جرنیلی سڑک

تحریر: انورساجدی
کراچی کوئٹہ شاہراہ پر بے شمار مرتبہ گزرنا ہوا لیکن وڈھ شہر کے اندر جانا نہ ہوا یہ شاہراہ شروع میں بے نام تھی تاہم ایوب خان کے دور میں اسے آر سی ڈی کا نام دیا گیا آر سی ڈی ترکی ایران اور پاکستان کے درمیان علاقائی تعاون کی تنظیم تھی 1960ء کی دہائی میں جب ان ممالک میں بدترین آمریت قائم تھی تو ان کے درمیان تعاون مثالی تھی امریکا نے سینٹو اور سیٹو کے نام سے جو دو اتحاد قائم کئے تھے یہ ممالک ان کے رکن تھے یہ شاہ ایران کے عروج کا دور تھا اس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ شاہ ایران امریکا کا علاقائی تھانیدار ہے ایوب خان بھی امریکا کا قریبی اتحادی تھے اور اس نے امریکا کو تذدیراتی اڈے فراہم کئے تھے ان آمریتوں نے پورے خطے کو پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلے رکھا اور آج بھی ایران اور پاکستان کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے شاہ کا تختہ ایک مرتبہ ڈاکٹر مصدق نے عوامی طاقت سے الٹا تھا لیکن جلد ہی امریکا اور برطانیہ نے مصدق کی حکومت ختم کرکے شاہ کو دوبارہ تخت پر بٹھادیا نئی زندگی ملنے کے بعد شاہ ایک فرعون بن گئے تھے اور زعم اتنا تھا کہ اپنے آپ کو ”آریہ مہر“ اور شہنشاہ کا لقب دے ڈالا حالانکہ ان کے والد رضا شاہ ایک معمولی سپاہی تھے اور کسی طرح سے وہ حکومت پر قابض ہوگئے رضا شاہ نے یعنی باپ بیٹے نے اپنے طویل دور حکومت میں بلوچوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ ہمیشہ لفظ بلوچ سے خائف رہتے تھے انہوں نے بھٹوپردباؤ ڈالاکہ پہلی بلوچ حکومت کو برخاست کیا جائے کیونکہ اس سے مغربی بلوچستان میں ”اپ رائزننگ“ شروع ہوسکتی ہے بھٹو شاہ کے اتنے اثر میں تھے کہ انہوں نے یقین دہانی کی خاطر اسمبلی ہال کے سامنے ایک جلسہ منعقد کیا گورنر بزنجو اور وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ خان کی موجودگی کو یقینی بنایا پھر شاہ کی بہن اشرف پہلوی کو جلسہ کا مہمان خاص بنایا تاکہ شاہ خوش رہے جلسہ سے خطاب کے دوران بھٹو نے ایک بڑا رسک لیا اور حاضرین سے پوچھا کہ اگر کوئی ایک شخص بھی ایران کے خلاف ہے تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں گے لیکن خوش قسمتی کہ کسی نے ہاتھ اوپر نہیں اٹھائے مینگل وزارت کی برطرفی کا ایک فیکٹر شاہ ایران کا دباؤ بھی تھا جب 1973ء کی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی تو شاہ ایران پر الزام لگا کہ انہوں نے تحریک کو کچلنے کے لئے بھٹو کو گن شپ ہیلی کاپٹر فراہم کئے تھے آر سی ڈی شاہراہ جوکہ تفتان تک جاتی تھی یہ ریاست کی طویل ترین سڑک ہے کوئٹہ سے ایران تک اسے انگریزوں نے جنگی مقاصد کے لئے تعمیر کیا تھا تاہم بیلہ سے کوئٹہ تک 1950ء کی دہائی تک سڑک نہیں تھی سردار صاحب نے راقم کو اپنے طویل انٹرویو میں بتایا تھا کہ بیلہ سے وڈھ تک جو سڑک ہے انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کروائی تھی شروع میں یہ صرف جیپ کے سفر کے قابل تھی انہوں نے بتایا کہ اس سڑک کی تعمیر نے ان کی شخصیت بدل ڈالی اور انہیں پہلی دفعہ احساس ہوا کہ غلامی کیا چیز ہوتی ہے ان کے بقول جب سڑک کی تعمیر مکمل ہوئی تو وہ اسسٹنٹ کمشنر راجہ احمد خان اور ایک اورسیر کے ہمراہ وڈھ کی جانب جارہے تھے کھانے کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے انہوں نے دراکھالہ کے مقام پر اپنی جیب تیز دوڑائی تاہم کھانے پر انہوں نے دیکھا کہ مذکورہ اورسیر ایک طرف کھڑاہے اور کھانا نہیں کھارہامیں نے راجہ احمد خان سے پوچھا کہ یہ مہمان کھانا کیوں نہیں کھارہا تو انہوں نے بتایا کہ یہ آپ سے ناراض ہے اس کا کہنا ہے کہ آپ نے اس کی گاڑی کو کراس کرکے اپنی جیپ آگے کیوں کی تھی میں نے کہا کہ اس کی مرضی کہ کھانا کھائے یا نہ کھائے اس طرح مجھے احساس ہوا کہ یہ لوگ ہمیں بھائی نہیں غلام سمجھتے ہیں اس کے بعد میری پوری زندگی بدل گئی اور میں نے ہر جگہ کہا کہ ہم آپ کی غلامی کبھی قبول نہیں کریں گے اگرچہ دنیا بھر میں شاہراہیں سڑک اور راستے خوشحالی کی علامت ہوتے ہیں لیکن کالونیوں میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ سڑکوں کو اسٹریٹجک اثاثہ سمجھا جاتا ہے تاکہ کمزور اور مطیع لوگوں کومزید دبایا جاسکے۔
ہندوستان کے پٹھان حکمران شیر شاہ سوری کا سب سے بڑا کارنامہ گرینڈ ٹرنک روڈ کی تعمیر ہے جسے زبان عام میں جرنیلی سڑک کہا جاتا ہے انہوں نے جی ٹی روڈ کلکتہ سے پشاور تک بنائی تھی اور حیرانی کی بات ہے کہ اس کی تعمیر صرف پانچ سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی تھی اس زمانے میں یہ نقل و حمل کا سب سے موثر اور جدید ذریعہ تھا انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کے بعد شاہراہ کی تعمیر کے ساتھ ریلوے لائن بھی بچھائی تھی اس زمانے میں انڈین ریلوے دنیا کا سب سے بڑا سسٹم تھا اور اس نے ایک انقلاب برپا کیا تھا انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران کوئٹہ سے تفتان اور کوئٹہ سے تربت تک براہ راستہ مشکے روڈ بنائی تھی اس نے پہلی ٹیلی گراف لائن بھی بچھائی تھی جب آر سی ڈی روڈ نہیں تھی تو مکران سے لوگ کوئٹہ اور سندھ کے راستے کراچی تک جاتے تھے 1960ء کی دہائی میں تربت آواران بیلہ روڈ بنی تھی جبکہ اس سے قبل خضدار تا بیلہ سڑک کی تعمیر مکمل کی گئی۔
بلوچستان کی تمام اہم شاہراہیں یہاں کے لوگوں کے لئے جرنیلی سڑک کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ انہیں جہاں انہیں اپنی سہولت کی خاطر استعمال کیا تو وہاں زیادہ فائدہ حکومتوں نے اٹھایا ہر حکومت نے اپنی رٹ کو یقینی بنانے کے لئے ان جرنیلی سڑکوں کا بھرپور استعمال کیا۔ اگر سردار صاحب بیلہ تا وڈھ سڑک نہ بناتے تو ریاست کو اونٹوں پر بیٹھ کرسرکشی ختم کرنے کے لئے آنا پڑتا۔ انگریزوں نے 19 ویں صدی میں مری قبیلہ کی بغاوت کچلنے کے لئے کوہلو تک سڑک بنائی تھی تاہم انگریزوں کو سبی تا چمالانگ سڑک کی تعمیر میں کامیابی نہ مل سکی مریوں نے ہمیشہ اس سڑک کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالی 1973ء میں جب حکومت نے اس سڑک کی تعمیر کی کوشش کی تو پہلی جھڑپ سبی کے پاس ہوئی جس میں 8 اہلکار جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جب تک نواب خیر بخش حیات تھے انہوں نے اس جرنیلی سڑک کی تعمیر نہ ہونے دی مجھے معلوم نہیں لیکن اب یہ سڑک ضرور بن گئی ہوگی۔
آر سی ڈی شاہراہ کے کوئٹہ کراچی سیکشن کو اس وقت ایک خونی سڑک کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ ٹریفک زیادہ ہونے اور سڑک تنگ ہونے کی وجہ سے آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں اب تک سینکڑوں لوگ سفر کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں حال ہی میں مرکزی حکومت نے چمن سے لیکر کراچی تک سات سو کلو میٹر سڑک کی منظوری دی ہے جسے سی پیک میں شامل کیا گیا ہے یہ دو رویہ سڑک ہوگی اگر بن گئی تو ٹریفک حادثات میں ضرور کمی واقع ہوگی ایک اور سڑک خضدار سے تربت تک بن رہی ہے جبکہ بے سیمہ سے خضدار تک بھی سڑک زیر تعمیر ہے کوئٹہ سے تربت تک ایک سڑک نوازشریف کے دور میں بنی تھی جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے بے شک ان سڑکوں کی تعمیر سے عوام کو آمدرفت میں آسانی ہوگی لیکن اس سے زیادہ فائدہ حکومت کو ہوگا کیونکہ اپنی رٹ کو یقینی بنانے کیلئے کسی بھی جگہ زیادہ برق رفتاری سے پہنچاجاسکتا ہے۔
پاکستان کی مرکزی حکومتوں کا شروع سے وطیرہ رہا ہے کہ اپنی نااہلی چھپانے کیلئے یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ سردار ترقی کیخلاف ہیں یہ سراسر جھوٹا الزام ہے کسی سردار نے آج تک سڑکوں اسکولوں اور دیگر تعمیراتی کاموں کی مخالفت نہیں کی ایک طرف مشرف سمیت ہر حکمران کا دعویٰ رہا ہے کہ تین کو چھوڑ کر سارے سردار انکے ساتھ ہیں اسی وجہ سے کئی سردار متعدد بار وزیراعلیٰ اور گورنر رہے ہیں اگر وہ ترقی مخالف تھے تو انہیں حکومتوں کی سربراہی کیوں دی گئی دوسری بات یہ ہے کہ جب ریاست قلات نہ رہی تو سردار بھی صرف علامتی بن گئے ہیں انہیں ووٹ لینے کیلئے عوام کے پاس جانا پڑتا ہے یہ الگ بات کہ بلوچستان میں اکثروبیشتر صحیح الیکشن نہیں ہوتا ہے بلکہ سلیکشن ہوتا ہے سردار عطاؤ اللہ خان نے بیلہ سے وڈھ کی سڑک اپنی مدد آپ کے تحت بنوائی تھی نواب اکبر خان شہید نے سوئی تاڈیرہ بگٹی روڈ بنوائی تھی سردارصاحب نے اسکول حتیٰ کہ وڈھ میں یونیورسٹی کیمپس بھی بنوایا تھا جب ترقی دنیا ہی مقصود نہیں تو یہ الزام عامیانہ ہے کہ ترقی کی مخالفت کی جاتی ہے یہ ایک امتیازی سلوک ہے جو اہل بلوچستان سے روارکھاجاتا ہے سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ناطے زیادہ موٹروے اور ریلوے لائن کا حقدار بلوچستان ہے لیکن موٹرویز کا جال پنجاب میں بچھایاگیا ہے نوازشریف نے ضلع ہزارہ تک موٹروے بنایاتھا جبکہ عمران خان نے سوات موٹر وے تعمیر کروایا ہے جان بوجھ کربلوچستان کو پیچھے رکھاجارہا ہے تاکہ یہاں کے لوگوں میں احساس محرومی کے ساتھ یہ اثر بھی سرایت کرجائے کہ وہ برابر کے شہری نہیں بلکہ انکی حیثیت تیسرے درجہ کے شہری کی ہے یہ غلامی کی ایک جدید حربہ ہے جو لوگ ماننے کو تیار نہیں۔