جام صاحب کیلئے تین آپشن

تحریر: انورساجدی
سب سے پہلے تو شمالی مشرقی بلوچستان میں آنے والے زلزلہ پراظہار افسوس جس میں درجنوں افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے حکومت کو چاہئے کہ وہ امدادی سرگرمیاں تیز کرے اور لوگوں تک زندہ رہنے کی سہولتیں پہنچائے۔
اما بعد موجودہ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے اپنے وزراء،مشیروں اور بڑے بڑے لیڈروں کو شاندار این آر او دیا ہے نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کو توسیع دے کر اور نیب کے اختیارات کو سلب کرکے حکومت نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ اسکی صلاحیتوں کو داد دینی چاہئے جب نیب ن لیگ اور پیپلزپارٹی کیخلاف کارروائیاں کررہا تھا تو کپتان روز اسے شاباشی دینے کے ساتھ کوستا رہتا تھا کہ نیب سست روی کاشکار ہے وہ سزاؤں میں تاخیر پر بھی شاکی رہتے تھے کر کرکے چارسال میں نیب نے شائد ہی اپوزیشن کے کسی بندے کو چھوڑا ہو واحد لیڈر مولانا فضل الرحمن ہیں جنہیں نوٹس دینے کے بعد نیب اور اسکے سرپرست ڈر گئے نہ کوئی انکوائری ہوئی نہ کوئی ریفرنس دائر ہوا۔نیب میں ایک دلچسپ مقدمہ ”توشہ خانہ“ کا چل رہاہے ملزم ہیں سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اسی کیس کی وجہ سے ان کا نام ای سی ایل پر ہے اور وہ باہر نہیں جاسکتے گیلانی پر الزام ہے کہ انہوں نے ترک صدر اردگان کی اہلیہ کی طرف سے سیلاب زدگان کی مدد کیلئے اپنا ایک ہارعطیہ کردیا تھا لیکن گیلانی نے معمولی قیمت ادا کرکے یہ ہار اپنی بیگم کیلئے رکھ لیا کئی سال بیت گئے لیکن گیلانی کی جان ابھی تک نہیں چھوٹی لیکن موجودہ حکومت کی جب اپنی باری آئی تو کہا گیا کہ تحفے دوست ممالک کی امانت ہوتے ہیں اگر ان کی تفصیلات عام کی جائیں تو دوطرفہ تعلقات پر حرف آتا ہے واہ کیا انصاف ہے ایک طرف ایک سابق وزیراعظم کیس بھگت رہا ہے دوسری طرف آپ نے سارے نقد آورقیمتی تحفے چھپاکر رکھے ہیں آپ تو صادق اور امین ہیں حددرجہ ایماندار ہیں آپ تحفے کیسے ہڑپ کرسکتے ہیں کہا جاتا ہے کہ چیزیں چھپانے سے افواہوں کابازار گرم ہوجاتا ہے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر یہ افواہ گرم رہی کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے15کروڑ مالیت کی جوگھڑی تحفے میں دی تھی اسے دوبئی کی مارکیٹ میں فروخت کیلئے پیش کیا گیا خریدار کمپنی نے اس کی اطلاع بھی کردی واللہ العالم بالصواب اگر حکومت صالح ہے تو وہ ملنے والے غیر ملکی تحائف کا اعلان کیوں نہیں کرتی کیا چیز مانع ہے؟ایسا نہ ہو کہ کل کلاں توشہ خانہ کے مقدمات موجودہ حکمرانوں پر قائم ہوجائیں۔
گزشتہ دنوں پینڈورا لیکس کااسکینڈل آیا تھا اس میں متعدد وزراء مشیر اور حکومتی شخصیات کی آفشورکمپنیوں کا انکشاف کیا گیا تھا لیکن دیدہ دلیری دیکھئے کہ وزراء کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے اثاثے پہلے ظاہر کررکھے تھے لہٰذا ان پر کوئی کسی نہیں بنتا یہ بات ٹھیک ہے لیکن یہ تو فرمائیں کہ آپ نے اتنی دولت کہاں سے اکٹھی کرلی اس کے بعد کن ذرائع سے یہ دولت مختلف ممالک میں پہنچائی وہ فنڈز کہ جس سے آپ نے اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں بنائیں اس کا ذریعہ آمدن کیا ہے؟ یہ تو آج تک کسی نے نہیں بتایا ایک دلچسپ وزیر فیصل واؤڈا عرف بوٹ والی سرکار کافی عرصہ تک فرمارہے تھے کہ پانچ ہزار کرپٹ لوگوں کے سرقلم ہونے چاہئیں جس کے بعد کرپشن کا خاتمہ ہوجائیگا اب توخیر ان کی آفشورکمپنیوں کا نام پینڈورا لیکس میں آیا ہے کوئی ان سے پوچھے کہ بچے کیا خیال ہے؟کتنے لوگوں کے سرقلم ہونے چاہئیں اور کس کے ہونے چاہئیں نوازشریف قید اور معزولی کی سزا کیوں کاٹ رہے ہیں وہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کامنی ٹریل پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔واؤڈا جہانگیرترین،شوکت ترین،وقار مسعود یا وہ طاقتور لوگ جو احتساب سے بالاترہیں انہوں نے کبھی اپنی منی ٹریل بتائی اور ثابت کیا کہ وہ اسٹیٹ بینک کی اجازت کے بعد بینکوں کے ذریعے کھربوں روپے باہر لے گئے تھے جب سے پینڈورا پیپر آئے ہیں وزراء اپنی چوری دوسری کے کھاتے میں ڈال کر سینہ زوری کا مظاہرہ کررہے ہیں جس طرح پانامہ پیپرز ہیں نوازشریف اور ان کے بچوں کا اسکیچ آیا تھا اسی پینڈورا پیپرز میں موجودہ حکمرانوں کا اسکیچ بھی آیا ہے لیکن میڈیا نے خوف کے مارے یہ شائع کرنے سے گریز کیا صرف ایک چینل نے ایک وفاقی وزیر کے حوالے سے بتایا کہ ہم آئی سی جے آئی کیخلاف نیویارک میں مقدمہ قائم کریں گے کہ اس نے ہمارے اکابرین کااسکیچ بنانے کی جسارت کیسے کرلی۔ٹھیک ہے آج ”پشت“ مضبوط ہونے کی وجہ سے حکومت اور اس کے وزیر مشیر دندناتے پھررہے ہیں لیکن وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی کل جب حالات تبدیل ہوجائیں یا حکومت چلی جائے تو پوری کی پوری کابینہ جیلوں میں ہوگی کسی پر توشہ خانہ سے تحائف چرانے کا الزام ہوگا،کسی پر آٹا،کسی پر چینی،کسی پر تیل اور کسی پر سی این جی اسکینڈل کے مقدمات ہونگے فی الحال تو نیب آرڈی یننس میں ترمیم کے ذریعے انہوں نے جان بچالی ہے لیکن کب تک؟ آرڈیننس تو چار ماہ کے بعد ختم ہوگا اگر انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس کی منظوری لی تو بچت ہوگی ورنہ برا حشر ہوگا نیپ ترمیمی آرڈیننس کیا ہے آئین کو اس کے ذریعے روندا گیا ہے اگر کوئی اعلیٰ عدالتوں میں گیا تو یہ صدارتی آرڈیننس کالعدم قرارپائیگا جس کے بعد چیئرمین نیب کی تقرری پر کافی عرصہ تک اتفاق نہیں ہوسکے گا جو وقتی طور پر دونوں فریقین کیلئے سود مندہے۔
بلوچستان میں آیا سیاسی طوفان ابھی تک برقرار ہے جام صاحب کسی نے کسی طرح بچ نکلتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی مخالفین پاس اچھے مشیروں کی کمی ہے باپ پارٹی ٹوٹ گئی ہے لیکن ناراض لوگوں نے استعفےٰ گورنر کو پہنچادیئے بھئی اگرآپنے تحریک عدم اعتماد لانا ہے تو آپ کے استعفوں کے بعد یہ تحریک کیسے آئیگی اور کیسے کامیاب ہوگئی اب تو خیر سے وزیراعلیٰ ہرنائی میں آنے والے زلزلہ کی تباہ کاریوں کے اثرات سے نکلنے کیلئے مصروف ہوگئے ہیں اس لئے کچھ وقت تو انکو ملے گا اس کے بعد ان کی پالیسی ہے کہ گبھرانانہیں استعفیٰ کسی صورت نہیں دینا ہے جام صاحب نواب ثناء اللہ تو نہیں کہ اپنے اپنے لوگوں کی ناراضگی سے گھبراکر مستعفی ہوجائیں ان کے اعصاب بڑے مضبوط ہیں اور جب تک ان کے اعصاب مضبوط ہیں مقابلہ جاری رہے گا یہ دراصل اعصاب کی جنگ ہے اگر مخالفین کے اعصاب جواب دے گئے تو وہ ہاریں گے اور اگرجواب صاحب کے اعصاب کمزور پڑے تو شکست انکو ہوگی جام صاحب کو شاباش دینی چاہئے اے این سی پی ٹی آئی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کو ان کی وجہ سے ان کا منصب قائم ہے ورنہ باپ پارٹی کے اکثر لوگ تو انہیں چھوڑچکے ہیں ان پر انحصار نہیں کیاجاسکتا ایچ ڈی پی کی وفاداری تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اے این پی اور پی ٹی آئی کی وفاداری سمجھ سے بالاتر ہے اے این پی بلوچستان کو کافی عرصہ بعد اقتدار میں حصہ ملا ہے اس لئے اس کیلئے یہ موقع ہاتھ سے چھوڑدینا بہت ہی مشکل کام ہے ویسے بھی اے این پی بلوچستان اپنے آپ کو مرکزی اے این پی سے الگ سمجھتی ہے جب پی ڈی ایم نے استعفوں کااعلان کیا تھا تو بھی بلوچستان اے این پی خود کو الگ رکھے ہوئے تھی ہوسکتا ہے کہ اے این پی بلوچستان کی وابستگی کسی اور مقام سے ہو۔پی ٹی آئی تو مجبور ہے کہ وزیراعظم نے جام صاحب کو بچانے کااعلان کیاہے۔
بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال ناگفتہ بہ ہے اس سے صوبے کے عمومی حالات تلخ نوائی سے دوچار ہیں سیاسی ماحول کشیدہ اور ناخوشگوار ہے عوام ترقی سے محروم ہیں کہیں قدرتی آفت ہے کہیں ریاست قہر آلود ہے کہیں سیاسی لاوا بہہ رہا ہے اس صورت کو بہتر بنانے کیلئے وزیراعلیٰ کو چاہئے کہ وہ خود کو ایک سیاستدان ثابت کریں۔مخالفین اور ناراض اراکین کو مذاکرات کی میز پر لائیں نہیں تو اپوزیشن کی جماعتوں کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دیں جام صاحب کو یہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ وہ جام ہیں اورصوبے میں سیاسی ترقیاتی اور انتظامی عمل بھی جام ہیں سیاسی ڈائیلاگ سے کئی مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔
انہیں چاہئے کہ وہ تین آپشن پر غور کریں اگر باپ پارٹی میں اتحاد ممکن نہ ہوتو وہ اسمبلی تحلیل کردیں اگر یہ ممکن نہیں تو اپوزیشن کی کسی جماعت کو اپنی حکومت میں شامل کریں ورنہ آخری آپشن یہی ہے کہ وہ منصب چھوڑدیں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں