دوبھیانک حملے

تحریر ۔۔۔ انور ساجدی
حکومت کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے کس کس چیز پر بات کی جائے جو کچھ وزرانے الیکشن کمیشن کے ساتھ کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت انتخابی عمل پر حملہ آور ہے اور وہ ہرقیمت پرالیکٹرانک مشین رائج کرنا چاہتی ہے جب ایک آئینی ادارہ اس کی مخالف کررہا ہے تو حکومت کوکیا حق ہے کہ وہ الیکشن کمیشن پر اپوزیشن کا ساتھ دینے اور پیسے لینے کا الزام لگائے پی ٹی آئی کے لیڈر اور وزراء ضدی بچوں کی طرح ہیں ہر معاملے میں وہ چاند کوہتھیلی پرلاکرکھیلنا چاہتے ہیں بظاہر تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ نام نہاد الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملہ میں حکومت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس حکومت نے ریاست کی جڑوں پردو اور حملے کئے ہیں یا اس کا ارادہ رکھتی ہے سب سے بڑا حملہ یکسان نصاب ہے جو پنجاب اور پشتونخوا میں عجلت اور سرعت کے ساتھ رائج کیا گیا ہے جبکہ بلوچستان نے بھی حامی بھری ہے یکسان نصاب کوئی بڑی بات نہیں بلکہ دنیاکے بیشتر ممالک میں یکسان نصاب نافذ ہے لیکن جہاں جہاں کثیرالقوامی ریاستیں ہیں وہاں انہوں نے اپنے نصاب میں یہ خیال رکھا ہے کہ کوئی بھی علاقہ یا اس کے لوگ نظرانداز نہ ہوجائیں اس سلسلے میں پڑوسی ملک بھارت کی مثال سامنے ہے اس ملک کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں مکمل طور پر الگ الگ نصاب پڑھائے جاتے ہیں زیادہ آبادی والی ریاستیں چونکہ یوپی سی پی ہیں اس لئے عرف عام میں انہیں ہندی ریجن کہاجاتا ہے یہاں پرشروع سے ہندی میڈیم رائج ہے جبکہ جنوبی ریاستوں میں ان کی مقامی زبانوں میں ترتیب شدہ نصاب پڑھایاجاتا ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو شروع سے ہی یہاں پر ایک انوکھا اور رجعت پسندانہ نصاب رائج کیا گیا شروع کے دور میں یہ نصاب ان لوگوں نے لکھا جو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے تھے اور وہ پاکستان کے علاقوں اور آبادی کے مختلف طبقوں سے واقف نہ تھے مغربی پاکستان میں تو اردو رائج کیا گیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن مشرقی پاکستان میں اردو زبان کو رائج کرنے کی کوشش اور یکسان نصاب پڑھانے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اوربنگلہ دیش کی بنیاد اس دن پڑی تھی جب اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا اس اعلان کے فوری بعد طلباء نے احتجاج شروع کیا تھا اور حکومت نے گولی استعمال کرکے اس احتجاج کو کچل ڈالا تھا پھر کیا ہوا یہ جو اقوام متحدہ ہرسال مادری زبانوں کا جودن مناتی ہے وہ اس تحریک کو تسلیم کرنے کا عالمی چارٹر ہے جب اردو کو قومی زبان قراردیا گیا تو اس وقت بنگالی زیادہ ترقی یافتہ زبان تھی جو بنگال کے دونوں حصوں کے کروڑوں لوگ بولتے تھے اس کا لٹریچر بھی بہت بامقصد اور منطقی تھا بنگال کے پاس ٹیگور تھا جس نے ادب کا پہلا نوبل انعام حاصل کیا تھا اس کے مقابلے میں اردو کے پاس ناول اور افسانوں کے سوا کچھ نہیں تھا اس کے باوجود اکثریت پر اسے مسلط کردیا گیا ہمارے حکمرانوں نے شروع سے ہی ریاست کی بنیاد قدامت پسندی انتہا پسندی اور رجعت پسندی پراستوار کی پوری تاریخ کومسخ کرکے نصاب کا حصہ بنایا گیا اس نصاب میں واضح طور پر دیکھاجاسکتا ہے۔حکمران کس طرح کی نسل تیار کرکے کس نوع کا سماج استوار کرنا چاہتے ہیں جن شخصیات کے کارنامے بیان کئے گئے ہیں وہ اس علاقہ کے لوگ نہیں تھے اور پاکستان کے مقامی لوگ انکو جانتے تک نہیں تھے نصاب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جس قطعہ زمین پر پاکستان بنا تھا وہ بانجھ تھی اس نے مشاہیر اور قابل قدر لوگ پیدا نہیں کئے تھے۔
74سالوں کے دوران نصاب میں یہی لکھا گیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور نظریہ اسلام اسکے قیام کی بنیاد ہے لیکن حکمرانوں نے کبھی اسلام نافذ نہیں کیا1958ء سے ابتک کچھ مختصر وقفوں کے سوا اس ملک میں کبھی مکمل آمریت اورکبھی غیرجمہوری آمرانہ نظام قائم ہے اگر واقعی پاکستان کی اساس اسلام ہے تو دیر کس بات کی لیکن حکمران اسلامی نظام قائم کرنا نہیں چاہتے وہ آمریت کے ذریعہ ملک کو چلانا چاہتے ہیں اسلام کے ساتھ سب سے بڑا مذاق 11سال تک مطلق العنان رہنے والے ضیاؤ الحق نے کیا انہوں نے پی این اے کے نعرہ نظام مصطفی کی آڑ میں حکومت کا تختہ الٹ دیا۔لیکن مجال ہے جو شرعی نظام نافذ کیا ہو8سال کے بعد انہوں نے جو سیاسی نظام دیا وہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات تھے اس کے نتیجہ میں انہوں نے ایک لولا لنگڑا پارلیمانی نظام دیا انہوں نے سماج کی ساخت کو بدلنے کیلئے نصاب کو زیادہ گھمبیر یک طرفہ اور حقائق کے برخلاف ترتیب دیا درمیان میں اسے بدلنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی بڑی تبدیلی نہ لائی جاسکے رہی سہی کسر موجودہ حکومت نے پوری کردی ہے اگرباریک بینی سے دیکھا جائے تو موجودہ یکسان نصاب کے ذریعے یہ حکومت پاکستان کوقرون وسطیٰ میں لے جاکر ایک قدامت پسند ملک بنانا چاہتی ہے غالباً عمران خان نے ”نیاپاکستان“ کا جو نعرہ لگایا تھا وہ یکسان نصاب کے ذریعہ اپنا مقصد پورا کرنا چاہتے ہیں ایج ای سن اور آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ عمران خان 21ویں صدی میں اپنی ریاست کو عصری تقاضوں سے دور لے جاکر نہ جانے کیاچاہتے ہیں اگر وہ شرعی نظام کے دل دادہ ہیں تو بسم اللہ کریں کس نے روکا ہے لیکن وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے بلکہ بزرگوں سے مل کر ایک ایسا آمرانہ نظام لانا چاہتے ہیں جو ماضی سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہے وہ اپنے نام نہاد نصاب کے ذریعے نئی نسل کی ذہن سازی کرکے اسے ایک اور سیارے کی مخلوق بنانا چاہتے ہیں حال ہی میں وزیراعظم انگریزی میڈیم کیخلاف زہراُگل رہے تھے حالانکہ انہوں نے خود اردو نہیں پڑھی ان کے بچے لندن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جو ارود سے نابلد ہیں لاہور سے پتہ چلا ہے کہ عمران خان ملک کی دوعظیم درسگاہوں ایچ ای سن کالج اور مری کے لارنس کالج میں بھی یکسان نصاب رائج کرنا چاہتے ہیں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ ان کا نصاب تو آکسفورڈ یونیورسٹی نے بنایا ہے اسی طرح عمران خان کی اپنی نمل یونیورسٹی بھی برطانیہ کی یونیورسٹی سے منسلک ہے اس کے نصاب کاکیا کریں گے بظاہر وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ امیر کیلئے اور غریب کیلئے اور نصاب پڑھانے کے حق میں نہیں ہیں یہ اچھی بات ہے لیکن ان کے دور میں تو مزید دو کروڑ لوگ غریب بن گئے ہیں اگر یہی حال رہا تو حکمران جماعت کے سوا ملک میں امیر اور غریب کا فرق مٹ جائیگا جس کے بعد یکسان نصاب کی اہمیت اور ضرورت زیادہ ہوگی تمام صورتحال میں حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کی زبان انگریزی ہے انٹرنیٹ کی زبان انگریزی ہے اس کے بغیر بچے سائنس کیسے پڑھیں گے ایجادات کی طرف کیسے جائیں گے اور مقابلہ کے اس قاتلانہ دور میں دنیا کے ساتھ کیسے چلیں گے ہونہ ہو نام نہاد یکسان نصاب ایک ایسی سازش ہے جس کا مقصد پاکستان کو ایک پسماندہ آمرانہ اور بنیاد پرست ریاست رکھنا ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت دوسرا حملہ میڈیا پر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اس نے ایک نام نہاد میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے اس مقصد کیلئے قانون سازی بھی کرچکی ہے شریف الدین ثانی جناب فروغ نسیم ایک بل بھی بناچکے ہیں اس قانون کے تحت پی ڈی ایم اے میڈیا کے تمام شعبوں کو ریگولیٹ کرے گی حالانکہ میڈیا کی تینوں اقسام ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں پرنٹ میڈیا کا الگ نظام ہے الیکٹرانک میڈیا کی ہئیت اور ہے جبکہ سوشل میڈیا ایک مختلف چیز ہے میڈیا کا نیا قانون دراصل ایک آمرانہ اور ظالمانہ قانون ہے جس کا مقصد تمام میڈیا کو کنٹرول کرکے اسے غیرموثر یا حکومت کے تابع بنانا ہے اس سلسلے میں حکومت چین،روس اور شمالی کوریا میں میڈیا کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اس کی خواہش ہے کہ پرنٹ میڈیا جاں بحق ہوجائے اگر دوچار اخبارات رہ جائیں تو ایوب خان کے دور کی طرح نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کی طرح وہ صرف حکومتی گن گائیں۔اسی طرح وہ ٹی وی چینلوں کو پہلے ہی پمرا کے ذریعے اپنے تابع لاچکی ہے اس وقت تمام چینل ایک پیٹرن پر چل رہے ہیں اس لئے لوگوں کی اکثریت نے یہ دیکھنا چھوڑ دیئے ہیں کیونکہ ان میں اور پی ٹی وی میں کوئی خاص فرق نہیں رہا حکومت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے کیونکہ یہ میڈیا نہ صرف مکمل طور پر آزاد ہے بلکہ ضرورت سے زیادہ آزاد ہے اورفیک نیوز کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے اگرحکمرانوں میں سمجھ ہوتی تو وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بجائے صرف سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بناتے چونکہ حکمرانوں کے ذہن میں ہے کہ وہ ریاست کو ایک بھیانک آمرانہ دور میں لے جانا چاہتے ہیں اس لئے میڈیا کو قتل کرنے کے بعد ہی انکے سامنے دیگر رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی۔لیکن ایسا نہیں ہے حکومت یکسان نصاب تو رائج کرچکی ہے لیکن میڈیا کو قتل کرنے کا اس کا منصوبہ آسانی کے ساتھ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے گا اس کی ملک کے اندراورعالمی برادری میں بہت ردعمل ہوگا ہاں صاف مارشل لاء لگاکر ایسا کیا جاسکتا ہے اس کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے گوکہ ملک کی اپوزیشن بھی صحافتی اور وکلا تنظیموں کا ساتھ دے رہی ہے لیکن خود اپوزیشن کی حالت پتلی ہے اس کے لیڈر باہم گھتم گھتا ہیں اور وہ حکومت کی بجائے آپس میں لڑررہے ہیں اور ایک دوسرے پر حکومت سے ڈیل کا الزام لگارہے ہیں حالانکہ ڈیل تو ہر ایک کی الگ الگ طریقہ سے ہوئی ہے جس کو جوخفیہ لولی پاپ ملا ہے وہ اس پر خوش ہیں پوری اپوزیشن وقت گزاری کرکے2023ء کے انتخابات کا انتظا کررہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں