منزل کہاں ہے تیری

تحریر: انورساجدی
پینڈورا لیکس کے بارے میں شیخ رشید کا یہ تبصرہ بجا ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا سات سو بندوں میں سے کوئی ایک بھی کام کا نہ نکلا لے دے کہ شوکت ترین زرا کام کے بندے ہیں غالباً استعفیٰ کا دباؤ بھی انہی پر آئیگا کام کے دوسرے بندے مخدوم خسرو بختیار ہیں لیکن ان کی پشت اتنی مضبوط ہے کہ گندم اسکینڈل بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا جہاں تک علیم خان کا تعلق ہے تو ان کا نام اور جائیدادوں کی تفصیل پہلے بھی آئی تھی لیکن آج تک کوئی انکوائری نہ ہوئی ویسے بھی وہ وزارت سے استعفیٰ دے چکے ہیں ان پر الزام لگا تھا کہ جہانگرین کے بعد وہ خان صاحب کے اے ٹی ایم تھے اسی طرح بہت بڑے لاڈلے فیصل واؤڈا کا آفشورکمپنیوں اور لندن کے فلیٹوں کے بارے میں پانامہ اسکینڈل کے بعد انکشافات سامنے آئے تھے ان کی دوہری شہریت تھی جس کی وجہ سے وہ ایم این اے کا عہدہ چھوڑ کر سینیٹر بنے تھے حالانکہ بات ایک ہی ہے ان کی اتنی طاقت ہے کہ کپتان انہیں سینیٹ کا ٹک دینے پر مجبور ہوئے تھے۔نئے ناموں میں پیپلزپارٹی کے شرجیل انعام میمن اور اسحاق ڈار کے صاحبزادہ اور نوازشریف کے داماد علی ڈار قابل ذکر ہیں اس سلسلے میں وفاقی وزراء کے جو بیانات ہیں وہ کچھ جچے نہیں کیونکہ فوادچوہدری اور شہبازگل کا کہنا ہے کہ شرجیل میمن اور علی ڈار کی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ زرداری اور نوازشریف کے فرنٹ مین ہیں اور ان کے آفشوراکاؤنٹس میں انہی کی دولت جمع ہے اگر کہاجائے کہ علیم خان،شوکت ترین،فیصل واؤڈا اور چوہدری مونس الٰہی کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ کپتان کے فل بیک کھلاڑی ہیں لہٰذاانکے کھاتوں میں کپتان کا حصہ ہے تو حکومتی ٹیم کو کیسے لگے گا۔
پانامہ لیکس نے اس لئے آتش فشاں کی شکل اختیار کی تھی کہ اس میں نوازشریف کے بیٹوں کا نام تھا جس کی وجہ سے سیاسی مخالفین کو موقع مل گیا تھا کہ نوازشریف کی حکومت ختم کرنے کا بہانہ ڈھونڈیں حالانکہ خود نوازشریف کا نام نہیں تھا پانامہ سے گھبراکر نوازشریف نے لگاتار غلطیاں کیں پہلے ایک کمیشن بنایا پھر سپریم کورٹ کو تحقیقات کیلئے لکھ دیا وہ لندن کے فلیٹوں کا جھوٹا منی ٹریل دینے پر بھی مجبور ہوئے اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرتے تو شائد زد میں نہ آتے۔ان کے مقابلے میں کپتان زیادہ ہوشیار ہیں انہوں نے ایک رات میں ثابت کردیا کہ2زمان پاک لاہور کے نام پر دوایڈریس ہیں جس دوسرے ایڈریس پر آفشور کمپنی نکلی ہے وہ اور لوگ ہیں اور ان کا تعلق ان سے نہیں ہے ایک ٹی وی چینل نے زمان پارک جاکر وہ گھر بھی ڈھوند نکالا وقتی طور پر تو کپتان بچ گئے لیکن کوئی وقت آئیگا جب آئندہ والی کوئی مخالف حکومت اس کی تحقیقات کا حکم دے گی جن دو برکی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام دو آفشور کمپنیاں نکلی ہیں وہ کپتان کے محض دور کے رشتہ دار ہیں یا ان کا کوئی کاروباری تعلق بھی ہے اگرپینڈورا لیکس میں کپتان نام ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی اس سے قطع نظر مخالفین کافی عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ کپتان کے چاروں طرف آٹا چور،چینی چور،بجلی چور،ٹیکس چور،منی لانڈرر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ”بندہ اکیلا ایماندار ہے“۔
اگروہ واقعی ایماندار ہیں دودھ کے دھلے ہیں ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے پارٹی فنڈنگ کیس میں بھی کوئی گڑبڑ نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے آفشور زدہ لوگوں کو اپنا وزیر اور مشیر بنارکھا ہے ان کی کابینہ کے ایک تہائی لوگ آفشورزدہ ہیں لیکن تین سال سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے انہوں نے آج تک کسی کو نہیں نکالا ایک مرتبہ علیم خان کو استعفیٰ پر مجبور کیا گیا تھا لیکن جیل سے چھوٹتے ہی انہیں دوبارہ وزارت کے عہدے پر فائز کیاگیا۔
رزاق داؤد ہوں،تابش گوہر ہوں،ڈاکٹرفیصل ہوں،خسروبختیار ہوں یا انکا بھائی جواں بخت جو پنجاب کے وزیر خزانہ ہیں کپتان کے سامنے من مانی کررہے ہیں لیکن انکو کبھی روکا نہیں گیا اب جبکہ سات سو لوگوں کا نام آیا ہے تو کپتان نے ان کیخلاف ایف آئی اے کوانکوائری کاحکم دیا ہے یہ ایک رسمی اعلان ہے ایف آئی اے اول تو انکوائری نہیں کرے گی اگر کی تو یہ انکوائری اسکے بس سے باہر ہے کیونکہ انگلینڈ کی درجن آئی لینڈ یا آئل آف مین جاکر کس نے کھاتوں کا سراغ لگانا ہے مجال ہے جو سیشلز یا امریکہ جاکر ناجائز دولت ڈھونڈ نکالے کپتان کااعلان وقتی ہے اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا شیخ رشید نے یہ کہہ کرانکوائری کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا جن لوگوں کے نام پینڈورا لیکس میں آئے ہیں ان کا نام پہلے بھی آئے تھے لہٰذا کوئی نئی بات نہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس معاملہ میں کس قدر مخلص ہے۔جہاں تک پاکستان میں لوٹ کھسوٹ کاتعلق ہے یہ کوئی راز کی بات نہیں بہتی گنگا میں تمام اشرافیہ نے ہاتھ دھوئے ہیں یہ لوگ اپنے ملک سے مخلص نہیں ہیں ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرکے امریکہ یا ولایت میں جاکر سیٹل ہونا ہے اگردیکھا جائے تو متعدد ایسے اعلیٰ عہدیدار جو قومی سلامتی کے ذمہ دار تھے وہ امریکہ، آسٹریلیا،دوبئی اور انگلینڈ میں جاکر آباد ہوئے ہیں جہاں انہوں نے اربوں روپے کی جائیدادیں خریدی ہیں اشرافیہ کے اپنے طور اطوار ہیں جب اس کے لوگ اعلیٰ عہدوں پر ہوتے ہیں ان سے بڑا محب وطن اورایماندار نہیں ہوتا حتیٰ کہ وہ ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بھی بانٹتے رہے ہیں لیکن انہیں جونہی موقع ملا وہ اپنے آل وعیال کے ساتھ باہر چلے گئے اور آفشورکمپنیاں کھول کر اپنی دولت وہاں پر محفوظ کرلی سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے ڈاکو کیسے اپنے ملک کاوفادار ہوسکتے ہیں۔میراذاتی خیال ہے کہ پینڈورا پیپر سطحی تحقیقات کا نتیجہ ہے اس میں جنرل مشرف سمیت کئی سرکردہ لوگوں کا ذکر نہیں ہے پرویز مشرف نے دوران صدارت سینٹرل لندن کے علاقہ ریجویرروڈ پر ایک قیمتی فلیٹ خریدا تھا سبکدوشی کے بعد انہوں نے دوبئی میں مہنگی جائیداد خریدی مجال ہے جو کسی تحقیقاتی رپورٹ میں ان کا نام آیا ہو اسی طرح ان کے چند ہمنشینوں نے دیگر ممالک میں جائیدادیں بنائیں لیکن ان کے نام کسی کے لبوں پر نہیں آئے سندھ اور بلوچستان کے سینکڑوں لوگوں نے دوبئی میں رہائشی وکمرشل جائیدادیں خریدی ہیں لیکن کسی نے آج تک اس کاسراغ لگانے کی کوشش نہیں کی بیوروکریسی کے چند لوگوں کا نام خانہ پری کے طور پر آیا ہے لیکن ان کی درجنوں جائیدادیں بیرونی ممالک میں موجود ہیں۔
گوکہ پاکستان ایک غریب ملک ہے لیکن اس کی آمدنی کا آدھا حصہ طاقتور لوگ کھاجاتے ہیں ایک نوازشریف کے سوا آج تک کسی کا احتساب نہیں ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضیاؤ الحق کی تشکیل کردہ نام نہاد نودولتیہ اشرافیہ کا فیصلہ ہے کہ باری باری سب کو لوٹ مار کا حق ہے بلکہ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔
اسی لوٹ مار کی وجہ سے ریاست کنگال ہے اور اس کا نظام مملکت چندہ امداد اور قرضوں پر چل رہا ہے اس کی شرح نموسارے ایشیاء میں ہر ملک سے نیچے ہے اور غالباً یہاں پر غربت کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ روزگار،صحت اور تعلیم کی سہولتیں دینے میں ناکام ہے جبکہ اس کے اخراجات بڑھتے جارہے ہیں عمران خان نے اقتدار آنے کے بعد کہا تھا کہ وہ حکومتی اخراجات کو کم ترین سطح پر لائیں گے لیکن وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے انہوں نے 50لاکھ مکانات تعمیر کرنے اورایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دینے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کے تین سال کے دور میں دو کروڑ لوگ بیروزگار ہوئے ہیں ایک طرف عام آدمی یعنی محنت کش طبقہ فاقوں کاشکار ہے جبکہ نام نہاد اشرافیہ اپنی جائیدادوں،محلات اور بینک بیلنس میں مسلسل اضافہ کررہا ہے بڑے شہروں کی سڑکوں پر عالیشان گاڑیاں دندناتی پھررہی ہیں جبکہ دیہاڑی دار مزدور سوکھی روٹی کو ترس رہے ہیں اگر یہی حال جاری رہا اور کسی نے آکر حالات کو نہیں سنبھالا تو ریاست کے ناکام ہونے کے شدید خطرات لاحق ہونگے۔
سوویت یونین کی ناکامی کے بعد رشین فیڈریشن بے پناہ وسائل کے باوجود ابھی تک سنبھل نہیں پایا ہے۔
یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعدبلقان دائمی غربت کا شکار ہے حالانکہ یہ خطہ کسی امداد کے بغیر اپنے وسائل پر ہی گزارہ کررہاہے۔
عین ممکن ہے کہ تمام تر ناکامیوں اور چالیس چوروں کی لوٹ مار کے باوجود عمران خان کو لانے والے آئندہ مدت کیلئے بھی لائیں لیکن ایک تجربہ کی ناکامی کے بعد اسی تجربے کودہرانا کوئی عقلمندی نہیں ہے ریاست کی سیاسی ومعاشی سمت ابھی تک مستعین نیہں ہے کسی کومعلوم نہیں کہ کیا کرناچاہئے اس تاریکی میں منزل پر کیسے پہنچاجاسکتا ہے جبکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ منزل کہاں ہے۔