پارلیمان اور موچی دروازہ

تحریر: انورساجدی
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران صدر عارف علوی بھول گئے تھے کہ وہ پارلیمان میں ہیں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ موچی دروازے میں تحریک انصاف کے ایک جلسہ سے خطاب فرمارہے ہیں ان کا خطاب حکومت کی تعریف اور وزیراعظم کی توصیف پر مشتمل تھا اپنے لیڈر کو خوش کرنے کیلئے یہ تک کہہ دیا کہ دنیا عمران خان کو مرشد قرار دے کر ان کی مریدی اختیار کرلے انہوں نے حکومت کے ایسے کارنامے بھی بتائے جو انکشاف کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ زمین پر کوئی ایسے کام نظر نہیں آتے ماضی کی روایات کے برعکس انہوں نے معیشت کی بہتری صنعتی انقلاب عوام کی فلاح و بہبود کے اقدامات برآمدات میں اضافہ اور اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے گراں قدر زرمبادلہ بھیجنے کا بطور خاص ذکر کیا صدر صاحب جوش نظامت میں بھول گئے تھے کہ 25 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف زرداری کی لولی لنگڑی حکومت نے بھی حاصل کرلیا تھا صدر مملکت نے رسم دنیا کے مطابق بھی حکومت کی کسی خامی کا ذکر نہیں کیا وہ مسلسل اپوزیشن پر تیر برسارہے تھے انہوں نے تو نواز شریف کے صدر ممنون حسین کا ریکارڈ بھی توڑدیا صدر علوی کے رویہ سے ثابت ہوا کہ اگران کا انتخاب عمران خان نے کیا ہے تو درست کیا ہے۔
وہ صدر ہونے کے باوجود ابھی تک پارٹی کارکن ہیں اور ان پر اپنے لیڈر کی شخصیت کا سحر طاری ہے۔
صدر علوی نے دو سال ہوئے ایڈیٹروں کے وفد کو بتایا تھاکہ وہ پارٹی کا سوشل میڈیا سیل چلا رہے ہیں اسی سیل کی بدولت تحریک انصاف کے حق میں ایک بے نظیر مہم چلی جس نے پارٹی کو 2018 کے انتخابات میں کامیابی دلائی خیر علوی کی مہم نے کیا کامیابی دلانی تھی کامیابی کا انتظام دیگر حلقوں نے کیا تھا البتہ وہ اپنی گفتگو میں پرنٹ میڈیا کے خلاف کسی لگی پٹی کے بغیر اظہار خیال کررہے تھے اور انہوں نے پیشگی بتادیا تھا کہ ہم میڈیا کے اس قدیم شعبہ کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں اس وقت تو ان کا یہ فرمانا تھا کہ یہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کا دور ہے ہماری ساری توجہ اسی پر ہے لیکن دو سال بعد صدر صاحب اوران کی حکومت سوشل میڈیا کو بھی ”ادھ موا“ کرنے کا منصوبہ بناچکے ہیں۔
فیک نیوز کو روکنے کے بہانے حکومت ایسی قانون سازی کررہی ہے کہ سرکاری اور پسندیدہ گروپوں کے سوا دیگر لوگ اس طرف آنے کی جرأت نا کریں سنا ہے کہ حکومت نے ان ممالک کا جائزہ لیا ہے جہاں فیس بک، واٹس اپ،ٹیوٹر، انسٹاگرام اور میسینجر وغیرہ کنٹرول میں ہیں چین اور روس نے مکمل طور پر اپنا نظام بنا دیا ہے چند سال قبل جب ہم چین گئے تو وہاں بھی ”دی چیٹ“ کا ایپ موجود تھا جو واٹس اپ کا کام کرتا تھا اسی طرح فیس بک کا متبادل بھی موجود تھا چنانچہ پاکستان کو یا تو وہ چین والا نظام اپنانا پڑے گا یا نئے قانون کے تحت سخت ترین سزاؤں کے ذریعے اسے حکومتی کنٹرول میں لانا ہوگا مجوزہ قانون میں میڈیا کے جو لوگ فیک نیوز یا ہتک عزت یا بلاوجہ پروپیگنڈہ کے مرتکب ہونگے انہیں 10 اور 25کروڑ روپے کے جرمانے کے ساتھ طویل قید کی سزا بھی بھگتنا ہوگی اگر پاکستانی باز نہ آئے تو صرف ایک سال میں لاکھوں جیلوں میں ہونگے کوئی پبلشر ایڈیٹر اور سوشل میڈیا کا ایڈمن بچے گا نہیں جب سارے ایڈیٹر جیلوں میں ہونگے تو پرنٹ میڈیا سے حکومت کی جان خود بخود چھوٹ جائے گی اسی طرح لوگ سوشل میڈیا کی طرف جانے سے بھی گریز کریں گے جو چینل ہونگے وہ اپنی نشریات کا آغاز عارف علوی کی طرح حکومت کی تعریف سے شروع کریں گے اور ان کا اختتام بھی حکومتی توصیف اور عظیم کارناموں پر ہوگا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ یا تو تفریحی پروگرام دیکھیں گے یا دوبارہ پی ٹی وی کی طرف رجوع کریں گے کیونکہ خبروں اور غیر جانبدار تبصروں کے بغیر چینلوں کی افادیت ختم ہوجائے گی۔
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے بعد یہ قہرآلودقانون تو میڈیا کو سانس نہیں لینے دے گا اوپر سے سائبر کرائم کی تلوار بھی ان پر لٹکتی رہے گی جو حکومت حسبمنشا استعمال کرے گی گوکہ بظاہرتو نیا قانون نافذ کرنا مشکل ہے تاہم اگر حکومت تہیہ کرلے تو وہ یہ کرکے دم لے گی مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ حکمران جماعت کو پتہ ہے کہ عوام کے اندر اس کی کیا پذیرائی ہے اس لئے آمرانہ قوانین اور طرز حکومت کے ذریعے کامیابی کی خواہاں ہیں نیا قانون 1973 کے آئین کی کلیئرنفی ہے کیونکہ اس میں اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومتی عمل داروں کے ذہن میں ایسا پلان ہوگا کہ 18 ویں ترمیم سمیت دیگر ترامیم کو ختم کرکے آئین کو دوبارہ ضیاؤالحق کے دور کی شکل دی جائے اگر حکومتی ارادے اور منصوبے کامیاب ہوگئے تو ریاست ایک بہت ہی مشکل صورتحال سے دو چار ہوجائے گی درپردہ طاقتور حلقوں سے ملے ہوئے سیاستدان بھی نئی آزمائش سے دوچار ہوجائیں گے ان کی بڑھک بازی اور تحریک چلانے کی خالی خولی دھمکیوں نے انہیں پہلے ہی کمزور کردیا ہے ایسا وقت آئے گا کہ سیاسی جماعتوں کے ایکٹ میں تبدیلی کی جائے گی جس کی وجہ سے حکومت کسی بھی جماعت کو نظریہ پاکستان اور ان کے بیانیہ کو ملک دشمن قرار دے گی اگر آزادی صحافت نہ رہی تو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی بقاء کو بھی خطرہ لاحق ہوجائے گا اس طرح ریاست ایک بار پھر ایوب خان اور ضیاؤالحق کے دور میں چلی جائے گی مستقبل میں ناپسندیدہ سیاستدانوں کو ایبڈوکے تحت الیکشن میں حصہ لینے کیلئے نااہل قرار دیا جائے گا یہ تمام منصوبے یک جماعتی آمریت قائم کرنے کی سعی ہے۔
جہاں تک میڈیا پر قدغن کا تعلق ہے تو جیسے کہ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے کہا تھا کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا پاگل پن ہوگا اور یہ جدید دور میں ناممکن ہے اگر پاکستان کے اندر اسے کنٹرول کیا گیا تو لوگ باہر جاکر بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کا استعمال کریں گے ملک ملک اور نگر نگر سے جب لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آرا کا اظہار کریں گے حکومتی خامیوں کو گنوائیں گے توحکومت کو زمین پر تارے نظر آئیں گے افسوس کہ حکومت اس وقت سوشل میڈیا کے سینکڑوں نیٹ ورک چلارہی ہے اسے ادراک نہیں کہ ٹیکنالوجی کو روکنا ناممکن ہے ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے کہ لوگ جعلی ناموں سے باہر کے ممالک سے کام کریں گے اور حکومت کیلئے انہیں پکڑنا مشکل ہوجائے گا حکومت ایک اور بات بھی بھول گئی ہے کہ پاکستان کے زمینی حقائق افغانستان، چین اور روس سے مختلف ہیں اگر ضیاؤالحق انتہا پسندی اور بنیاد پسندی کوفروغ نہیں دے سکے تو یہ کہاں سے پورے سماج کو افغانستان بنادیں گے پاکستان آئین کی ایک شق کے تحت اسلامی ملک ضرور ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے یہاں پر لوگ اپنی مرضی کی زندگی گزارنا مرضی کا لباس پہننااور روشن خیالی کے تحت رہنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نے مدینہ کی ریاست کا نعرہ ضرور بلند کیا ہے لیکن سودی نظام پوری آب و تاب کے ساتھ کام کررہا ہے پورا مالیانی نظام سود پر استوار ہے ریاست کے تمام بیرونی قرضے سود پر حاصل کئے جارہے ہیں سارا لین دین سود کی بنیاد پر ہورہا ہے اگر حکومت میں دم ہے تو وہ سودی نظام کا خاتمہ کرکے ساری دنیاسے لین دین بند کردے ریاست کی سرکاری زبان انگریزی میں ہے تمام قوانین انگریزی میں ہیں بیشتر ادارے انگلینڈ کی طرز پر چل رہے ہیں لباس انگریزی ہے طرز زندگی مغربی ہے پاکستان کی ایک تہائی آبادی امریکہ، آسٹریلیا اور یورپ میں جاکر بسنا چاہتی ہے امریکی اور برطانوی ویزے کو بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے حالیہ دور میں بے شمار اعلیٰ عہدیدار آسٹریلیا، امریکہ، انگلینڈ اور دوبئی میں جاکر جدید زندگی کا لطف لے رہے ہیں۔
حتیٰ کہ انقلابی مبلغ اور طالبان کے سفیر اول مولانا اوریا مقبول جان کی فیملی بھی امریکہ کی آزادیوں سے لطف اندوز ہورہی ہے لہٰذا ہمارے حاکم نام نہاد دانشور اور صحافی جو کررہے ہیں جو کہہ رہے ہیں وہ منافقت ہے وہ زبانی کلامی تو شرعی نظام کی حمایت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اس سے کہیں دور ہیں برسوں پہلے حسین شہید سروردی بھٹو، عبدالولی خان اور بینظیر کہہ چکے ہیں کہ یہ ملک صرف اور صرف جمہوری وفاقی نظام کے ذریعے ہی چل سکتا ہے اگر یہاں آمریت کے قیام کیلئے نئے تجربے کئے گئے وہ مہنگا پڑے گا پاکستان ایک میانہ رو سوسائٹی ہے اسے قرونی وسطیٰ میں لے جانا ممکن نہیں اس کا بہت ہی بھیانک نتیجہ نکلے گا لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ وفاقی پارلیمانی نظام کے استحکام پر توجہ دے تبدیلی کیلئے شفاف انتخابات کو واحد ذریعہ تسلیم کرے اگر آئین سے ماوریٰ اور متصادم طریقے اختیار کئے گئے تو کوئی نہیں مانے گا دنیا کو اور کام نہیں ہے کہ وہ عمران خان صاحب کی مریدی اختیار کرے اس کیلئے صدر عارف علوی ہی کافی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں