طالبان۔۔۔عبوری یا ادھوری حکومت

تحریر: راحت ملک
بلاشبہ یہ خدشہ بعید از قیاس نہیں کہ طالبان کے زیر سایہ افغانستان میں غذائی قلت،بے روزگاری،عدم تحفظ، صنفی امتیاز۔ فرقہ وارانہ عدم برداشت۔ادویات کی فراہمی،معاشی عدم استحکام کی وجاھت کی بنا پر بہت سے انسانی المیے جنم لے سکتے ہیں لہذا ہمسایہ ممالک اور بالخصوص دنیا افغان عوام کے ممکنہ مصائب کا قبل از وقت تدارک کرنے کے لئے ہنگامی امدادی اقدامات کرے، دنیا بھر کے انسان یقینا ان امکانی خدشات کو تشویش سے دیکھ رہے ہیں اور یقینا وہ افغان عوام کے ہمدرد بھی ہیں۔سوال یہ ھے کہ متذکرہ خدشات یا انسانی المیوں کی وقوع پذیری کے بنیادی عنصر کو اس کا احساس کرنے یا حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی ضرورت نہیں؟۔عالمی سطح پر طالبان حکومت کو تسلیم کرانے ان کی معاونت کرنے یا ان کے منجمد شدہ اثاثے (وہ ان کے ہیں یا امریکہ کے عطا کردہ)بحال کرنے کی اپیل کرتے ہوئے اگر پاکستان کے حکمران (اقتدار اور اختیار کے دونوں حلقے) طالبان پر بھی دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے عوام کو امکانی مصائب میں مبتلا کرنے سے گریز کریں دنیا کے ہم قدم ہو کر چلیں اور ایسے اقدامات سے اجتناب کریں جن کی بناء پر افغانستان اور افغان عوام عالمی تنہائی کا شکار ہوسکتے ہیں طالبان افغانستان کو دنیا سے الگ تھلگ ایک سیاسی جزیرہ بنانے کی بجائیایک خود مختار،مستحکم خوشحال اور ترقی کرتے ملک و سماج میں ڈھالیں۔
دوشنبے میں طالبان کی حکمرانی کی حمایت میں اسلام آباد کی تنہا آواز تھی،دیگر ممالک انسانی المیوں کے خدشات کو فوقیت دے رہے تھیکانفرنس کے شرکاء طالبان سے(وسیع البنیاد)حکومت بنانے اور تمام افغان دھڑوں کو شریک اقتدار کرنے کی شرائط پر مصر تھے۔ جناب وزیراعظم عمران خان. نے تاج صدر کو تجویز دی کہ وہ افغانستان کے تاجکوں سے رابطہ کرکے انہیں طالبان کے ساتھ شریک اقتدار کرنے امادہ کریں یا مصالحتی کردار ادا کریں۔ اپنے لیے انہوں نے افغان پشتون دھڑوں اور طالبان کے درمیان افہام وتفہیم و باہمی تعاون پر آمادہ کرنے کا فریضہ ادا کرنے کا عندیہ دیا۔بہتر ہوتا کہ اس کانفرنس میں پاکستان تمام افغان دھڑوں کو اسلام آباد مدعو کر کے ایک وسیع البنیاد حکومت کے لئے سفارت کاری کرنے کا اعلان کرتا۔ ویسے بھی 15اگست کے بعد شمالی اتحاد کی ساری قیادت پاکستان آگئی تھی وہ اب کہاں ہے؟اگر وہ ا سلام آباد میں مقیم ہیں تو طالبان اور ان کے درمیان اختلافات دور کرانے میں بہت آسانی ہوسکتی ہے۔
افغانستان میں ممکنہ خدشات اور دہشت گردی پھیلنے کے خطرات کی دہائی دے کر افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت تسلیم کرانے کی کوششیں رائیگاں جائیں گی کیونکہ اس دلیل میں چھپی” دھمکی” مہذب ملکوں کو ہمدردانہ غور کے برعکس خوفزدہ کرسکتی ہے یہ انداز ٍ وکالت و استدلال مغربی دنیا کے خدشات کو تقویت دے گا۔
امریکی وزیر خارجہ کے بیان سے پاکستان کے اقتدار و اختیار کے دونوں مراکز کو اپنے تمام اقدامات اور پرجوش بیانات کا از سر نو تنقیدی جائزہ لینا چاھیے۔امریکہ بھارت آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل چار ممالک کا اتحاد۔ اپنی نہج میں شنگھائی تعاون کانفرنس کے اغراض اور جنوب ایشیائی ممالک کی حالیہ نئی باہمی معاشی تعاون کی صف بندی کے خلاف ایک تدارکی اقدام ھے۔طالبان کی فتح کے ترانے گانے کا مطلب امریکہ اور اتحادیوں کو شکست کے تانے دینے کے منفی اثرات آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے چاہئیں، کیونکہ اتحادیوں میں پاکستان بھی تو شامل تھا۔ جزل مشرف کی پالیسی کی بنا ہی پاکستان امریکہ کا غیر نیٹو اتحادی ملک قرارتھا چنانچہ طالبان کو فاتح کہنے کا مطلب منطقی طور پر ” پاکستان ” کی شکست کی صورت نکلتا ہے اگر طالبان فاتح اور اتحادی شکست خوردہ ہیں تو پاکستان کس پلڑے میں شمار ہوگا؟ اگر ہم فاتح(طالبان)کے لئے پر جوش رہیں گے تو یہ الزام درست سمجھا جاے گا کہ پاکستان نے 9/11 کے بعد اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار کی حمایت تو کی بظاہر اتحادی افواج کا ساتھی بھی بنا مگر اس کی روح اور دلی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ تھیں۔امریکی وزیر خارجہ اور دیگر امریکہ اراکین پارلیمان کی تنقید میں پاکستان کے اسی طرز کے دوغلے پن کو نمایاں بنا کر امریکہ کی
” پسپائی” کا جواز تراشا جارہا ہے۔امریکہ وزیر خارجہ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کا از سر نو جائزہ لینیاور پاکستان کے خلاف اقدامات کی سفارتی دھمکی دے چکے ہیں۔ جو قابل ٍ مذمت تو ہے لیکن اس میں ہمارے لیے تشویش کا سامان بھی ہے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کا پاکستان پہنچ کر سیریز منسوخ کرنے کا فیصلہ امریکہ کے متذکرہ بالا "اقدامات” کا نکتہ آغاز ہوسکتا ہے۔نیوزی لینڈ ٹیم کا دورہ جس دھمکی پر منسوخ ہوا ہے وہ 20اگست 2021 کو مفرور ٹی ٹی پی رہنما احسان اللہ احسان نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے جاری کی تھی جس کا لب و لہجہ دھمکی کی بجائے دوستانہ تنبیہ پر مبنی تھا یہ ٹویٹ پیچیدہ صورتحال کی بیت سہل وضاحت بھی کرتا ہے سوال یہ ہے کہ اس ٹویٹ پر 20 اگست کو غور کیوں نہیں کیا گیا؟
اگر یہ ٹویٹ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیز کی نگاہوں سے اوجھل رہی تو پیشہ ورانہ غفلت تھی اور اگر اسے نظر انداز کیا گیا تو یہ تجاہل عارفانہ کہلاے گا۔ اگر نیوزی لینڈ حکومت (20اگست کے بعد)ہی کرکٹ ٹیم کا دورہ منسوخ کردیتی تو یہ ایک معمولی قدم ہوتا۔ مگر انہوں نے دھمکی۔ جیسا کہ بتایا جارہا ملنے کے بعد بھی انہوں نے ٹیم پاکستان روانہ کردی لیکن میچ شروع ہونے ذرا قبل دورہ منسوخ کرکے اس اقدام کو ڈھماکہ خیز خبر بنانا پسند کیا گویا امریکہ،کینیڈا برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے پاکستان میں گھس کر وار کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اپنے منصوبے پر عل کر کے دنیا کو پیغام دیا گیا کہ پاکستان غیر محفوظ ملک ہے جہاں القاعدہ کا نیت ورک موجود ہے۔ میرے لیے کرکٹ میچ کی منسوخی سے زیادہ یہی تشویشناک پہلو ہے جسے ہمارے سرکاری احتجاجی ردعمل میں پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ طالان حکومت کی لیجیٹی میسی کے لیے ہماری جدوجہد اور طالبان کا رجعتی حکمرانی پر اصرار بایم مل کر پاکستان کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ کیا نیوزی لینڈ کے بعد برطانیہ کی ٹیم کا پاکستان آنا ممکن رہ گیا ہے؟ یقینا اس سوال کا مثبت جواب آسان نہیں۔یاد رہے 15اگست اور20اگست میں صرف پانچ دن کا فاصلہ تھا 15۔اگست کے بعد۔افغانستان طالبان کی گرفت میں آگیا امید کی جارہی تھی کہ وہ ماضی کے بر عکس نیا بدلا ہوا مثبت رویہ اپنائیں گے مگر ایسا ہوا نہ ہی ایسا ہونے کا فی الحال کوئی امکان ہے 20اگست اب بہت پیچھے رہ گیا ہے طالبان نے کابل پر اپنی واحد گروہی حکومت قائم کرلی ہے جسے عبوری حکومت کا عنوان دیا گیا ہے جبکہ صدارت کا منصب تاحال خالی ہے شاید اسے امیر المومنین کے عہدہ جلیلہ سے بدل دیا جائے افغانستان کا آئین بھی طوٹ کا تسمہ بن چکا دریں حالات اگر میں موجودہ طالبان حکومت کو عبوری کی بجائے ادھوری کہوں تو کیا یہ غلط بات ہوگی۔!!
اس نقطے کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جو دو شنبے کانفرنس سے نمایاں ہو کر ابھرا ہے۔تمام ہمسائیہ ممالک نے افغانستان میں موجود حکومتی سانچے کو قبول کرنے سے معذرت کرلی ہے اور کم وبیش ویسی ہی شرائط پیش کی ہیں جیسی مغربی دنیا اور دیگر ممالک کررہے ہیں پاکستانی حکمران مسلسل طالبان حکومت تسلیم کرانے کی مہم چلا رہے ہیں۔
26ستمبر سے شروع ہونیوالے برطانیہ کے دورے سے قبل ہی وزیر خارجہ جناب شاہ محمود نے بیان دے دیا ہے جس میں برطانیہ اور مغربی دنیا سے افغانستان کی” حقیقت ” قبول کرنے کا مشورہ دیاگیا ہے۔ اس عالی دماغ مشورے کے بعد دورہ برطانیہ کی افادیت بہت کم رہ گئی ہے وزیر خارجہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ” ہمیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کام کرنے دیں ” انکے خیال میں طالبان کو الگ تھلگ کرنے سے خطے میں انتشار پھیلے گا۔ یہ بات درست ہے تو میری رایے میں یہ امر امریکی مفادات کے لیے محوری نقطہ ہے تو وہ کیونکر اپنے اتحادیوں کو خطے میں استحکام کے لیے معاونت کی اجازت دے؟؟ ویسے طالبان حکومت تسلیم کرنے سے جنوب ایشیائی مبطقے میں امن سلامتی و استحکام بارے تاحال کسی جانب سے یقین ظاہر نہیں کیا گیا۔
لگتا ہے جناب شاہ محمود لندن میں افغان طالبان کیلئے سفارتکاری کرنے جارہے ہیں کیا یہ عمل افغانستان میں طالبان کی
” جانبداری "ثابت نہیں کرتا؟ یہ بھی کہ وہ اپنے لئے سفارتی مہم چلانے کے اہل نہیں؟ لیکن دوحا میں کامیابی سے مذاکرات کرسکتے ہیں!!! طالبان کو افغانستان میں ایک بڑا چیلنج یہ بھی درپیش ہے کہ انہیں افغان عوام کی بڑی تعداد پاکستان کا پراکسی اثاثہ قرار دیتی ہے جبکہ طالبان اس منفی تاثر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
امریکہ نے باضابطہ طور پر پاکستان کو طالبان حکومت تسلیم کرنے میں عجلت سے اجتناب کی دھمکی دی ہے۔اسی لیے اسلام آباد نے تاحال طالبان حکومت کو باظابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا جو مباسب بات ہے۔پھر کیا جناب شاہ محمود لندن پہنچ کر امریکہ دھمکی کی دھجیاں اڑانے کا احمقانہ شوق پورا کرینگے۔؟
میرے خیال میں پاکستان طالبان سے تین توقعات رکھتا ہے (1)وہ افغانستان میں بھارتی رسوخ بحال نہ ہونے دیں (2)موجودہ بین الاقوامی سرحد کو باضابطہ تسلیم کرلیں (3)افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی قیادت /تنظیم کی موجودگی /فعالیت ختم کریں۔دکھ کی بات ہے اشرف غنی دور میں گرفتارکئے گئے ٹی ٹی پی رہنماؤں بشمول ملا فقیر کو جیل سے طالبان نے رہا کیا ہے۔سابقہ حکومت جس کے ساتھ اسلام آباد،خوشگوار تعلقات کے قیام کا پر عزم مدعی تھا اور اسے غیر مستحکم کرنے کے کسی بھی اقدام سے لاتعلقی ظاہر کرتا تھا اسی دور میں پاکستان کے مطلوب ملزمان گرفتار کیے گئے تھے۔اشرف غنی حکومت ختم کیے جانے ک ے بعد اسلام آباد اشرف غنی پر نااہلی کے الزامات عائد جررہا ہے۔ باریک بینی سے غور کریں اس گیم میں سبھی دوھرا کردار ادا کررہے تھے۔
طالبان دیگر سیاسی یا قومیتی اکائیوں کو اقتدار میں شریک کر پائینگے یا نہیں اس بارے شکوک موجود ہیں تاہم ابھرتے مفادات کے تضادات بتاتے ہیں کہ طالبان اپنا اتحاد بھی شاید برقرار نہ رکھ پائیں اور افغانستان ایک بار پھر 90 کی دھائی کے اوائل جیسی برادرکشی کا شکار ہو سکتا ہے الللہ جرے میری یہ بات درست ثابت نہ ہو۔ لیکن۔۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں