رامز خلیل کے نام ایک خط

تحریر: منّان صمد بلوچ

ننھا رامز!

یہ مصرع آپ پر فٹ آتا ہے کہ:

ندامت اب تمھارا مسئلہ ہے
ہم اپنے دل پر پتھر رکھ چکے ہیں

تاسف سے بھرا سخن یہ ہے کہ اب لاشیں بھی ہماری ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ سکتیں۔ کوئٹہ کی ٹھٹرتی سردی میں آپکی لاش ٹھٹرتی رہی، تڑپتی رہی، چیختی رہی لیکن مجال ہے کہ کسی کی ضمیر جھنجھوڑ جاتی۔ شال جو مزاحمت کا منبع ہوا کرتا تھا لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ اب شال میں مزاحمت کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔ شال کے سنسان سڑک پر پڑی آپکی لاش نے اس صداقت پر مہر ثبت کردی ہے۔

پیارا رامز!

دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ آپ کی لاش ذاتی اَنا کی بھینٹ چڑھ گئی، آپکی لاش ضد و ہٹ دھرمی کی لپیٹ میں آگئی، آپکی لاش تعصب و تفریق کی شکنجے میں آگئی۔ آپکی لاش کو محض ایک فرد سے وابستہ کیا گیا۔ ایک خاندان سے نتھی کیا گیا۔ ایک تنظیم سے منسلک کیا گیا۔ میں جانتا ہوں یہ خط پڑھتے ہوئے آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور کلبلا رہا ہوگا کہ اگر برمش قوم کی بیٹی ہوسکتی ہے تو میں قوم کا بیٹا کیوں نہیں ہوسکتا؟

پھول جیسا رامز!

دراصل ملال یہ ہے کہ نوجوان نسل ابھی تک سیاسی، نظریاتی، حقیقی و عملی طور پر پختہ اور بالیدہ نہیں ہے۔ اسی لئے آئے روز قومی مفادات غیر سیاسی رویوں کی نذر ہوجاتی ہیں۔ بلاناغہ قومی مفادات کی پاسداری کے بجائے الزامات، کردار کشی، گالم گلوچ، ہرزہ سراہی اور بےجا تنقید پر انحصار کیا جاتا ہے۔ آخر ہم کب اختلافات سے بالاتر ہوکر قوم کی مشترکہ کاز پر اتحاد کا دامن تھامیں گے؟ نام نہاد قوم پرست سیاسی پارٹیوں کی کھوکھلے وعدوں اور دعوؤں سے اعتماد کب کا اُٹھ چکا ہے، کیونکہ اسمبلیوں کے نرم نشستوں پر براجمان ہونے والے سیاسی نمائندوں نے ہمیشہ بلوچ نیشنلزم کی آڑ میں بلوچ کاز کو زک پہنچاتے رہے ہیں۔ اسی لئے سامراجیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دینے کیلئے مختلف تنظیموں سے وابستہ نوجوان نسل کو اتحاد و اتفاق کی ڈگر پر چلنا ہوگا اور موقع پرستی، دو رنگی اور تعصب کی سیاست ترک کرنی پڑے گی۔

اپنی ماں کی لخت جگر رامز!

کیا آپ کو معلوم ہے کہ کوئٹہ میں کل نصف رات زلزلے کے شدید جھٹکے نے شہر کے سب لوگوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا تھا جو آپ پر ڈھائی گئی ظلم و ستم پر بہرے، گونگے اور اندھے بن کر نیند میں مگن تھے۔ لگتا ہے کہ تیری آہ و فغاں کی شدت آخر کار زمین کے سینے میں اُتر گئی۔ بیچارا زمین کب سے درد و الم بھری داستانوں کو اپنی اندر دفن کررہی ہے۔ کئی دہائیوں سے جاری خونی سیلاب کو اپنے اندر جذب کررہی ہے۔ آئے دن لاشوں کو اپنے آغوش میں لے رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا زمین کا یہ قوی جھٹکا مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑنے میں سرخرو ہوگئی ہے؟

مزاحمت کی علامت رامز!

کوئٹہ کی شاہراہ پر پڑی ہوئی لاش فقط آپکی نہیں تھی بلکہ یہ میڈیا کی لاش تھی، یہ پارلیمنٹ کی لاش تھی، یہ پولیس کی لاش تھی، یہ عدلیہ کی لاش تھی، بائیں بازوں کی جماعتوں کی لاش تھی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی لاش تھی، محض انسان کا روپ دھار کر ہم سب ڈھانچہ نما مردہ ضمیر لوگوں کی لاش تھی۔

بےباکی کا پیکر رامز!

ہم تیرے مجرم ہیں، اپنی مجرمانہ خامشی کیلئے،
ہم تجھ سے نادم ہیں، اپنی بےحسی کیلئے،
ہم تجھ سے شرمسار ہیں، اپنی بےاعتنائی کیلئے،
ہم تجھ سے منفعل ہیں، اپنی نرگسیت کیلئے،
ہم تجھ سے محجوب ہیں، اپنی مردہ ضمیری کیلئے،

کہ جب عدو تیری دہلیز پر آگ برسا رہا تھا تو ہم چشم بستہ تھے۔ جب آپکے سینے میں گولیاں پیوست کی جارہی تھیں تو ہم غافل تھے۔ جب آپکی ماں نوحہ کناں تھی تو ہم چپ تھے۔ ہم تیرے گنہگار ہیں، ہم تیرے قصور وار ہیں، ہم تیرے ملزم ہیں۔

رامز جان! آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ جابر اور ستم گر نے تیرے بستر کو خون سے شرابور کیا تھا لیکن ہم سب کا ضمیر تو کب سے خون میں لت پت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں