نواب نوروز خان سے سردار عطاء اللہ مینگل تک

تحریر: امان اللہ شادیزئی
سردار عطاء اللہ مینگل نے جب فیصلہ کیا تو سینیٹ کے سیاست میں فعال کردار ادا کرنا ہے تو اسمبلی میں جانے کا فیصلہ کیا تو 1956ء میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا وہ ودور تھا جب پاکستان دو صوبوں میں تقسیم تھا ایک حصہ مغربی پاکستان کہلاتا تھا اور دوسرا حصہ مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔آبادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان جہاں بنگالیوں کی آبادی زیادی تھی اورمغربی پاکستان میں آبادی کم تھی 1954ء سے پہلے مغربی پاکستان 3صوبوں میں تقسیم تھا پنجاب‘سندھ اور صوبہ سرحد بلوچستان صوبہ تھا ہم اس پہلو پر یہ تجزیہ کریں گے کہ دو صوبے کیوں بنائے گئے اور مشرقی پاکستان کی عددی برتری کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے کیا کھیل کھیلا ہم سردار عطاء اللہ مینگل کی سیاست کے آغاز کے مرحلہ کا تجزیہ کررہے ہیں انہوں نے 1956میں صوبہ مغربی پاکستان کی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور انہوں نے یہ نشست ضلع قلات سے جیت لی۔بلوچستان کی کل نشستیں 14تھیں ان14نشستوں پر جام میر غلام قادر ضلع لسبیلہ سے اور صالح محمد مندوخیل ضلع ژوب سے عبدالخالق کاکڑ ضلع کوئٹہ پشین سے نوابزادہ بلوچ خان نوشیروانی ضلع خاران سے سردار محبوب علی مگسی ضلع قلات سے سردار خیر بخش خا ن مری ضلع سبی سے سردارمحمد خان جوگیزئی ضلع لورالائی سے سہیل خان ملیزئی ضلع کوئٹہ پشین سے غوث بخش رئیسانی ضلع قلات سے نبی بخش زہری،ضلع چاغی سے نبی بخش کھوسہ ضلع سبی سے جیت گئے 1958میں جنرل ایوب خان نے سکندرمرزا کا تختہ الٹ دیا اور حکومت پر قبضہ کر لیا قبضہ کے بعدفیلڈ مارشل ایوب خان نے 1962میں ایک دستور تشکیل دیا یہ آئین سازی کا کام ایوب خان نے جسٹس شہاب الدین کے ذریعہ کیا اور یکم مارچ 1968ء کو نافذ العمل ہوا۔اس آئین کے تحت مرکزی اسمبلی کی تعداد156تھی خواتین کی 6نشستیں تھیں بعد میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ یہ تعداد 218کر لی گئی 8نشستیں خواتین کی تھیں اور 10نشستیں دانشوروں کیلئے تھیں اس کی نامزدگی حکومت نے کرنی تھی۔جنرل ایوب خان کے دستور کے بحث پاکستان کے تمام سیاست دانوں خواہ وہ مذہب پسند تھے یا قوم پرست تھے یا سیکولر تھے ان سب نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے دستور کے تحت انتخابات میں حصہ لیا۔
سردار عطاء اللہ مینگل نے حصہ لیا اور ممبر منتخب ہوگئے۔نواب خیربخش بھی جیت گئے۔قومی اسمبلی کی کل نشستیں بلوچستان کے لئے 6تھیں ایک نشست پر جام میر غلام قادر (مرحوم)میر نبی بخش زہیر،دریا خان کھوسہ اور بیگم خدیجہ،جی اے خان منتخب ہوگئے۔صوبائی اسمبلی1962ء تا 1965ء تک اس میں باقی بلوچ،بابو محمد رفیق،حاجی مراد خان جمالی،سردار دوا خان زہری،یوسف مگسی،احمد نواز بگٹی،میر حمد خان منتخب ہوگئے باقی بلوچ مغربی پاکستان میں ابھر کر سامنے آگئے وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھے ایوب خان نے اس کو مارنے کا فیصلہ کیااس کو 6گولیاں لگیں مگر بچ گئے بعد میں سیاست سے کنارہ کش ہوگئے اور گوشہ گمناہی میں زندگی کی بازی ہار گئے شاعر بھی تھے ان سے میری ملاقات تھی۔
ایوب خان کے خلاف حزب اختلاف اور ایوب خان میں کشمکش شروع ہوگئی نیپ زیر عتاب آگئی نیپ کے اہم لیڈر جیل پہنچا دیئے گئے سردار مینگل بھی گرفتار ہوگئے ایوب خان نے شہنشاہ ایران کے کہنے پر جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی اور جماعت کی مرکزی شوریٰ پوری گرفتار ہوگئی مولانا مودودی بھی گرفتار ہو گئے جماعت نے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا اور ہائی کورٹ نے حکومت کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور جماعت اسلامی بحال ہوگئی۔جماعت اسلامی کے رسالہ ماہانہ ترجمان القرآن میں ایک مضمون شائع ہوا تھا ایران میں امام خمینی کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور قم میں مدرسہ پر شاہ کی فوج نے حملہ کیا اور کوئی 17ہزار دینی طلبہ قتل کئے گئے امام خمینی کو گرفتار کیا گیا اور سزائے موت کا حکم تھا۔مظاہرے ہوئے تو انہیں رہا کردیا گیا اور بعد میں جلاوطن کر دیا گیا 1979ء میں امام خمینی ایران لوٹ آئے اور انقلاب شروع ہوگیا اور شاہ ملک سے فرار ہوگیا اور حکومت خمینی کے ہاتھ میں آگئی امریکہ اور ایران کی کشمکش ابھی تک باقی ہے اور انتخابات باقاعدہ ہورہے ہیں۔
سردار عطاء اللہ مینگل کی سیاسی زندگی کا تجزیہ کررہے ہیں اس دورمیں جماعت اسلامی کے قائدین سے سردار مینگل اور شیرو مری کی ملاقتیں ہوتی تھیں ایوب خان کے خلاف پورے ملک میں عوامی لہر اٹھ چکی تھی اور اس کو بالآخر جانا پڑا،ایوب خان کو ایک فوجی جرنیل یحییٰ خان نے اقتدار سے محروم کردیا اور حکومت پر قبضہ کرلیا اور جنرل یحییٰ خان نے انتخابات کرائے اور اس انتخابات کے خلاف ایک منظم سازش شروع ہوگئی اور اس کھیل میں پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ شریک تھی۔جنرل یحییٰ خان نے ایک تاریخی قدم اٹھا اور تاریخی انتخابات کرائے1970کا دور تھا اور جنرل نے صوبہ بلوچستان تشکیل دیا ورنہ پہلے پورا بلوچستان 2ڈویژن پر مشتمل تھا اس فیصلہ کے بعد 1947ء سے لیکر 1970تک صوبہ خود مختاری سے محروم تھا اور پنجاب کا دست نگر تھا بلوچستان کے تمام ملازمتوں پر پنجاب کی بالادستی تھی اور بلوچستان میں کوئی یونیورسٹی نہ تھی 1977میں بلوچستان یونیورسٹی بن گئی۔
1970ء کے انتخابات میں نواب بگٹی اور بلوچ سرداروں میں کشمکش شدید ہوگئی یہ ایک دلچسپ اور عبرت ناک باب ہے 1970ء کے انتخابات نے نواب بگٹی اور نیپ میں ایک ایسی دراڈ ڈال دی جو آخر تک حائل رہی نواب بگٹی پر ایوب خان کے دور کے ایبڈوآرڈیننس کی پابندی تھی یعنی بعض سیاستدان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تھے جس نواب بگٹی سے سیاسی یارانہ بن گیا اور ان کے بہت قریب چلاگیا تو ایک دن ان سے پوچھا نہ نواب صاحب آپ اور سردار عطاء اللہ مینگل نواب خیربخش مری اور بزنجو کے درمیان وہ کونسا اہم مسئلہ تھا جس کی بنیاد پر آپ اور ان کے درمیان ریل کی پٹری کی طرح راستہ دور تک جدا ہوگئے تو نواب بگٹی شہید نے پہلی بار مجھے بتلایا کہ جب ہم جنرل یحییٰ خان سے ملے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں کیا وجہ ہے نواب نے کہاکہ مجھ پر ایوب خان نے انتخاب لڑنے پر پابندی لگائی ہے تو جنرل نے کہاکہ آپ لکھیں میں پابندی ہٹادونگا نواب بگٹی نے کہاکہ میراخیال تھا کہ میرے دوست یہ درخواست لکھیں گے لیکن میں خودنہیں لکھنا چاہتا تھا لیکن میرے دوستوں نے خاموشی اختیار کی میرے اور ان کے درمیان دوری کا نکتہ اعتماد پر تھا یوں نواب بگٹی سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب مری میں دوری پیدا ہوگئی نواب اور ان کے درمیان دوری پیدا کرنے میں نیپ کے اندرکمیونسٹ لابی نے یہ کام بڑی خوبصورتی سے ادا کیا اور آخری مرحلہ جدائی کا اس قت پیدا ہوگیا جب نواب بگٹی مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان سے ملے تھے نواب ڈھاکہ پہنچے تو نیپ کا بیان اخبارات میں شائع ہوگیا کہ نواب نیپ کے نمائندہ نہیں ہیں وہ ذاتی حیثیت میں گئے ہیں نواب نے مجھے بتلایا کہ میں ان کی ایماء پر شیخ سے ملنے گیاتھا یہ بیان ایک بڑھکتے ہوئے شعلے کی مانند تھا اس نے نواب بگٹی اورسردارعطاء اللہ مینگل کے درمیان ایک خلیج حائل کردی اور نواب نے بدلہ لینے کیلئے اپنا راستہ علیحدہ کرلیا بھٹو اس کشمکش پرنظر رکھے ہوئے تھے اس نے تاش کاپتہ پھینکا اور کھیل شروع ہوگیا نواب بگٹی نے نیپ سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کرلیا بھٹو نے نواب بگٹی کو دورہ سویت یونین میں ساتھ لیا اور بھٹو پاکستان لوٹ آیا نواب نے لندن میں قیام کرلیا اور نیپ کے خلاف کھیل شروع ہوگیا اور سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کیلئے گلویٹن تیار ہوگیا اور اب صرف وقت کا انتظار تھا اور پھر وہ وقت قریب آگیا جب فروری کا مہینہ شروع ہوگیا تو بھٹو نے نیپ کے خلاف طبل جنگ بجا دیا۔
(نوٹ۔ خان محراب خان نے جنگ کا راستہ اختیار کیا اور جام شہادت نوش کیا۔برطانوی ہند کے تمام راجہ ومہاراجوں نے برطانوی سامراج کے سامنے جھک گئے اور غلامی قبول کی۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں