھا کلام پیش کریں تو انعام ملے گا اگر کوئی کلام بادشاہ سلامت کی طبعیت پر گراں گزری تو سرقلم ہوجائے گا یہ جو زیرنظر تحریر ہے مجوزہ قانون کے نفاذ کے بعد یہ سنگین جرم ٹھہرے گا اور کسی کی جرأت نہ ہوگی کہ وہ حاکمان وقت کی شان میں کوئی گستاخی کرسکے۔
جنرل محمدضیاؤ الحق معمار افغانستان معمار پاکستان اور عالم اسلام کے عظیم ترین سپہ سالار کی مثال سامنے ہے ایک واقعہ درج کردیتا ہوں جس سے ساری صورتحال واضح ہوجائیگی۔
جنرل صاحب کوئٹہ کے گورنر ہاؤس میں میڈیا سے مخاطب تھے ایسے میں بزرگ صحافی اردو کے ماہر لسانیات ہفت روزہ ساربان کے مدیر ملک محمد رمضان بلوچ اپنی نشست سے اٹھے فرمایا کہ
میں حیران ہوں کہ گفتگو کاآغاز کہاں سے کروں کیونکہ میرے سامنے عالم اسلام کے عظیم ترین سپہ سالار موجود ہیں۔جناب والا عمر میں آپ مجھ سے چھوٹے مگر مرتبہ میں کہیں بڑے ہیں اس لئے آپ اس حوالے سے میرے بزرگ اور باپ ٹھہرے۔
میں چاہتاہوں کہ عوام کی چند خواہشات آپ کے سامنے رکھوں اور یقین دہانی حاصل کروں کہ آپ ان پر عمل درآمد کروائیں گے۔جناب والا سیاستدانوں نے اس ملک کا بیڑہ غرق کیا وہ آپ کے سامنے ہے لہٰذا آپ ملک کو دوبارہ ان بھیڑیوں کے حوالے نہ کریں بلکہ نظام مصطفی نافذ کرکے تاحیات اپنے ملک اور امت کی خدمت کریں ملک صاحب نے اور بھی بہت کچھ کہا لیکن اس کے درج کرنے کی گنجائش نہیں انکے خطاب کے دوران ضیاؤ الحق اسٹیج سے نیچے اترآئے ملک صاحب کو گلے لگاکر ان کا ہاتھ چوما اور کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ بلوچستان جیسے علاقے میں بھی آپ جیسے گوہرنایاب موجود ہیں انہوں نے ملک صاحب کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ کہیئے میں آپ کی کیاخدمت کرسکتا ہوں ملک صاحب نے کہا کہ ساری عمر ملک کی خدمت کی ہے حج پر جانے کا اشتیاق ہے ضیاؤ الحق نے آواز لگائی صدیق سالک ملک کے حج پر جانے کے انتظامات کیجئے ملک صاحب نے پھر کہا کہ جناب اپنے دیرینہ ساتھی مولوی عبدالواحد کو بھی ساتھ لے جانا چاہتاہوں ضیاؤ الحق نے کہا اوکے اس کے بعد ضیاؤ الحق نے پوچھاکوئی اور خدمت ملک صاحب نے کہا کہ پیرانہ سالی کے باوجود کوئی ذاتی مکان نہیں ہے ضیاؤ الحق نے کہا صدیق سالک ملک صاحب کو دوسو گز کاپلاٹ دیجئے اس پر ملک صاحب نے کہا کہ جناب کثیر العیال ہوں دوسوگز کم ہیں ضیاؤ الحق نے کہا کہ چارسوگز کا پلاٹ آپ کو الاٹ ہوگا انہوں نے دوبارہ پوچھا اور کوئی خدمت ملک صاحب نے کہا کہ ولایت دیکھنا چاہتاہوں انہوں نے پھر حکم دیا کہ ملک صاحب کے لندن جانے کا بندوبست بھی کیجئے۔اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جب ضیاؤالحق اور ان کے روحانی شاگرد عمران خان جیسے حاکم ہوں گے تو غیرجانبدار صحافی اور آزاد میڈیا کہاں ہوگا ہوسکتا ہے کہ میڈیا پاکستان کے بعض اینکر یہ کچھ کرنے میں عار نہ سمجھیں لیکن کافی لوگ مجبور ہوجائیں گے کہ یہ پیشہ ترک کردیں اور کہیں دور دیس جاکر گمنامی کی زندگی گزاریں حیرانی کی بات ہے کہ موجودہ حکومت اپنی 3سالہ کارکردگی کا جشن منانے کا ارادہ رکھتی ہے کارکردگی؟ یہ جو حالات ہیں انہی کو کارکردگی کہاجاتا ہے مہنگائی کو دیکھیں عام آدمی کی حالت دیکھیں امن وامان دیکھیں تیزاب زدہ سماج کو دیکھیں آیا کوئی کارکردگی والی بات نظرآتی ہے۔حکومت نوازشریف کی چھوڑی ہوئی 5.8شرح نمو کو ڈھائی فیصد پر لاکر اسے اپنی کارکردگی بتارہی ہے بینظیر انکم سپورٹ کانام بدل کر اور چند ناکام مسافرخانے کھول کر اپنے آپ کو شیرشاہ سوری کی حکومت سمجھ رہی ہے۔
افغانستان میں اتنی بڑی تبدیلی آئی حکومت کی خارجہ پالیسی واضح نہیں ہے طالبان کو ڈرانے کیلئے شمالی اتحاد کے رہنماؤں کو بلاکر ایک نیامحاذ کھولنا کوئی کامیابی ہے حکومت کے نزدیک پارلیمنٹ کی یہ وقعت ہے کہ اتنے بڑے واقعات کے باوجود اسے اعتماد میں نہیں لیا جارہا ہے۔
گزشتہ روز حکومت نے اعلان کیا ہے کہ8لاکھ افغان مہاجرین کو قبول کیاجائیگا یہ فیصلہ کس سے پوچھ کر کیا گیا فی الحال تو کہاجارہا ہے کہ آفت زدہ وزیرستان میں کیمپ کھولے جائیں گے لیکن یہ لوگ بہت جلد وانا کراس کرکے بلوچستان میں داخل ہوجائیں گے جبکہ ان میں سے کئی لاکھ لوگ کراچی کا رخ کریں گے حکومت اتنابڑا فیصلہ یک طرفہ طور پر کررہی ہے اور اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
افغانستان کے حالات کس کروٹ بیٹھیں گے کسی کو معلوم نہیں طالبان حکومت سازی میں ناکام ہیں شمالی اتحاد والے انجانے خوف میں مبتلا ہیں عظیم سپرپاور امریکہ کے حواس باختہ صدر روز اپنے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے سچے جھوٹے بیانات جاری کررہے ہیں صرف ایک ملک مطمئن نظرآتا ہے وہ ہے چین اسکو خوش فہمی ہے کہ پورا افغانستان اسکی جھولی میں آکر گرے گا کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ چین بھاری قرضے دے کر آخر کار افغانستان کو خرید گا لوگوں کا خیال ہے کہ جس طرح انگریز روس اور امریکہ ناکام ہوئے چین بھی بے نیل ومرام لوٹ جائیگا لیکن چین کافی مختلف ملک ہے جس طرح تبت منگولیا اور سنکیانگ کو غلام بنایا ہے افغانوں کوکنٹرول کرنا اسکے لئے مشکل نہیں ہے چین ہمارے ساتھ کیا کرے گا اس سلسلے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
٭٭٭