ٹیچرز ڈے اور استاد کا احترام

تحریر۔۔۔ابوبکردانش بلوچ
ہمارے معاشرے میں استاد کا احترام آج سے چند سال پہلے ایسا ہوا کرتا تھا جیسے والدین کا۔ ہم نے ٹاٹ پر بھی بیٹھ کر پڑھا، ماریں بھی کھائی، لیکن وہی کام بھی آئی ٗاس کی وجہ یہ تھی کہ بچے کی تربیت تو والدین کی گود سے شروع ہوجایا کرتی ہے لیکن بچے کو عقل وشعور اور عِلم ملتا ہے اساتذہ کے پاس سے۔ جو قومیں اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کرتیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔ہمارے دینی استاد نبی پاک ؐ ہیں اور ہمیں نبی پاک ؐ کی سُنت پہ عمل کرتے ہوئے اپنے اساتذہ کا احترام کرنا چاہیئے۔ لیکن لمحہ فکریہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل اپنے اساتذہ کو وہ عزت و احترام نہیں دے رہی جو ان کا حق ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضورؐکی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔اسلامی نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حاصل ہے معلم کی ذات ہی علمی ارتقاء سے وابستہ ہے،نئی نسل کے مستقبل کی تعمیر کے سلسلے میں استاد کی مثال ایک کسان اور باغبان کی سی ہے۔
حضرت علی ؓنے فرمایا!”جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلام ہوں۔“وہ چاہے مجھے بیچے۔آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔“ ایک دوسرے موقعے پر فرماتے ہیں کہ”عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔“مگر آج ہم اساتذہ کے احترام میں کھڑا ہونا تو دور ان سے آگے چلنا انکے برابر بیٹھنے کو فخر سمجھتے ہیں۔علامہ محمداقبال کے یہ الفاظ معلم کی عظمت و اہمیت کے عکاس ہیں۔”استاد در اصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بناناانہی کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت میں سب سے زیادہ بیش قیمت ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی تہذیب و تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی ڈور انکے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ ان کی محنت ہے۔“ہنری کا کہناہے: ”مُعلم فروغ علم کا ذریعہ ہے لیکن اس کے علم سے فائدہ وہ نیک بخت اُٹھاتے ہیں جن کے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں،
کاش ہم ان ہستیوں کے احترام کو جان سکیں کہ آج ہم جو ہیں وہ اپنے استاد،اپنے مُعلم و محسن کی وجہ سے ہیں۔
آج ایک پولیس افسرکے آنے سے پورا محلہ کانپ اٹھتا ہے۔ مجسٹریٹ کا رعب و دبدبہ افراد پر کپکپی طاری کر دیتا ہے۔لوگ پولیس والے،مجسٹریٹ، محترم جج اور دیگر افسران کے برابر بیٹھنا اُن کی بے ادبی تصور کرتے ہیں لیکن استاد جس کی محنت،کوشش اور شفقت سے یہ افراد ان بالا عہدوں پر فائز ہیں اُن کی قدر معاشرہ کرنے سے قاصر ہے۔
استاد کی تعریف اگر ان لفظوں میں کی جائے تو غلط نہ ہوگا”ایک استاد لوہے کو تپا کر کندنںپتھر کو تراش کر ہیرابناتا ہے۔“یہ واجب الاحترام اور لائق تنظیم ہے۔ ایک زمانہ تھا جب طالب علم حصول علم کی تلاش میں میلوں کا سفر پیدل طے کرتے تھے سالہاسال ملکوں میں گھومتے گھر بار سے دور رہ کر اپنے علم کی پیاس کو پوراکرتے تھے۔ استاد کی سزاوں کو جھیلتے تب جاکر نگینہ بنتے مگر اُس دور میں طالب علم باادب اور باتہذیب ہوتے تھے۔ استاد کے قدموں میں بیٹھنا،ان کی باتوں کو خاموشی سے سننا،مذاق اڑانا تو دور کی بات نظر اٹھا کر بات کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔
وقت نے اپنی اڑان بھری تو انسان بھی کئی ترقی کی منزلیں طے کرتا چلاگیااور اگر وقت بدلا تو تہذیب اور آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے گئے۔ آج کے دور میں طالب علم اولاًتو استاد کو تنخواہ دار ملازم ہی سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج علم ناپیدہوتا جارہا ہے، اتنے سکول‘کالج‘یونیورسٹیاں ہونے کے باوجود معاشرے میں اخلاقیات اور تہذیب کا کوئی نام نہیں۔
اسلام نے مسلمانوں پر علم فرض قراردیا ہے وہیں اسلام کی نظر میں استاد کو معزز رتبہ دیا ہے تاکہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے۔ علم کی قدر اُس وقت ممکن ہے جب معاشرے میں استاد کو عزت دی جائیگی اور ہمیشہ وہ طالب علم ہی کامیاب ہوتے ہیں جو استاد کا احترام کرتے ان کی عزت کرتے ہیں۔ جنہوں نے مقام پایا وہ استاد کی عزت سے ہی ممکن ہوا۔
ایک بادشاہ جس کی بادشاہت کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔ اپنے استاد کے ساتھ سفر کرنے کے لیے نکلا، راستے میں ایک ندی آگئی استاد نے آگے بڑھ کر ندی کو پار کرنا چاہا لیکن بادشاہ نے استاد محترم سے کہا کہ استاد محترم! ندی کو پہلے میں پار کروں گا۔ استاد کو بہت برا محسوس ہوا کہ شاگرد اگر بادشاہ ہے توکیا ہوا میں ان کا استاد ہوں۔ تکریم اور فضیلت میں مجھے مرتبہ حاصل ہے۔ اس لیے ندی کو پہلے پارکرنا میرا حق ہے۔
بادشاہ نے ان کی بات سنی اورکہا۔ استاد محترم! آپ کی بات سر آنکھوں پر بے شک آپ کا مرتبہ اور عزت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ آپ ہی میرے استاد ہیں اور پہلے ندی پار کرنے میں میرا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ نے ندی پہلے پار کی اور اس کے نتیجے میں آپ کی جان چلی گئی تو پورے عالم کا نقصان ہوگا اس لیے میں نے سوچا کہ پہلے ندی میں پارکروں تاکہ پانی کی تندی کا اندازہ ہوسکے کیونکہ میرے ندی عبور کرنے کے نتیجے میں اگر میری جان چلی گئی تو صرف ایک شہنشاہ کی جان جائے گی آپ زندہ رہے تو مجھ جیسے کتنے بادشاہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بادشاہ سکندر اور استاد ارسطو تھے۔
شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال کی خدمت میں برطانوی حکومت نے ”سر“ کا خطاب پیش کیا مگر علامہ اقبال نے یہ کہہ کر خطاب لینے سے انکار کردیاکہ آج میں جو کچھ بھی ہوں اس میں میرے استاد کا بہت اہم کردار ہے اس لیے پہلے میرے استاد کو یہ خطاب دیا جائے، پھر مجھے دیا جائے۔آج وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہمیں اساتذہ کی دِل سے عزت کرنا ہو گی۔ یہی ہماری ترقی کا راز ہے۔ نہ تو صرف ڈگر ی برائے نام ہی رہیں گے، اس کی قیمت ایک کاغذ سے زیادہ نہیں علم بہت بڑی نعمت ہے اور پھر اساتذہ سرمایہ قوم و ملت ہیں۔ علم کی ترویج والوں کو کبھی موت نہیں آتی۔ کیونکہ اُس شخص کو کبھی موت نہیں آتی جو علم کو زندگی بخشتا ہے