اک جرأت اندانہ

تحریر: انورساجدی
یہ سوفیصد یقینی بات ہے کہ اپوزیشن کی کوئی بھی جماعت حکومت کیخلاف تحریک چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی یہ جو ”ہلہ گلہ“ اور ہاہا کار ہے یہ وقت گزاری اور اپنے معصوم کارکنوں کا لہو گرمانے کا بہانہ ہے حالانکہ اس وقت عوام جن گھمبیر مسائل سے دوچار ہیں یہ وقت حکومت کیخلاف عوامی تحریک چلانے کا بڑا موذوں وقت ہے لیکن اپوزیشن2023ء کے عام انتخابات کا انتظار کررہی ہے اس کی وجہ اپوزیشن کی وہ خفیہ یقین دہانی ہے جو اس نے بڑوں کو کروائی ہے اور بڑوں نے بھی جوابی یقین دلایا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ہم آپ کا خیال رکھیں گے سب اسی پر خوش ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنا کردارادا کرنے اور عوام کے بنیادی حقوق کیلئے عملی جدوجہد کرنے سے کترارہے ہیں ادھر مولانا اور ن لیگ کبھی جلسہ اور کبھی دھواں دھار پریس کانفرنسوں سے کام چلارہے ہیں کہاں گئے ان کے استعفے مولانا کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ آپ بچوں کو بہلا پھسلا کر رکھیں جب وقت آئیگا تو دیکھا جائیگا اسی سال جب تجویز پیش کی گئی تھی کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمانی بزدار کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے تو ن لیگ میدان سے بھاگ گئی تھی اور اس کے لیڈروں نے یہ کہا تھا کہ ہم تحریک انصاف کو مظلوم بنانے کی کوشش نہیں کریں گے اچھا ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہ بری کارکردگی کے ساتھ اترے اسی طرح پیپلزپارٹی یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کی نشست پر کامیاب کرواکر اور لیڈرآف اپوزیشن بناکر چپ ہوگئی تھی جناب بلاول نے پیر کو اسلام آباد میں صحافیوں کے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر حکومت نے میڈیا کنٹرول اتھارٹی کا بل منظورکروالیا تو ہم عدالت جائیں گے یہ نہیں کہا کہ ہم عوامی تحریک چلائیں گے حالانکہ مجوزہ آمرانہ قانون کو لیکر اس طرح کی تحریک شروع کی جاسکتی ہے جو وکلا نے افتخار گیلانی کی برطرفی کے بعد چلائی تھی اگرسیاسی جماعتیں سچی اورصادق ہوتیں تو وہ اظہاررائے پر ابتک کی سب سے بڑی قدغن کیخلاف عوام کو لیکرسڑکوں پر نکلتیں لیکن وہ جانتی ہیں کہ ان میں حکومت کیخلاف عوامی تحریک چلانے کا دم نہیں ہے اگرچہ پی ایف یو جے کے زیر اہتمام میڈیا ورکرز موثراحتجاج کررہے ہیں لیکن وقت اور حالات بدل چکے ہیں یہ ایوب ضیاء الحق اور مشرف کا دور نہیں ہے ان آمروں کو پی ایف یو جے نے چیلنج کیا تھا اور عظیم الشان کامیابی حاصل کی تھی لیکن یہ مصلحتوں کا دور ہے اس لئے کوئی بھی طبقہ سردھڑ کی بازی لگانے کو تیار نہیں ہے ماضی میں چونکہ نظریات زندہ تھے اس لئے نظریاتی لوگ پھانسی قید اور کوڑوں کی سزا پانے کے باوجود ڈٹے رہتے تھے لیکن حالات نے بہت بڑی کروٹ بدلی ہے کسی کا کوئی نظریہ نہیں رہا سیاسی جماعتوں کا نظریہ تو اقتدار حاصل کرنا یا اس میں شراکت داری کے سوا کچھ نہیں ہے ٹریڈ یونین موثر نہیں ہے طلبہ یونینیں نہیں ہیں صحافت پھیل کر مختلف شکل اختیارکرچکی ہے صحافیوں کے اندریکجہتی کا فقدان ہے وہ تقسیم ہوکر کئی حصوں میں بٹ گئے ہیں اگرچہ میڈیا مالکان اپنی حد تک نئے آمرانہ قانون کی مزاحمت کررہے ہیں لیکن وہ زیادہ دیر تک نقصان برداشت نہیں کرسکتے ویسے بھی موجودہ حکومت نے پرنٹ میڈیا پر جان لیوا معاشی حملہ کیا ہے مزید حملوں کے بعد پرنٹ میڈیا جانبر نہیں ہوسکتا چینلوں کا حال دیکھئے زمینی حقائق کے بارے میں کوئی لب کشائی نہیں کرتا ناوار اور فاقہ ردہ لوگوں کے مسائل چینلوں کے موضوع نہیں ہیں ہر جگہ ہر شعبہ پر جعلی اور مسلط کردہ اشرافیہ حاوی ہے تمام سیاسی جماعتیں اسٹیٹس کی علمبردار ہیں وہ موجودہ نام نہاد نیم جمہوری نظام برقرار رکھنا چاہتی ہیں کیونکہ سرپرست یہی چاہتے ہیں اس وقت ہرلحاظ سے صورتحال بہت گھمبیر ہے ایوب خان ضیاؤ الحق اور جنرل مشرف کی ساری خامیوں کو یکجا کیاجائے تو سب کا عکس موجودہ حکومت میں نظرآتا ہے حالانکہ اسے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہے اسکے باوجودہ وہ من مانی کررہی ہے آئین کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے18ویں ترمیم کو تو موجودہ حکمران سرے سے مانتے ہی نہیں اگرمانتے تو میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قانون نہ لاتے کیونکہ18ویں ترمیم کے تحت یہ صوبائی سبجیکٹ ہے جس طرح تعلیم،صحت اور بلدیات صوبائی معاملات ہیں اسی طرح انفارمیشن کا بھی مرکز سے کوئی تعلق نہیں لیکن مرکزی حکومت 18ویں ترمیم کو بلڈوز کرکے آمرانہ قانون زبردستی نافذ کرنا چاہتی ہے بلاول نے عندیہ دیا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر میڈیا اور ووٹنگ مشین کے قانون کو پاس کروائیگی یہ مشورہ ضرور فروغ نسیم نے دیا ہوگا۔
کئی لوگوں کو خدشہ ہے کہ موجودہ ”رجیم“ متعدد نئے قوانین منظورکرواکر ملک میں ایک بدترین آمریت کی بنیاد ڈالے گی اگرمیڈیا زیر ہوگیا تو کمزور اپوزیشن کو پیروں تلے روندنا کونسا مشکل ہے حکومت جانتی ہے کہ کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں اسے ووٹ نہیں ملیں گے۔اس لئے وہ نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے آئندہ انتخابات کو اپنے قابو میں لانا چاہتی ہے حکومت کی مقبولیت کا گراف کیا ہے اس کی ہلکی جھلک دوروز قبل ہونے والے کنٹونمنٹ کے انتخابات میں دکھائی دیتی ہے پی ٹی آئی اپنے سیاسی قلعہ پشاور میں ہار گئی اسے راولپنڈی میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ وہاں پر شیخ جی بذات خود تشریف فرما ہیں لاہور شہر میں بھی پی ٹی آئی کا برا حشر ہوا ہے ملتان میں مرشد کو بری طرح دھتکارکرووٹروں نے آزاد امیدواروں کا انتخاب کیا اگر پشاور، راولپنڈی،لاہور اور ملتان ہاتھ سے نکل جائیں تو آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کا کیا حشر ہوگا یہ نوشتہ دیوار ہے اس لئے وہ جادوئی مشین لاکر اپنے بچاؤ کی تدبیر سوچ رہی ہے
کنٹونمنٹ کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کا بھی برا حشر ہوا ہے پورے پنجاب میں اس کے ہاتھ ایک نشست بھی نہیں لگی ہے جبکہ شہری ووٹروں نے ثابت کیا ہے کہ ن لیگ کا وزٹ بینک برقرار ہے نہ جانے ان چھوٹے سے انتخابات کے بعد حکمران جماعت کیا لائحہ عمل بنائے گی لیکن اسے آئندہ انتخابات میں کوئی معجزہ ہی کامیابی دلاسکتا ہے جبکہ عوام سے کٹے ہوئے پارٹی کے لیڈر عمران خان کو ہرروز یہی یقین دلاتے ہیں کہ ہم آئندہ انتخابات میں پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کریں گے لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو جادوئی مشین نہ بچاسکی تو وہ حکومت بنانا تو کیا پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کرنے کیلئے منت سماجت پر اترآئے گی۔
مخالفین دعا کریں کہ تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں مطلوبہ کامیابی سے دور رہے ورنہ ملک میں ایسی آمریت آئے گی کہ لوگ ایوب خان جنرل ضیاؤ الحق اور جنرل پرویز مشرف کو بھول جائیں گے باالغرض محال اگر تحریک انصاف کو دوتہائی اکثریت مل گئی تو وہ پہلی فرصت میں صدارتی نظام لاگو کرنے کی کوشش کرے گی دوسرے مرحلے میں وہ فیڈریشن کا خاتمہ کرکے وحدانی طرز حکومت رائج کرے گی ہر طرح کے میڈیا کو نیست ونابود کردیا جائیگا جبکہ یار لوگ یہ مشورہ بھی دے سکتے ہیں کہ آپ چین،روس اور شمالی کوریا کی طرح تاحیات صدربن جائیں اگرچہ یہ ممکن نہیں ہے اگر بس چلے تو عمران خان یک جماعتی نظام لانے کی کوشش بھی کریں گے وہ چین کے نظام سے اس لئے متاثر ہیں کہ وہاں پر نام نہاد کمیونسٹ پارٹی کی آمریت ہے وہاں پر عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت حاصل نہیں عمران خان کے پاس تو اسلامی نظام اور ریاست مدینہ کے ہتھیار بھی ہیں ضیاؤ الحق تو اپنے دور میں فتویٰ دے چکے ہیں کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کی گنجائش نہیں سارے اختیارات ایک شوریٰ کے پاس ہوتے ہیں جیسے کہ اس وقت ایران اور افغانستان میں ہے یہ سب کچھ اس وقت ہوسکتا ہے جب بڑے ایسا چاہئیں ان کی بیساکھی کے بغیر تو عمران خان ایک دھیلے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔
طاقتور حلقوں میں یہ بات زوروشور کے ساتھ زیربحث ہے کہ پاکستان کیلئے پارلیمانی نظام موذوں نہیں ہے کیونکہ یہ اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا کوئی ان سے پوچھے کہ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان جن ادوار میں پہنچا وہ صدارتی نظام کا دور تھا ایوب خان نے میرجاوا کا عظیم الشان علاقہ جوپانچ ہزار مربع میل تھا ایران کو بخش دیا یحییٰ خان نے آدھا ملک گنوادیا ضیاؤ الحق نے سیاچن کھودیا اور مشرف کارگل ہارگئے کسی بھی پارلیمانی دور میں کوئی ایسا سانحہ رونما نہ ہوا فیروز خان نون کے وقت میں گوادر خریدا گیا بھٹو نے90ہزار جنگی قیدیوں کے ساتھ پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ بھی واپس لے لیا اس کے باوجود یہ اصرار کہ پاکستان نے صرف صدارتی دور میں ترقی کی سمجھ سے بالاتر ہے کوئی بتائے کہ کونسی ترقی کی ایوب خان نے کشمیر سے نکلنے والے سارے دریا بیچ دیئے اس کے بدلے میں عالمی برادری نے تربیلہ ڈیم بناکر دیا آج تک کسی نے پوچھاکہ ایوب خان نے دریا ہمیشہ کیلئے کیوں بیچے کسی نے یحییٰ خان سے پوچھا کہ انہوں نے مضبوط مرکز کو برقراررکھنے کی خاطر مشرقی پاکستان کیوں گنوادیا جو بھی ہو مستقبل میں بہتری کے آثار نہیں ہیں اس کی وجہ موجودہ سیاسی جماعتوں کا مایوس کن کردار ہے پیپلزپارٹی سندھ حکومت کی خاطر پورے نظام کو داؤ پر لگارہی ہے ن لیگ مقدمہ کی وجہ سے خوفزدہ ہے جبکہ مولانا جان بوجھ کر اسٹیٹس کو برقرارکھنے کی خاطر کرکٹ کی جگہ فٹبال کھیل رہے ہیں تمام اپوزیشن میں ایک جرأت اندانہ کی کمی ہے جس کی وجہ سے بدترین آمریت مسلط ہوسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں