خضدار میں علمی دنیا کا روشن چراغ؟

تحریر:امان اللہ شادیزئی
سردار عطاء اللہ مینگل (مرحوم)کی فاتحہ خوانی کے لئے روانہ ہوئے تو ہمیں خضدار میں واپسی پر رکنے کا کہا گیا جب ہم وڈھ کے لئے روانہ ہوئے تو ہمارے قافلہ میں خضدار سے محمد اسلم گزگی امیر جماعت اسلامی خضدار اپنی ٹیم کے ہمراہ گاڑیوں میں محو سفر تھے ان کے ہمراہ علی اکبر زہری،نائب امیر ضلع خضدار مولانا عبدالباسط سہوانی،جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی خضدار مولانا عبیداللہ ساسولی،نائب امیر ضلع خضدار قاری قاسم زہری،میر تحصیل زہری قاری عنایت اللہ مینگل،امیر تحصیل وڈھ مولانا امان اللہ مینگل،سابق امیر خضدار زون زین العابدین زہری صدر جے آئی یوتھ شامل تھے۔ہم سب فاتحہ خوانی سے لوٹے تو خضدار میں طہرانہ کا انتظام تھا ہم مدرسہ میں داخل ہوئے تو محمد اسلم گزگی نے لائبری کے افتتاح کا پروگرام تشکیل دیا ہوا تھا مولانا عبدالحق ہاشمی کے ہمراہ لائبریری میں داخل ہونے سے پہلے رسم ادا کی گئی اس کے بعد دعا ہوئی اور ہم لائبریری میں داخل ہوگئے اندر کا منظر بہت خوبصورت تھا حیران ہو کر دیکھ رہا تھا یقین نہیں آرہا تھا کہ اندر سے اتنی خوبصورت اور پرکشش عمارت ہوگی۔کمرے میں گاؤ تکیے رکھے ہوتئے تھے ہم سب بیٹھ گئے۔آغاز تلاوت سے کیا گیا پروفیسر نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا مجھے بھی تقریر کے لئے کہا گیا پہلے سے نہیں بتایا گیا تھا اچانک بولنا پڑا مشکل ہوتا ہے جب ذہن تیار نہ ہو تو خیالات کو ترتیب دینے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے۔تاریخ کی بڑی شخصیات کا ذکر کیا جن کے خیالات سے دنیا کو زیر و زبر کیا اور انقلابات برپا کئے کمیونسٹ انقلابات کا پھر مختصراً جائزہ لیا اور انقلاب ایران کا حوالہ بھی دیا۔روس اور چین کے انقلابات کا جائزہ بھی پیش کیا یہ تجزیہ کتابوں کے حوالے اور اہم شخصیات کے حوالے سے تھا۔
پاکستان میں سید مودو یؒ کے حوالے سے تجزیہ پیش کیا1942ء میں سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اور اپنے خیال کی قوت سے جماعت اسلامی جیسی نظریاتی پارٹی تشکیل دی اور مولانا کے نظریات دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گئے ان کے لٹریچر نے جرات انگیز کام کیا جہاں بھی اسلامی انقلاب ہوگا وہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی کتب اور ان کی شخصیت کے بعد ادھورارہے گا۔ایران،ترکی،مصر،سوڈان،افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک اور غیر اسلامی ممالک کاحوالہ موجود ہوگا۔مولانا کے تنگ نظر مولوی آج گمنامی کے گوشے میں چلئے گئے ہیں آج ان کا نام ونشان مٹ گیا ہے اب یہ بات طے ہے کہ جہاں بھی جہاد ہوگا یا اسلای جدوجہد ہوگی وہاں مولانا مودودی کے خیالات کے افکار کے اثرات نظر آئیں گے۔افغانستان کے جہاد میں مولانا کا لٹریچر سویت یونین تک پہنچا دیا گیا اس موقع پر ایک دلچسپ پہلو کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور بڑی حیرت ہوتی ہے پاکستان میں سوشلسٹ اور قوم پرست دانشور جو لینن،مارکس اور ماؤزے تنگ کی کتابوں کو بغل میں لئے پھرتے تھے اور کتابیں تقسیم کیا کرتے تھے وہ ایک نکتہ پر متفق تھے کہ مولانا مودودی کو نہ پڑھیں حیرت اس بات پر ہوتی کہ جو کارل مارکس اور لینن کی کتابوں کو تقسیم کرتے تھے اور باقاعدہ پڑھنے کا کہتے تھے،بحث کے لئے نشست و برخاست ہوتی تھی اور ایک نقطہ پر تنگ نظر مولوی اور روشن خیال قوم پرست اور سوشلسٹ مولانا مودودی کی کتب پڑھنے سے منع کرتے تھے مولوی کا کتاب سے خوفزدہ ہونے تو سمجھ میں آتا ہے مگر روشن فکر ترقی پسند سوشلسٹ اور قو م پرست دانشور کا مولانا مودودی کی کتب سے خوفزدہ ہونا آج تک سمجھ میں نہیں آسکا۔21ویں صدی میں کتاب سے خوفزدہ ہونا حیرت انگیز بات ہے۔تنگ نظرمولوی اور روشن فکر سوشلسٹ کا خوف زدہ ہونا سمجھ سے بالاتر ہے،بہر حال ہم نے اور تاریخ نے کمیونسٹ سویت یونین کو افغان مجاہدین کے ہاتھوں تاریخی شکست کو کون بھلا سکتا ہے۔سویت یونین کا نام ونشان تاریخ کے صفحات سے مٹ گیا۔اس تاریخی شکست اور تاریخی جیت کے بعد قوم پرست وہاں پہنچ گئے جہاں ان کا وہم گمان بھی نہ تھا۔اب طالبان کے ہاتھوں امریکہ اور نیٹو کو تاریخی شکست نے سب کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے۔ایک نیا افغانستان طلوع ہورہا ہے تاریخ کا خوبصورت سحر انگزسیاست ہے جو رقم ہوگئی ہے ایک نئی صبح روشن ہوگئی ہے افغانستان میں جو بڑے سامراجی ممالک اور ایٹمی قوتوں کو مقدس سرزمین پر بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے ابھی تک یقینی نہیں آرہا ہے کہ امرکہ جیسی ایٹمی قوت اور فوجی قوت شکست کھا سکتی ہے مستقبل میں اس خطے میں سب کچھ تبدیل ہوگا ان کا خیالات کا کچھ حصوں کا تو تحریر میں کیا باقی حالات حاضرہ کے حوالے سے خیالات کو ترتیب دیا ہے یہ مختصر سے تجزیہ ہی ہے ہاشمی صاحب نے بھی خطاب کیا اور کچھ کتب کا تحفہ دیا پچاس ہزار نقد کا اعلان بھی کیا اس کے بعد ایک بہت ہی پرتعیش ظہرانہ کا انتظام بھی تھا۔دستر خوان پر وہ سب کچھ موجود تھا جو کسی خان وسردارکے دستر خوان پرہوتا ہے۔لائبریری میں کچھ کتب موجود تھی امید ہے کہ یہ چند سالوں میں ایک خوبصورت لائبریری بن جائے گی۔اور طالبان ذو ق کے لئے علمی پیاس بچھان کا کام دیگی۔لائبریری کی عمارت بڑی خوبصورتی سے بنائی گئی ہے اس کے ساتھ ہی مہمانوں کے لئے ایک علیحدہ کمرہ موجود ہے ساتھ ہی واش روم ہے اور اس کو دیکھا تو حیرت ہوئی ایسے لگا جیسے فائیو سٹار ہوٹل کا واش روم ہے اور مجھے جب کوئٹہ میں صوبائی دفتر کے واش روم کا خیال آیا ہے تو بڑی شرمندگی ہوئی اس واش روم میں جائے تو وحشت ہوتی ہے۔محمد اسلم گزگی کو تو داد دیئے بندہ نہیں رہ سکا لیکن اس کو وہ مقام پر صوبائی جماعت میں نہیں دیا گیا جس کا وہ مستحق تھے لیکن وہ ان سے بے نیاز ہے اور اس کی کوششیں لاجواب ہے انہوں نے ایک اچھی ٹیم بنائی ہے جو پورے صوبے میں سب سے متحرک شخصیت جناب محمد اسلم گزگی کی ہے جو لائبریری بنائی ہے وہ پورے صوبے کے لئے روشن مثال ہے اور انہوں نے اس لائبریری کو جناب سید منور حسن کے نام سے منسوب کیا ہے سید منور حسن مرحوم سے میرا اس وقت قائم ہوا جب اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ تھے اور میں اس دور میں جمعیت کا رکن تھا مرحوم سید منور حسن کا دور تاریخی تھا وہ افغان جہاد کے زبردست حامی تھے طالبان کے پشت پناہ تھے اور بعض معاملات میں فوجی جنرلوں کی کل کر مخالفت کی گو امریکہ گو کا نعرہ قلندرانہ ان کا ایجاد تھا وہ تو دنیا سے چلے گئے مگر ان کا نعرہ قلندرانہ تاریخ کا حصہ بن گیا آج امریکہ اپنے جاہ وجلال کے باوجود ایشیاء کی مقدس سرزمین سے ذلت آمیز شکست کے بعد بھاگ گیا اس کی تربیت یافتہ تین لاکھ پچاس ہزار سے زائد فوج طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی ایسے ذلت آمیز شکست اس تاریخ کا حصہ ہے۔سید منور حسن کی روح خوش ہوگئی ہو گی ایک نیا افغانستان وجود میں آجائے گا سید منور حسن ایک انقلابی امیر تھے وہ سید مودودی کے حقیقی جانشین تھے ان کے بعد آنیوالوں نے اس نعرہ کو بھلا دیا تھا آج ان کی روح خوش ہوگی کہ مقدس سرزمین عالمی استمعار کے ناپاک غلاموں سے پاک ہوگئی ہے۔ہم جناب محمد اسلم گزگی کی مہمان نواز ی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہوگئے یہ دوران میرے لئے ایک لحاظ سے تاریخی تھا بعض اہم شخصیات سے ملاقات ہوگئی۔دوبارہ خضدار آنے کی خواہش ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں