پرسہ

تحریر: انورساجدی
استادواجد شمس الحسن کی اچانک رحلت حانی بلوچ کی جوانمرگی کیچ میں خاتون کا بے رحمانہ قتل اور دیرینہ ساتھی سی آر شمسی کااس دنیا سے رخصت ہوجانا وہ واقعات میں جنہوں نے میری ذات کو بڑی حد تک متاثر کیا ہے شمسی کی موت کو کئی دن ہوگئے ہیں لیکن موقع نہیں ملا کہ رنج وغم کااظہار کیاجائے روزنامہ انتخاب کے اجرأ کے بعد وہ اسلام آباد میں پہلے بیوروچیف مقرر ہوئے ان کی شناسائی محترمہ سے اچھی خاصی تھی انہوں نے ہمیشہ شمسی کاخیال رکھا اوربچوں کیلئے چھت بھی مہیا کی انتخاب کے ابتدائی ایام بے سروسامانی کے تھے دفتر میں ٹیلی فون بھی نہیں تھا ہر رات10بجے بعد کراچی کے پی ایس او میں جاتا تھا شمسی کو کال کرتا تھا وہ مجھے ڈھیر ساری ”ایکسکلوسیو“ خبریں لکھواتے تھے پھر ایسا ہوا کہ مہربان دوست یحییٰ بختیار نے سینیٹر کے کوٹہ سے ایک ٹیلی کی منظوری دی لیکن جونہی محترمہ کا دوسرا دور ختم ہوا تو کے ٹی آر (پی ٹی سی ایل) نے ٹیلی فون لگانے سے مندات کرلی تصور کریں ایک اخبار کے دفتر میں ٹیلی فون ہی نہ ہو تو کام کیسے چلے گا دوٹیلی فون ہمیں اس وقت ملے جب رئیس غلام مصطفی جتوئی کے صاحبزادہ مرتضیٰ جتوئی مواصلات کے وزیر تھے میں حجت کرکے ان سے ملنے چلا گیا ان کے انتظار میں بے شمار لوگ بیٹھے تھے ملاقات کاامکان کم تھا لیکن سائیں نے سندھ اور بلوچستان کے سائلین کو بھلا لیا جب میری باری آئی تو میں نے کہا ناجی یہ اخبار کے کنکشن ہیں ہمیں بڑی تکلیف ہیں کوئی ایسا آرڈر کردیجئے کہ ٹیلی فون لگ جائیں انہوں نے میری طرف دیکھا درخواستوں پر آرڈر کردیئے پی اے کو بلالیا اور کہا کہ جنرل منیجر کے ٹی آر کو فون کرکے کہیں یہ ٹیلی فون ایک ہفتہ میں لگنے چاہئیں جب میں کراچی آیا تو ٹیلی فون لگ چکے تھے1989ء سے 1995ء تک شمسی نے کمال کردیا دنیا حیران تھی کہ اتنی خبریں کہاں سے آتی ہیں ان خبروں کی وجہ سے انتخاب کی دھاک بیٹھ گئی سی آر شمسی ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے حلیہ ملنگوں جیسا تھا عام صحافیوں کی طرح لالچ سے دور تھے نظریاتی وابستگی رکھتے تھے خبر سازی کے ماہر تھے کوئی منافقت نہیں تھی انتہائی حد تک پیپلزپارٹی اور بینظیر کے طرفدار تھے انتخاب سے علیحدگی کے بعد انہوں نے ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا پی ایف یو جے کے عہد آفریں لیڈر نثار عثمانی کے قریب ہوئے لیکن عثمانی صاحب اور برنا صاحب کی رحلت کے بعد پی ایف یو جے اپنی آن بان برقرار نہ رکھ سکی بعد کی نسل میں وہ اپنی جگہ نہ بناسکے کیونکہ وہ پی آر کے ماہر نہیں تھے کوئی بڑا اخبار انہیں ملازمت دینے پر آمادہ نہیں تھا اسلام آباد کے ایک اخبار اذکار کی ادارت سنبھالی کچھ عرصہ کام کیا لیکن اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انہیں برداشت نہ کیاجاسکا بدقسمتی سے پی ایف یو جے کی نئی قیادت نے انہیں ایک سینئر اور مخلص ٹریڈ یونین لیڈر کی حیثیت نہیں دی کیونکہ وقت بدل چکا تھا تجربات اور جدوجہد سے کندن بننے والوں کو اذکار رفتہ سمجھا گیا شمسی کو بھی وہ رتبہ نہیں دیا گیا جو اس کا حق تھا وہ اکثر مجھ سے مشورہ کرتے تھے کہ مل کر پی ایف یو جے کی تاریخ لکھی جائے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بعد پاکستان کی تاریخ کی اس عظیم الشان تنظیم کی تاریخ لکھنے والا کوئی نہ ہوگا میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں ان کا ساتھ دوں گا جب میں ڈھاکہ گیا تو وہاں پر تنظیم کے پہلے صدر کے جی مصطفی سے ملاقات کی اور کچھ معلومات حاصل کیں لیکن شمسی کو غم روزگار نے یہ کام کرنے نہیں دیا شمسی ایک لاابالی شخصیت کے مالک تھے بیروزگاری تنگ دستی اور مشکل دور کا انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا وہ ہمیشہ بی بی کو مشورہ دیتے تھے کہ اپنی میڈیا ٹیم بنائیں ورنہ مخالفین پیپلزپارٹی کا حشر کردیں گے لیکن پارٹی کے لوگوں نے ان کی بات نہ سنی بعدازاں شمسی کا کہنا سچ ثابت ہوا مخالفین نے پیپلزپارٹی کا حشر نشر کردیا جو آج تک جاری ہے اب جبکہ سوشل میڈیا کا دور ہے تو پیپلزپارٹی اس شعبہ میں بھی دیگر جماعتوں سے پیچھے ہے۔
شمسی جیسے ساتھی کی اچانک موت ایک ذاتی دکھ ہے ان کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی۔
واجد شمس الحسن صحافت میں میرے استاد تھے جب میں اسکول پڑھتا تھا تو اپنے دوست قطب کے ہمراہ ڈیلی نیوز کے دفتر گیا انہوں نے واجد صاحب سے ملاقات کرائی بہت اچھی طرح سے پیش آئے انہوں نے فوراً کہا کہ بلوچستان کی سیاسی صورتحال کے بارے میں ایک خبر بناؤ میں نے ہچکچاہٹ سے کام لیا لیکن انہوں نے اپنا قلم میرے ہاتھ میں دیا اس طرح کسی اخبار کیلئے میں نے پہلی خبر بنائی چند سال بعد جب میں بھی جنگ اخبار میں بھرتی ہوا تو واجد صاحب سے تعلقات میں اچھا خاصا اضافہ ہوا وہ اور محمود شام لنگوٹیے یار تھے دونوں کی شخصیات میں زمین آسمان کا فرق تھا واجد صاحب ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے انکے والد سید شمس الحسن بانی پاکستان کے معتمد خاص تھے نواب خاندان سے تعلق تھا اسی لئے واجد صاحب کا رکھ رکھاؤ بھی نوابوں والا تھا اچھے کپڑے پہننے کا شوق تھا سگار پیتے تھے لیکن شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے بھٹو صاحب کے دور میں واجد صاحب سے غیر ملکی دوروں کے دوران ملاقات رہتی تھی وہ بھٹو کے ساتھی تھے اور تمام عمر وفا کا عہد نبھایا محترمہ نے اپنے پہلے دور میں انہیں سرکاری اخبارات کے ٹرست نیشنل پریس ٹرسٹ کا سربراہ بنایا اس کا مقصد ٹرسٹ کوتحلیل کرکے اخبارات کو پرائیوٹائز کرنا تھا واجد صاحب نے یہ کام بخوبی نبھایا محترمہ وزارت غلطی اور اس کے بعد واجد صاحب سے مختلف معاملات پرمشاورت کرتے تھے ان کا بڑا کارنامہ
میثاق جمہوریت کو تحریر کرنا تھا
لندن میں اس کا مسودہ واجد صاحب نے تیار کرکے محترمہ کو دیا تھا لیکن افسوس کہ بعدازاں ن لیگ میثاق جمہوریت کے معاہدے سے روگردانی کرگئی یہ جو ریاست آج جن مشکلات کی شکار ہے یہ میثاق جمہوریت سے روگردانی کا نتیجہ ہے۔
بینظیر کی جلاوطنی سے پہلے واجد صاحب نے لندن میں جلاوطنی اختیار کرلی تھی۔لندن میں ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں وہ پاکستان کے حالات اور مستقبل سے مایوس تھے حالانکہ انکے والد نے قیام پاکستان میں اہم کردارادا کیا تھا ان کا کردار اتنا اہم تھا کہ
ایک مرتبہ بعض پارٹی رہنماؤں کی تنقید پر جناح نے غصے میں آکر کہا تھا کہ مسلم لیگ جناح شمس الحسن اور اس کے ٹائپ رائٹر پرمشتمل ہے میری جیب میں باقی سارے کھوٹے سکے ہیں
واجد صاحب کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر جیسی شخصیات کا قتل دراصل ریاست کے وجود پر قاتلانہ حملہ ہے جن عناصر نے یہ حملہ کیا وہ معاملات کو سنبھال نہیں پائیں گے اور جلدیا بدیر کوئی بہت بڑا سانحہ ہوجائیگا جس کی وجہ سے ریاست کاوجود برقرارکھنا مشکل ہوجائے گا۔واجد شمس الحسن بہت بڑی شخصیت ہونے کے باوجود ریزرو رہتے تھے ہر ایک سے گھلتے ملتے نہیں تھے ان کا ذاتی حلقہ احباب محدود تھا بھٹو سے تعلق تو انہی سے تھا بینظیر سے قرابت داری تھی تو صرف انہی سے تھی پیپلزپارٹی کے معاملات سے انہیں سروکار نہیں تھا وہ پارٹی کے کسی بھی رہنما کوگھاس نہیں ڈالتے تھے۔
ایک مرتبہ لندن میں ایک رہنما نے کہا کہ بی بی ان سے ناراض ہیں آپ واجد صاحب سے میری سفارش کروائیں میں نے فون کیا انہوں نے ہائیڈ پارک کے کنارے پر واقع کمبرلینڈہوٹل میں ٹائم دیاہم لیٹ ہوگئے لیکن وہ وقت پرپہنچے تھے وقت کی پابندی ان کی کمزوری تھی جب ہم بیٹھے تو انہوں نے مذکورہ شخص سے کہا کہ آپ نے بی بی کے نام پر کافی چندہ کھایا ہے میں کس طرح آپ کو ان کے سامنے لے جاسکوں گا پھر کہا کہ اپنے اس دوست کی خاطر یہ کام بھی کرلوں گا بینظیر نے اپنے دونوں ادوار میں انہیں برطانیہ میں ہائی کمشنر مقرر کیا
ان کی سفارتی زندگی کا ایک بڑا اور نازک مرحلہ اس وقت آیا جب واجد صاحب کو سوئز بینک اکاؤنٹس کے دستاویزات کوٹھکانے لگانا تھا انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر یہ ذمہ داری نبھائی انہوں نے تمام عمر بھٹو خاندان سے وفاداری نبھائی انہیں کچھ راز دینے کیلئے لاکھوں ڈالر کی پیشکش بھی کی گئی لیکن انہوں نے یہ پیشکش ٹھکرادی اورعہد وفا نبھایا۔
واجد شمس الحسن ایک نستعلیق دور کے آکری نستعلیق انسان تھے ان کی رحلت سے وضح داری وفاداری اور عہد وفانبھانے والا سلسلہ ختم ہوگیا ہے
حانی بلوچ نوجوان طالب علم لیڈر تھی اس نے بہت ہی مشکل دور میں طلبا کی رہنمائی کی نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے تاریک راہوں میں مارے جانے والے گمشدہ افراد اور انسانی حقوق کی پامالی کیخلاف بینظیر جدوجہد کی بلوچستان میں تو ویسے بھی سینکڑوں نوجوان لاپتہ اور ماردیئے گئے ہیں اس لئے حانی جیسی شخصیات بہت بڑے اثاثے تھے ان کی جوانمرگی کا درد اور دکھ پوری بلوچ قوم میں محسوس کیاجارہا ہے
جہاں تک سانحہ کیچ میں ایک بے گناہ خاتون کے قتل کا معاملہ ہے تو یہ ایک دیرینہ تسلسل ہے اور یہ واقعہ بھی حیات بلوچ کے قتل سے ملتا جلتا ہے قومی جدوجہد میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ویسے بھی اس طرح کے واقعات روز مرہ کامعمول بن چکے ہیں قومی جدوجہد میں ایسی قربانیوں کیلئے تیار رہناچاہئے۔