پاکستانی سیاست رسوا کن مرحلے میں

تحریر: انورساجدی
پاکستانی سیاست ایک اور رسوا کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے سندھ کے سابق گورنر ن لیگ کے قائد نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے ترجمان زبیر عمر کی خواتین کے ساتھ اچھل کود پر مشتمل نازیبا 5 ویڈیوز وائرل کردی گئی ہیں اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اہم سیاستدانوں کی نازیبا ویڈیوز بڑی تعداد میں موجود ہیں اور انہیں حسب ضرورت جاری کردیا جائے گا چونکہ یہ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل دور ہے اس لئے مخالفین کو رسوا کرنے کے لئے فیک ویڈیو اور فوٹو شاپ کے ذریعے جعلی تصاویر وائرل ہونے کا احتمال بھی ہے اس وقت ڈیجیٹل ایپس پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے‘ سیاسی مخالفین تو کیا ذاتی مخالفین کے خلاف بھی فیک ویڈیوز کی بھرمار ہے لیکن حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کی بات اور ہے گزشتہ سال شیخ رشید کی خلوت میں اچھل کود کی ویڈیوز منظر عام پر آئی تھیں اگرچہ انہوں نے اس کی پروا نہیں کی تھی کیونکہ گھر بار نہیں ہے رسوا کہاں ہونا تھا محلوں اور گلیوں میں تو شیخ صاحب پہلے سے نامور ہیں لہٰذا انہیں رسوائی کا کیا ڈر البتہ زبیر عمر جیسے شخص تو ایک نہیں پانچ ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد یقینی طور پر گھر نہیں گئے ہونگے خدا کرے کہ ان کی ویڈیوز جعلی ہوں لیکن اگر 1970ء کے عہد کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک رسوا کن دور تھا کیونکہ اس وقت کے صدر مملکتی امور چلانے کے بجائے رنگ رلیوں میں مصروف رہتے تھے کیا بلیک بیوٹی کیا ملکہ ترنم کیا فلم اسٹار ترانہ اور کیا جنرل رانی‘ یحییٰ خان دن رات ان میں گزارتے تھے حتیٰ کہ جب انہیں سقوط ڈھاکہ کی اطلاع دی گئی تو بھی وہ کسی آبرو مندانہ پوزیشن میں نہیں تھے ان رنگینیوں کی داستان حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ بات غلط ہو محض الزام ہو یا کردار کشی‘ کہا جاتا ہے کہ زبیر عمر اور اسد عمر کے والد جنرل غلام عمر جوکہ یحییٰ خان کے قریبی ساتھیوں میں بلکہ خلوت اور جلوت کے ساتھیوں میں شامل تھے ان کی حیثیت بڑی حد تک ایک سہولت کار کی تھی حمود الرحمان کمیشن نے مشرقی پاکستان میں جنگی جرائم پر انہیں سزا کی سفارش کی تھی۔
جس کی وجہ سے بھٹو صاحب نے انہیں چند ماہ جیل میں رکھا تھا‘ زبیر عمر کے چھوٹے بھائی اسد عمر اس وقت اہم وفاقی وزارت پر فائز ہیں اور ان کا شمار عمران خان کے بااعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے وہ ایک منفرد فرد ہیں لیکن وہ بھی شادی کی ایک تقریب میں ایک خاتون کے ساتھ اونٹ کی طرح بے کل رقص فرمارہے تھے اگرچہ موسیقی رقص اور آہنگ تہذیب کا اہم حصہ ہیں خوشی سے جھوم اٹھنا ایک فطری عمل ہے کسی بھی صورت میں خوش ہونا ایک بنیادی حق ہے جن ممالک میں موسیقی رقص اور دیگر فنون لطفیہ پر پابندی ہے وہاں کے لوگ اداس اور مایوس رہتے ہیں جیسے کہ ایران اور افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد پہلے اقدام کے طور پر فنون لطفیہ کے تمام شعبوں پر پابندی عائد کردی گئی اس سے کچھ کم لیکن ایرانی ملا صاحبان نے بھی یہی کچھ کیا تھا۔
اگر یحییٰ خان کے دور میں انٹرنیٹ ہوتا تو اس دور کے شرفاء کی ہزاروں تصاویر منظر عام پر آجاتیں لیکن خوش قسمتی سے اس وقت یہ چیزیں نہیں تھیں اس کے باوجود یحییٰ خان کی خواتین کے ساتھ سینکڑوں نازیبا تصاویر موجود ہیں برسوں پہلے کہا جاتا تھا کہ سی آئی اے اور کے جی پی غیر ممالک کے ناپسندیدہ حکمرانوں کی خفیہ تصاویر بناکر ان کو بلیک میل کرتی تھیں یا ان کی سیاسی گرفت کمزور کرنے کے لئے ان تصاویر کے ذریعے ان کی کردار کشی کرتی تھیں۔ 1977ء میں نام نہاد پی این اے نے اپنی تحریک کے دوران بیگم نصرت بھٹو کی امریکی صدر جیرالڈ فورڈکے ساتھ رقص کی تصویر جاری کی تھی کمال یہی ہے کہ سی آئی اے نے یہ تصویر پی این اے کو فراہم کی تھی کردار کشی کا عملی آغاز میاں نواز شریف نے 1990ء کی دہائی میں محترمہ بینظیر بھٹو کی جعلی تصاویر جاری کرکے کیا تھا بدقسمتی سے گزشتہ چار دہائیوں کا تمام سیاسی خرابیوں اور سیاسی مخالفین کی کردار کشی کے اشارے تو نواز شریف کی طرف جاتے ہیں وہ ایسا کرتے کرتے خود بھی اس کا شکار ہوگئے لیکن وہ کبھی باز نہیں آئے احتساب عدالت کے جج ارشد کی نازیبا تصاویر انہی کے لوگوں نے بنائی تھیں محترمہ مریم نواز نے کئی بار دھمکی دی تھی کہ ان کے پاس متعدد تہلکہ خیز ویڈیوز ہیں اور وہ یکے بعد دیگرے ان ویڈیوز کو جاری کردیں گی حالانکہ انکی ذات بھی فیک ویڈیوز کی زد میں ہے ان کی کئی جعلی ویڈیوز اس وقت وائرل ہیں یہ ایک خطرناک رجحان حد درجہ کی کردار کشی ناقابل برداشت اور قابل نفرت عمل ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کوئی بھی اس کی زد سے نہیں بچ سکے گا۔
فیک ویڈیوز اور فیک نیوز موجودہ دور کی اصطلاح ہے اس کا پہلا استعمال سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت کیا تھا جب سی این این اور نیو یارک ٹائمز کے ساتھ ان کے شدید اختلافات تھے وہ اکثر و بیشتر کہتے تھے کہ سی این این خبریں نہیں دیتا بلکہ فیک نیوز چلاتا ہے اسی طرح وہ نیویارک ٹائمز کو بہتان طرازی کا ذریعہ سمجھتے تھے لوگوں کو وہ منظر ضرور یاد ہوگا جب وہائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے سی این این کے نمائندے کو برا بھلا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ آپ کو سی این این کا نمائندہ ہونے پر شرم محسوس کرنی چاہئے انہوں نے تمام امریکی میڈیا کے خلاف اس طرح اعلان جنگ کیا تھا جس طرح پاکستان میں عمران خان کررہا ہے ان کے رویہ سے عاجز آکر ایک سو امریکی اخبارات نے ایک ہی دن ایک مشترکہ اداریہ شائع کیا تھا وہ تو امریکہ تھا وہاں کے ادارے مضبوط ہیں اس لئے ڈونلڈ ٹرمپ نہ سی این این کا کچھ بگاڑ سکے اور نہ ہی نیو یارک ٹائمز کا بال بیکا کرسکے فیک نیوز یا جعلی پروپیگنڈہ کوئی نئی بات نہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کے میڈیا منیجر گوئبلز نے اس کام کو بام عروج پر پہنچایا تھا اس کام پر انہیں جھوٹوں کا سردار کہا گیا تھا‘ پاکستان میں بھی ایوب خان نے اس کی طرح ڈالی تھی 1964ء کو جب صدارتی مہم جاری تھی تو الطاف گوہر نے ایک اشتہار چلایا تھا جس میں محترمہ فاطمہ جناح کو غدار اور غفارہ کا ساتھی قرار دیا گیا تھا۔
ماضی قریب میں حسین حقانی نے کئی فیک مہم چلائی تھیں بینظیر کا وہ جعلی خط تاریخ کا حصہ ہے جو نواز شریف کے کہنے پر حسین حقانی نے امریکی حکام کو لکھا تھا جس میں پاکستان کے خلاف کارروائیوں کا مطالبہ کیا گیا تھا شیخ رشید کے مطابق وزراء کے سامنے حسین حقانی نے خود اس لیٹر پر دستخط کئے تھے اور فخریہ انداز میں کہا تھا کہ ان کے دستخط ہو بہو بینظیر کے دستخط سے ملتے ہیں بدقسمتی سے صدر زرداری نے اس کمال کے شخص کو امریکا میں پاکستانی سفیر مقرر کیا تھا جو ابھی تک مفرور ہیں زمانہ طالب علم میں موصوف اسلامی جمعیت کے سرکردہ رہنما تھے۔
فیک نیوز کو لیکر حکومت آج کل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس کا مقصد اتھارٹی بنانے سے زیادہ میڈیا کا گلا دبانا ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری‘ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت پروپیگنڈے کے لئے خود پی ٹی آئی سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کررہی ہے اس کے ہزاروں طرف دار اور خدائی خدمت گار فیک نیوز چلانے میں مصروف ہیں وہ مخالفین کے خلاف فیک ویڈیوز سمیت ہر حربہ آزماتے ہیں اس مقصد کے لئے پی ٹی آئی کے پاس جتنے رضا کار ہیں وہ کسی اور جماعت کے پاس نہیں ہیں کیونکہ حکومت کی ناقص کارکردگی کو کامیابی میں بدلنے کے لئے صرف پروپیگنڈے کا سہارا لیا جاتا ہے اور پی ٹی آئی اس کام میں کافی حد تک کامیاب ہے۔
عمران خان کو ایک قطب اور ولی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے حالانکہ ماضی میں یا جوانی میں ان کی غیر عورتوں کے ساتھ بے شمار تصاویر موجود ہیں۔
خیر اکیلے عمران خان قطب یا ولی نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے سیاسی کلچر میں ہر جماعت کے سربراہ کو یہی رتبہ حاصل ہے کیونکہ یہاں پر روئے زمین کا بدترین موروثی نظام رائج ہے مجال ہے جو کسی لائق ورکر کو پارٹی کا بڑہ عہدہ دیا جائے اور یہ کہ تمام بڑے عہدے ایک خاندان کے لئے ہی مختص ہوتے ہیں خاص طور پر ن لیگ نے اس کلچر کو بہت پروان چڑھایا ہے بڑا بھائی وزیراعظم تو جھوٹا وزیراعلیٰ بڑا بھائی سپریم لیڈر تو اس کی صاحبزادی نائب سپریم لیڈر چھوٹا بھائی صدر اور قائد حزب اختلاف اس کے صاحبزادوے بھی پنجاب میں قائد حزب اختلاف تمام جماعتیں عوام کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں اسی طرح کی یک رکنی آمریت تحریک انصاف میں بھی ہے اس پارٹی نے کبھی الیکشن نہیں کروائے‘ عمران خان تاحیات چیئرمین ہیں۔
سیاستدانوں کا یہی رویہ ان کی کمزوریوں کا باعث بنتا ہے دوسری اہم بات ان کی پرتعیش زندگی ہے بڑے بڑے محلات میں رہنا‘ نوکروں کی فوج ظفر موج‘ عالیشان گاڑیوں کی فلیٹ نہ صرف اپنے ملک میں محلات بلکہ بیرون ملک میں بھی ایسی طرز زندگی جن کا یورپی سربراہ بھی خواب نہیں دیکھتے ظاہر ہے کہ بڑی لوٹ مار کے بغیر اس طرح کا پرتعیش لائف اسٹائل جاری رکھنا ممکن نہیں ہے چنانچہ وہ دن کے اجالے میں خوب گرجتے ہیں لیکن رات کی تاریکی میں پیر پکڑتے ہیں میاں شہباز شریف اور خواجہ آصف کی مثال سامنے ہے کئی ن لیگی کہتے ہیں کہ ہم آئندہ ایکٹینشن میں بھی آنکھیں بند کرکے انگوٹھا ثبت کردیں گے بے چارے کیا کریں بہت مجبور ہیں جوں جوں الیکشن کا وقت قریب آئے گا کئی نامور سیاستدانوں کی بے لباس ویڈیوز منظر پر آجائیں گی۔
آصف زرداری نے کئی سال پہلے قوم پرست پنجابی صحافی سہیل وڑائچ سے کہا تھا کہ سیٹلائٹ کے اس دور میں وہ پاگل ہیں جو کسی کو اپنا حال دل سنائیں‘ معلوم نہیں کہ اس حد درجہ احتیاط کے باوجود زرداری اور ان کے خاندان فیک ویڈیوز سے محفوظ ہیں کہ نہیں لیکن ن لیگی قطعی طور پر نہیں ہیں۔