نواب نوروز خان سے سردار عطاء اللہ مینگل تک

تحریر: امان اللہ شادیزئی
آخری قسط
سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ تو بن گئے تھے اور ان کی پوری ٹیم کو اقتدار کا کوئی تجربہ نہ تھا ایک طرف یہ صورت حال تھی تو دوسری طرف نیپ کی حکومت کے خاتمہ کا فیصلہ بھی ہوچکا تھا بلوچستان کی سرحد ایک طرف ایران اور دوسری طرف افغانستان تھا۔ایران امریکن نواز حکومت تھی امریکہ اور سویت یونین کی کشمکش بھی جاری تھی شاہ ایران کو یہ پسند نہیں تھا کہ اس کی سرحد کے ساتھ روس نواز حکومت قائم ہو۔اندرون خانہ بھٹو بھی نیپ سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔سردار مینگل اور بھٹو میں تلخیاں موجود تھیں نیپ کے اندر بھی ایک خاموش کشمکش بھی چل رہی تھی سردار مینگل کے وزراء کی ناتجربہ کاری اور بھٹو کی شاطرانہ چال بھی حکومت کے لئے مسائل کھڑی کررہی تھی حکومت نے وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان‘باچاخان کے زبردست حریف تھے۔صوبہ سرحد اور بلوچستان میں قوم پرست حکومتیں ان کے لئے قبول نہ تھیں افغانستان میں سردار داؤ شاہ ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا پاکستان کے لئے سرخ جھنڈے کے مانند تھا یہ تبدیلی پاکستان اور امریکہ کے لئے بھی حیرت انگیز پریشانی کا سبب تھی افغانستان تو روس نواز تھا ہی مگر اب اندر تبدیلی خطرے کی علامت ھی۔اس تبدیلی سے نیپ زیادہ خوش تھی اورنیپ کے اندر بھی پشتون قوم پرستی اور بلوچ قوم پرستی ساتھ ساتھ چل رہی تھی لیکن اندر ہی اندر محاذ آرائی بھی چل رہی تھی نیپ کے اندر دو لابیاں کام کررہی تھیں ایک روس نواز اور دوسری بھارت نواز نیپ کو حکومت تو دی گئی تو ان کے ساتھ جمعیت علماء کو بھی شامل کردیا یوں یہ ایک شاطرانہ کھیل تھا جو بالا دست طبقہ کھیل رہا تھا۔
حکومت کو گرانے کا کھیل بلوچستان اور سرحدمیں شروع ہوا چاہتا تھا بلوچستان میں سردار مینگل کے آخری 4مہینے خطرناک کھیل کا حصہ بن رہے تھے نیپ ان مہینوں میں انتہائی پریشان تھی۔آخری مہینے افراتفری کے تھے خان عبدالقیوم خان کے ارشاد پر کوئٹہ میں پولیس نے اچانک ہڑتال کردی اور جلوس نکالا اور دکانوں کو زبردستی بند کرنا شروع کردیا۔توڑ پھوڑ شروع ہوگئی،میں اپنے دوستوں کے ساتھ ڈان ہوٹل میں بیٹھا ہواتھا کہ یہ جلوس گذرا مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ صوبائی حکومت کی پولیس سردار مینگل کے خلاف مظاہرہ کررہی تھی تھوڑی دیر بعد نیپ کے ورکرزڈنڈوں کے ساتھ نکلے اور پولیس پر حملہ آور ہوگئے پولیس چھاؤنی کی طرف بھاگ گئی یہ کھیل بھٹو کی ایماء پر خان عبدالقیوم خان کھیل رہے تھے۔پیپلزپارٹی نے جلوس نکالا تو نیپ کے ورکروں نے اس پر حملہ کردیا۔افراتفری شروع ہوگئی تھی اور دوسری طرف نواب بگٹی لندن سے پاکستان پہنچ رہے تھے وہ کوئٹہ سے پہلے لاہور پہنچے اور حکومت نے ان کے لئے لاہور کے موچی گیٹ میں ایک جلسہ کا اہتمام کیانواب بگٹی نے نیپ کے خلاف ایک لمبی چارج شیٹ جاری کردی اور اعلان ہوا کہ نواب بگٹی کوئٹہ پہنچیں گے۔اور بھٹو نے بلوچستان کے گورنر جناب غوث بخش بزنجو کو فارغ کردیا اور سردار عطاء اللہ مینگل نے اس اقدام کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا یہ شاید فروری 1973ء کا مہینہ تھا۔سردار صاحب ڈان ہوٹل کے سامنے خطاب کررہے تھے لوگ بہت کم تھے سردار مینگل نے نواب بگٹی اور بھٹو کے خلاف سخت لہجہ میں تقریر کی اور دوسری جانب نواب بگٹی کی آمد کا اعلان ہوچکا تھا اور سردار مینگل کا اعلان تھا کہ ہم نواب کو اس شاہراہ سے گزرنے نہیں دیں گے اس دوران حکومت پاکستان نے خبروں میں اعلان کردیا کہ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں دونوں حکومتوں کو توڑ دیا ہے اور گورنر راج قائم کردیا گیا۔یہ ایک دلچسپ تاریخی منظر تھا۔سردار عطاء اللہ مینگل کی تقریر جاری تھی کہ آغاظاہر نے ایک چٹ سردار عطاء اللہ مینگل کو تھما دی ت اس میں لکھا تا کہ آپ کی حکومت ختم کردی گئی ہے۔سردار صاحب نے چٹ پڑی اور اپنی شعلہ بیانی کو خاموشی سے توڑ دیا اور چوراہے سے اتر گئے۔آغا ظاہر نے ڈان میں خبریں سن لی تھیں یوں ایک تاریخی کا عہد کا خاتمہ ہوگیا بھٹو کا کھیل شروع ہوگیا تھا نیپ کو حکومت کا تجربہ نہ تھا اور دوسری طرف پی پی پی کا کھیل بھی چل رہا تھا اور امریکہ شاہ ایران کو بھی ناراض کرنانہیں چاہتا تھا اس لئے نیپ کی حکومت ختم ہوگئی۔ اور اس کے بعد حکومت نے اعلان کردیا کہ نواب بگٹی کوئٹہ پہنچ رہے ہیں حیرت اس بات کی تھی کہ ہزاروں عوام کوئٹہ ائیر پورٹ پر نواب کے استقبال کے لئے موجود تھی اس منظر کو دیکھ رہا تھا میرے ساتھ کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر حیات اللہ سنبھل موجود تھے اور وہ نواب کے استقبال کے لئے جہاز کے قریب نہیں گئے ان سے زمانہ طالب علمی میں ایک طالب علم کی لیڈر کی حیثیت سے شناسا کی تھی۔ہم سے کہا کہ بھٹو نے یہ درست نہیں کیا اور خاموش ہوگئے بھٹو نے نیپ پر بغاوت کا مقدمہ بنا دیا اور نیپ کے اکثر قائدین کو جیل میں ڈال دیئے گئے،۔بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا ور پہاڑوں پر بھٹو کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہوگئی دوسری طرف افغانستان میں کمیونسٹوں کے سردار داؤد کا اتختہ الٹ دیا ور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اور نور محمدترکئی تو ایک سکول ٹیچر تھا اس کو صدر افغانستان بنا دیا گیا۔
اس دوران بی ایس او اور نیپ کے بعض لوگ افغانستان چلے گئے عبدالمالک بھی افغانستان گئے حالات بڑی تیزی سے بدل رہے تھے افغانستان میں کمیونسٹ ایک دوسرے کا تختہ الٹ دیے تھے۔ اور افغانستان کے صدر قتل ہورہے تھے نور محمد کو حفیظ اللہ امین نے قتل کیا اور حفیظ اللہ امین کوروسی فوج کے داخل ہونے کے بعد قتل کردیا گیا افغانستان میں یہ کھیل چل رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا اب کھیل دوسری طرف شروع ہوگیا اور جب ضیاء الحق نے ملک میں عام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا تو نیپ کے لیڈر بھی رہا ہوگئے سردار عطاء اللہ مینگل کو ضیاء الحق نے علاج کے لئے امریکہ بھیجا۔
حیدرآباد سازش کیس کا ٹربیونل توڑ دیا گیا جیل میں نیپ کے قائدین اکٹھے ہوگئے تھے جب جیل سے نکلے تو سب کی راہیں علیحدہ علیحدہ ہوگئیں۔نواب خیر بخش لندن چلے گئے بعد میں حکومت کی نااہلی کی وجہ سے افغانستان چلے گئے سردار عطاء اللہ مینگل لندن میں قیام پذیر ہوگئے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہورہے تھے افغانستان مین سویت یونین نے مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھائی اور سویت یونین کا جود بھی ختم ہوگیا۔دنیا سے سوشلزم کمیونسٹوں کا خواب بکھر کر رہ گیا روسی شکست کے بعد نواب خیر بخش خان مری کو جام یوست کے دور میں واپس لیا گیا۔
لندن میں سردار مینگل نے بیٹے کے لئے ہوٹل کھولا تھا ان کا ہوتل وکٹوریہ کراس میں تھا۔نواب بگٹی دنوں لندن میں تھے اور اتفاق سے برطانیہ میں مسلم انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں برطانیہ گیا تھا اور لندن یونیورسٹی میں قیام پذیر تھا یہ اگست 1984ء کا دور تھا کانفرنس میں مقالہ پڑھنا تھا۔لندن جانے سے پہلے نواب صاحب کو بتلایا دیا تھا کہ ان دنوں لندن میں ہوں گا جب آپ جرمنی سے لندن آئیں گے ان سے ملاقات ہوئی وہ ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھے۔نواب بگٹی کے قبیلے کا ایک شخص موجود تھا اس نے نواب صاحب سے کہا کہ سردار کا ایک ہوٹل ہے چلیں وہاں چلتے ہیں ہم بس میں بیٹھے اور ہوٹل پہنچ گئے داخل ہونے سے پہلے اس نے کہا کہ جو نوجوان ہوٹل کے اندر ہے اس کانام اختر مینگل ہے ہم داخل ہوئے تو وہ قریب آگیا اس نے نوجوان کو بتلایا کہ نواب بگٹی ہیں وہ بڑے احترام سے ملے ہم نے چائے پی اس کے بعد روانہ ہوگئے۔
ہم سردار عطاء اللہ مینگل کے حوالے سے تجزیہ کرہے ہیں سردار کے سیاسی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو ان 3شخصیات کے تذکرے کے بغیر ادھوری رہے گی اتفاق سے ان تینوں سے ملاقات ملاقات رہی ہے نواب بگتی سے تو تقریباً 20سال تک دوستی برقرار رہی تھی اب نواب بگٹی پر کتاب کا اردارہ ہے چند فلسطین فرائیڈ ے اسپیشل میں شائع ہوچکی ہیں اس کا ٹائٹل ہے ”بگٹی ہاؤس کا نواب“اب سردار عطاء اللہ مینگل کی وفات کے ساتھ تاریخ کے ایک عہد کا اختتام ہوگیا ہے ان کے ذکر کے بغیر بلوچستان کی سیاسی اور قبائلی تاریخ ادھوری رہے گی ان کے دور کو تاریخ کا نوحہ بنانا چاہیے میری مراد ان کی سیاسی تاریخ کو قلمبند کیا جائے ان تین شخصیات میں نواب بگٹی،نواب خیر بخش خان مری اور سردارمینگل شامل ہیں ان کو تاریخ نظر انداز نہیں کرسکے گی۔ان کے سیاسی استاد غوث بخش بزنجو کا بھی تاریخ میں نام ہے اور ان کا بھی بڑا دور ہے ان کے ساتھ بڑا المیہ یہ تھا کہ عام انتخابات میں سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب بگٹی اپنے استاد کو انتخاب میں شکست فاش دی یہ بلوچ سیاست کا ایک المیہ ہے جو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔نواب نے آخر عمر میں سردار مینگل نواب خیر بخش مری کو بگٹی ہاؤس میں دعوت دی اور اپنی نوجوانی کے خوبصورت لمحات کو شیئر کرتے رہے۔
قارئین محترم۔۔سردار عطاء اللہ مینگل کے حوالے سے سیاست کے چند پہلوؤن کا ذکر کیا ہے ان تینوں سے میری ملاقاتیں رہی ہیں بلوچستان پر جب بھی بولا جائے گا یا لکھا جائے گا تو ان کو نظر انداز کرنا نا ممکن ہوگا ان تینون نے اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے ایک روشن شاہراہ چھوڑ دی ہے ان کا دور آزمائیشوں سے بھرا ہوا تھا پہاڑوں پر نہ جانے کتنے فرزدانوں کا خون کچھ یا ددلاتا رہے گااور وہ خون یہ بھی نوحہ کرتا رہے گا کہ ہمیں فراموش نہ کرنا ہمیں بھلا نہ دینا کہ ہم تاریخ کے تاریک لمحوں میں مارے گئے ہیں۔اس مصرعہ پر اختتام کرتا ہوں۔اپنے حصے کی ایک شمع جلائے جانا۔(ختم)
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں