کیا یہ قدرتی آفات ہیں؟

تحریر؛نجیب یوسف زہری

انسان کی یہ فطرت رہی ہے اول سے ہی کے وہ اپنی غلطی کو ہمیشہ سے قدرتی آفات کا نام دیکر یا کسی اور کے نام کر کے اپنی ضمیر کو مطمئن کرتی رہی ہے مگر بات ضمیر کی ہے احساس کی ہے
بلوچستان میں ایسے واقعات یا ایسے قدرتی حادثات ہمیشہ سے پیش آتے رہے ہیں اگر ہمارے ہاں کوئى حاملہ بہن ہسپتال دور ہونے کی وجہ سے شہر تک پہنچنے سے پہلے راستے میں دم توڈ ديتى ہے ہم اسے تقدیر کا کھيل سمجھ کر بھول جاتے ہے ہم اس بات پر غور و فکر نہیں کرتے اگر ہمیں اس دیہات میں اگر ایک ہسپتال اور ایک عدد ايمبولينس اور لیڈی ڈاکٹر میسرہوتی تو شاید یہ مسکین ماں اور أس کا بچہ بچ سکتے تھے اسی طرح ہمارے ہاں کینسر کے مريضوں کی بھی کمی نہیں ہسپتال نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں چلو مان لیا کینسر کا ہونا قدرتی ہو سکتا ہے مگر کیا اس کا علاج نہ کرنا قدرتی تھا؟
اسی مانند بدنام زمانہ شاہراہ قاتل جو ہر روز اپنی ظلم کا شکار کرتی ہے ہم روز اس پرمسخ ہوکر بےحرمتی سے مرتے ہیں آج ہی کی بات ہے بدوکشت ضلع سوراب کے مقام پر مورخہ 04/17/2020 آمنے سامنے دو گاڑیوں میں تصادم ہوا۔ نتیجتاً 5 زندگیوں اپنے پیچھے رونے والے چھوڑ گئے۔جن میں چھوٹا سا ایک خاندان بھی شامل تھا زبیر زہری اپنے دو بچے اور ان بچوں کی ماں سمیت شہید ہو گئے اور دوسری طرف ایک أستاد بھی ان کے ساتھ رخصت ہونے والوں میں شامل ہے جو کہ کرخ ہائی اسکول کے ہیڈماسٹر تھے جو ہم میں علم کی شمع جلا رہے تھے ہمارا مستقبل سنوار رہے تھے۔اور آج بلوچستان میں مختلف واقعات میں 9 لوگ شہید ہوئے ہیں- کتنی دکھ کی بات ہے ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں یہ سن کر ہم افسوس کر کے اسکو قدرتی آفت کا نام دیکر رفع دفع کر کے کچھ دن سوگ منا کر اسے بھول جائینگے
ہم یہ کیوں غور نہیں کرتے کہ یہ ہماری غلطی ہے کے ہم نے کوششں نہیں کی روڈ کو ٹھیک کرنے کی کیوں گورنمنٹ کو ہم نے مجبور نہیں کیا کیوں ہم نے ایک دوسرے کی فکر نہ کی کیا ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہم اپنی ماں بہن اور اپنی قیمتی جانوں کو ضائع ہونے پر بس افسوس کرینگے صرف؟ ہمیں چائیے کہ ہم اس بات کو سمجھے کے خدا کی طرف سے ہمیشہ انسان کے ساتھ اچھائی ہوتی ہے انسان اپنے ساتھ خود ہمیشہ برا کرتا ہے لہذا یہ واقعات قدرتی نہیں ہو سکتے روڈ سنگل ہونے اور رش ہونے کی وجہ سے پیش آتے ہیں اس کے ذمہ دار گورنمنٹ اور ہم خود ہیں۔ ہم اس کے ذمہ دار ہیں کہ ہم خود تماشائی بنے ہوئے ہیں ہمیں ہر أس محرومی کے لئے آواز اٹھانا ہوگا ہمیں اپنے لوگوں کا سہارا بننا ہوگا ان کی طاقت بننا ہوگا ہم محض افسوس کرنے والے تو نہیں تھے تو اب کیا ہوا؟
ہم اپنی سب محرومیوں کے لئے آواز اٹھائینگے ۔انشاءاللّہ

اپنا تبصرہ بھیجیں