ملاصاحبان کی پہلی حکومت

تحریر: انورساجدی
طالبان نے ثابت کردیا کہ وہ اپنے سوا کسی اور کو حکومت میں شامل کرنے کے روادار نہیں عبوری حکومت کی ساخت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ڈمی ہے اصل حکومت گرد بیٹھنے کے بعد قائم کی جائے گی عبوری کابینہ چار ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو13سال گوانتاناموے میں امریکی قید بھگت کرآئے ہیں جبکہ زیرداخلہ سراج الحق حقانی کے سر کی قیمت امریکہ نے پانچ ملین ڈالر مقرر کی تھی ایک حیران کن بات یہ ہے کہ سی آئی اے کے سربراہ کبھی افغانستان جارہے ہیں اور کبھی اسلام آباد کا چکر لگارہے ہیں معلوم نہیں کہ وہ کن مقاصد کے تحت طالبان اوراعلیٰ پاکستانی حکام سے مسلسل رابطوں میں ہیں اگرچہ امریکہ نے طالبان کی نوتشکیل حکومت پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے تاہم وہ زور دے رہا ہے کہ ایک وسیع النبیاد حکومت قائم کی جائے حکومت سازی کے پہلے مرحلے میں طالبان نے امریکہ کی ایک نہ سنی بلکہ اس نے پاکستانی صلاح کاروں کے تعاون سے عبوری حکومت قائم کی ہے ایک اورحیران کن بات یہ ہے کہ طالبان سپریم لیڈر ملاہیبت اللہ ابھی تک منظرعام پر نہیں آئے حالانکہ یہ بتایا گیا تھا کہ انہوں نے قندھار میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی تھی یا یہ کہا گیا تھا کہ ان کی منظوری سے عبوری حکومت تشکیل دی گئی ہے مغربی میڈیا افغانستان کی حالیہ تبدیلیوں کے بعدگاہے بہ گاہے یہ پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ ملاہیبت اللہ موجود نہیں ہیں طالبان قیادت نے یہ مسئلہ چھپاکر رکھا ہے اگرچہ طالبان ایک دینی جماعت ہے لیکن ان کا تنظیمی اسٹرکچر چینی کیمونسٹ پارٹی کی طرح ہے مجلس شوریٰ کے آدھے اراکین کوخفیہ رکھاجاتا ہے جبکہ سپریم لیڈرکے نقل وحمل اورسرگرمیوں کو بھی مخفی رکھنے کاانتظام کیا جاتا ہے کہ تاکہ انہیں دشمنوں کے ہاتھوں کوئی آنچ نہ پہنچے بہرحال دنیا کو یقین اس وقت آجائے گا جب سپریم لیڈر کابل میں نمودار ہوجاءٰں اور اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں طالبان عالم اسلام کی پہلی تنظیم ہے کہ اس نے مدارس کے طلباکی طاقت سے جنگ جیتی اور روئے زمین پر ”ملاصاحبان“ کی پہلی حکومت قائم کردی تاریخ میں افغانستان اور بلوچستان میں ملاؤں کی تعداد بہت کم رہی ہے جہاں جہاں مساجد ہوتی تھیں وہاں پر پیش امام کو ملا کہاجاتا تھا بلکہ بعض مقامات پر ایسے لوگوں کو بھی ملا کہاجاتاتھا جو خط اور اسناد پڑھ سکیں ان میں سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو قاضی بھی کہا جاتا تھا آخوند کا طبقہ بھی انہی سے تعلق رکھتا ہے لیکن20ویں صدی میں ملاصاحبان کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ انہوں نے مصر میں اخوان کے نام سے جبکہ سوڈان صومالیہ اورمتعدد عرب ممالک میں اپنی مسلح افواج تشکیل دیدیں دوسری جانب جنگ عظیم کے بعد جب انگلینڈ نے ریاست اسرائیل قائم کی تو فلسطینی مزاحمتی تحریک کے سربراہ ملاامین الحسینی تھے بعدازاں ان کی جگہ ابوعمارعرف یاسر عرفات نے لے لی ملاصاحبان کی سب سے پرانی سیاسی نظام دارالعلوم دیوبند تھا جبکہ دوسری بڑی مگر موثر تنظیم سید قطب کی اخوان المسلون تھی بعدازاں القاعدہ نے اس کی کوکھ سے جنم لیا اور ایک طرح سے داعش کے لوگ بھی اسی نظریہ کے حامی ہیں فلسطین میں شیخ احمد یاسین نے حماس قائم کی یہ ساری تنظمیں عالم اسلام میں سنی مسلک پر مشتمل نظام قائم کرنا چاہتی ہیں دارالعلوم دیوبند کویہ فضلیت حاصل ہے کہ اس نے انگریزی استعمار کیخلاف طویل جدوجہد کی بڑی قربانیاں دیں کالے پانی کی سزاکاٹی جلاوطن ہوئے اور ہجرتیں کیں لیکن ان کی تحریک پر امن تھی اس زمانے میں دیوبند کے علماء کوقوم پرست ملاکہاجاتا تھا کیونکہ وہ دین کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے ان کا سیاسی اعتبار سے کانگریس سے الحاق تھا تاہم قیام پاکستان کے بعد علمائے دیوبند نے جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی بعض روایات کے مطابق مولانا شبیر احمد عثمانی نے جماعت کی بنیاد رکھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جے یو آئی کی بنیاد مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا مفتی محمود نے رکھی مفتی صاحب پارٹی کے پہلے سیکریٹری جنرل تھے اور تنظیمی اعتبار سے زیادہ اختیارات سیکریٹری جنرل کے پاس تھے 1970ء کے عام انتخابات میں اس جماعت نے بھرپور حصہ لیا جے یو آئی صوبہ سرحد کی سیکنڈلارجسٹ جماعت بن گئی جس کی وجہ سے مفتی صاحب نیپ کے تعاون سے وزیراعلیٰ بن گئے۔انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی نشست پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دی پاکستان میں اس جماعت کی کوکھ سے تحفظ ختم نبوت اور سپاہ صحابہ نے جنم لیا لیکن رفتہ رفتہ پارٹی نے سپاہ صحابہ سے کنارہ کشی اختیار کرلی کیونکہ جمعیت ہمیشہ مسلح کارروائیوں کی مخالف رہی ہے اگرچہ مفتی صاحب کی بڑی شخصٰت تھی انہوں نے پہلے تحفظ ختم نبوت کی تحریک چلائی قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے میں اہم کردارادا کیا 1977ء میں انہوں نے بھٹو کیخلاف زبردست تحریک چلائی جس کا نتیجہ طویل ترین مارشل لاء کی صورت میں نکلا ماضی قریب میں یہ جماعت دوحصوں میں تقسیم ہوگئی اور مولانا سمیع الحق نے ایک دھڑے کی قیادت سنبھالی ان کے والد مولانا عبدالحق نے اکوڑہ کے مقام پر جامعہ حقانیہ کی بنیاد رکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے تدریس فلسفہ جہاد اور دینی علوم کی بہت بڑی درس گاہ بن گئی جس میں افغانستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی نوجوان اس میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا بورڈنگ ہاؤس بھی تھا طالبان کی بنیاداسی مدرسے میں پڑی تھی تاہم اصل کردار جے یو آئی کے بلوچستان میں واقع مدارس کے نوجوانوں نے ادا کیا 1996ء کو طالبان کا پہلا جھتہ کالی پگڑیاں باندھے کوئٹہ سے ”قندھار“ گیا تھا جبکہ حقانی گروپ اکوڑہ خٹک کے مدرسہ کی نسبت سے یہ نام رکھتا ہے ماضی میں امریکہ الزام لگاتا رہا ہے کہ حقانی گروپ پاکستان کا قائم کردہ ہے البتہ ایک زمانے میں کوئٹہ شوریٰ طالبان کاہیڈکوارٹر ہوا کرتا تھا عبوری افغان حکومت پر کوئٹہ شوریٰ کا غلبہ ہے اور اصل غلبہ اس وقت سامنے آئیگا جب موجودہ ڈمی حکومت کی بجائے اصل حکومت قائم ہوجائے گی۔
مولانا کے شاگردوں نے افغانستان میں تو کامیابی حاصل کرلی لیکن پاکستان میں وہ ہنوزکامیاب نہیں ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ جے یو آئی انقلاب کی بجائے پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور باقاعدگی سے انتخابات میں حصہ لیتی ہے یہاں پر وہ منشور کی حد تک اسلامی نظام کے نفاذ کی داعی ہے لیکن عملی طور پر اس نے پاکستان کا نیم جمہوری اور مغربی نظام کی بگڑتی ہوئی شکل کو قبول کرلیا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جے یو آئی کی پذیرائی ان دوصوبوں میں زیادہ ہے جہاں پشتون اور بلوچ آباد ہیں سب سے بڑے صوبے پنجاب اور سندھ میں اس کی پذیرائی محدود ہے حالانکہ مولانا مفتی محمود نے ملتان کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا تھا البتہ رفتہ رفتہ جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ میں جمعیت فروغ پذیر ہے لیکن اس علاقہ کے جاگیردار پیر اور وڈیرے مقتدرہ کے ساتھ مل کر اس کی راہ میں حائل ہیں بظاہر تو جمعیت پاکستان میں دینی انقلاب برپا کرنے کیلئے وجود میں آئی تھی لیکن اسے کامیابی افغانستان میں ملی اگروہ پاکستان میں دوغلی پالیسی اختیار نہ کرتی توایک طویل مزاحمتی تحریک چل سکتی تھی۔پاکستان کا جو موجودہ سیاسی سیٹ اپ ہے اس میں جے یو آئی ایک اہم پارلیمانی پارٹی کے طور پر نہایت اہمیت کا حامل رہے گی لیکن وہ انقلاب لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے ایسے حالات ہیں کہ یہاں پر ملاصاحبان کی اپنی حکومت کا قیام مشکل ہے یہاں پر مصلحتوں سے کام لینا پڑتا ہے مثال کے طور پر جے یو آئی نے محترمہ فاطمہ جناح کی یہ کہہ کر حمایت نہیں کی تھی کہ وہ عورت کی حکمرانی تسلیم نہیں کرتی لیکن1977ء کی تحریک میں مولانا نے بیگم نسیم ولی خان کی قیادت کو قبول کیا تھا جبکہ ان کے فرزند مولانا فضل الرحمن نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے بینظیر کی قیادت بھی قبول کی تھی ادھر افغانستان میں ان کے شاگرد خواتین کو گھروں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عبوری حکومت میں کوئی خاتون شامل نہیں ہے اور غالباً آئندہ بھی نہیں ہوگی۔پاکستان مسلم لیگ ن المعروف ن لیگ شدید اختلافات کی شکار ہے بڑے میاں اور انکی صاحبزادی نے مقتدرہ کی بالادستی کو چیلنج کررکھا ہے لیکن پارٹی کے صدر میاں شہبازشریف محاذ آرائی اور مزاحمت کے سخت مخالف ہیں نام نہاد پی ڈی اے کے کراچی جلسہ میں نوازشریف نے ایک بار پھرمقتدرہ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ چند لوگوں نے پورا ملک یرغمال بنارکھا ہے لیکن6ستمبر کو یوم شہداء کے موقع پر میاں شہبازشریف مجسم عجز انکسار بنے ہاتھ باندھے جی ایچ کیو میں حاضر تھے انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ پاک فوج کوسیلوٹ کرتے ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو بھی سیلوٹ مارتے ہیں تو انہوں نے قدرے غصے میں کہا کہ وہ بھی فوج کا حصہ ہیں اختلافات اور متضاد بیانیہ کی وجہ سے پارٹی کے لیڈر ابہام کا شکار ہیں خواجہ سیالکوٹی نے پہلی مرتبہ عقلمندی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ سیاست میں بات چیت اور رابطون کے دروازے بند نہیں کئے جاتے انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم سے نکالنا ایک غیر سیاسی رویہ ہے شہبازشریف افغانستان میں تبدیلیوں کے حوالے سے ریاستی پالیسی کے ہمنوا ہیں جبکہ مریم بی بی نے کہا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے معاملات میں مداخلت سے دوررہنا چاہئے ایک لیڈر شاہدخاقان مرغی والے ہیں جو نہ جانے کس کے ساتھ ہیں وہ اتحاد کی بجائے توڑ پھوڑسے کام لے رہے ہیں یہ گروپ کہتا ہے کہ پیپلزپارٹی سے رابطے ختم ہونے چاہئیں لیکن لیڈرآف پوزیشن کی حیثیت سے شہبازشریف ورکنگ ریلیشنز قائم رکھنا چاہتے ہیں اگریہی حالات رہے تو آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کارکردگی متاثر ہوگی چوہدری نثار اور خواجہ سیالکوٹی کے مطابق پیپلزپارٹی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے کامیابی حاصل کرے گی یہ بات تو قبل از وقت ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ آئندہ انتخابات بھی اتنے آزادانہ نہیں ہونگے یہ میچ بھی فکس ہی ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں