انقلابی لیڈرشپ کے بغیر انقلاب نہیں آتا

اس میں دورائے نہیں کہ پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں اکثریت غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔جہاں غربت ہو وہاں جہالت،بیماری اور بیروزگاری پرورش پاتی ہے۔غربت مسائل کو جنم دیتی ہے۔بوڑھے والدین کا علاج معالجہ، جوان بہنوں کی شادی،اورچھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش میں والدین کی مدد کرنے میں بے بسی نوجوانوں کو منشیات کی طرف دھکیلتی ہے، اورمنشیات کا شکار ہونے والے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں خود ہی ختم کر لیتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ ایک ہی نظرآتی ہے کہ پاکستان کے عوام کو انقلابی لیڈر شپ نصیب نہیں ہوئی۔روس اور چین کی انقلابی تحریکوں سے متأثر نوجوان انقلاب کے داعی بنے مگر قیادت ان طبقات کے پاس رہی جو معاشی اصلاحات تو چاہتے تھے لیکن مصلحت پسندی کے ذریعے کوئی درمیانہ راستہ نکالنا چاہتے تھے۔چین اور روس جیسے انقلاب سے خوفزدہ تھے۔ترقی پسند نوجوان جرأت مندانہ فیصلے کی قوت رکھنے والی قیادت سے محروم تھے۔ کمیونسٹ پارٹی پنڈی سازش کیس کی لپیٹ میں آگئی اور مضبوط ہونے سے پہلے ہی مقتدرہ کی سخت گیر پالیسی کے باعث کھل کر کام نہ کر سکی۔ترقی پسندمذہب کو رجعت پسندانہ سوچ کہہ کر اس سے الگ تھلگ رہے۔دوقومی نظریئے کے بنیادی نعروں کی گونج میں چلنے والی تحریک سے فکری دوری پیدا ہوئی جو عوام سے دوری پر منتج ہوئی۔ استحصالی طبقات نے طبقاتی سوچ کے خلاف مذہب کو بڑی مہارت سے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور کمیونسٹ خیالات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے عوام کو مذہبی تصورات کی دیواروں کے پیچھے محبوس کر دیا۔حالانکہ رجعت پرستی کوپاکستان میں قرآنی تعلیمات کے ذریعے فیصلہ کن شکست دی جا سکتی تھی۔اس میں شک نہیں کہ استحصالی طبقات نے اپنی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لئے غیر قرآنی تصورات کو اسلام کہہ کر عوام کی اکثریت کو گمراہ کیا اور آج تک اس حکمت عملی پر چل رہے ہیں۔28اپریل 2021کو سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے اپنے انٹرویو میں قرآنی تعلیمات کا روشن پہلو انتہائی دانشمندی سے سعودی عواماوردنیا کے سامنے رکھا اور رجعت پسندی کو فسادی سوچ کہہ کر اس کے سماج دشمن پہلوؤں کو اجاگر کیا۔اس کا نتیجہ آج ایران سے قربت کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔کمیونسٹ پاکستانی عوام کی سوچ قرآن کے انقلابی تصورات کو پوری توانائی سے عوام کے سامنے رکھتے،تو صورت حال کو استحصالی طبقات کے خلاف محکوم طبقات کے حق میں تبدیل کرسکتے تھے۔ایران میں ڈاکٹر علی شریعتی نے مذہب کے انقلابی پہلو کو بڑی خوبصورت سے عوام کے سامنے رکھا اور بہت جلد عوام میں مقبولیت حاصل کرلی۔ رجعتی قوتوں نے انہیں مالی مشکلات میں ڈال کر ان کی اولوالعزمی کوزیر کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہیں۔ان کی محنت رنگ لائی،عوام نے ان کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کی اور ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب برپا ہوا، امریکی پشت پناہی کے باوجود شہنشاہ ایران کو ایران سے جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا۔پاکستان میں کمیونسٹ لیڈرشپ مذہب کے انقلابی پہلو کو اجاگر کر کے ڈاکٹر علی شریعتی اور آیت اللہ خمینی کی طرح انقلاب لا سکتی تھی۔ کمیونسٹ لیڈر شپ لینن جیسے انقلابی لیڈرکے کتب سے رہنمائی حاصل کر سکتی تھی۔کامریڈلینن مذہب کو عوام دشمن نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے انقلابی لفاظی میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عوام پادریوں کے گردبھی موجود ہیں، اس لئے ہمیں وہاں بھی کام کرنا ہے۔انہوں نے پولیس کی بنائی ہوئی ٹریڈ یونینز میں بھی ورکرز کو کام کرنے کی ہدایت کی۔ خود کمیونسٹ پارٹی سے اپنی پالیسی کی حمایت نہ ملنے پر پارٹی نہیں توڑی، محنت کی،اکثریت کو قائل کیا اور مخالفین کو منشویک(اقلیت) میں تبدیل کر دیا، اور خود بالشویک(اکثریت والے) کہلائے۔پاکستان میں کمیونسٹ روز اول سے آج تک اقلیت میں رہے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے مذہب کو ترقی پسند قوت کے طور پر استعمال کرنے کے لئے ”ریاستِ مدینہ“ کی اصطلاح آزمائی اور اپنی بشری کمزوریوں کے باوجوددرمیانے طبقے کو اپنا حامی بنانے میں کامیابی حاصل کی۔اس نے عوام کو مذہب کے نام پر دین الگ اور دنیا الگ کی تعلیم نہیں دی۔”ریاستِ مدینہ“ کی اصلاح سے مدد لی اور عوام کو استحصالی قوتوں کے مدمقابل کھڑا کردیا۔جو دانشور اس فکرو عمل کے برعکس سوچ رکھتے ہیں انہیں چاہیئے کہ ہم خیال دوستوں سے علمی بحث اور باہمی فہم و فراست سے کام لیں، آگے بڑھنے کی راہ دکھائیں۔تسلیم کریں ترقی پسندوں سے غلطیاں ہوئی ہیں،اجتماعی دانش کی مدد سے اپنی نا کامی کا تجزیہ کریں، عوام کو اپنا ہمنوا بنانے میں ناکامی کے اسباب تلاش کریں تاکہ آئندہ عوام میں جاکر کام کرنے کی کوئی راہ نکالی جائے۔کسی پرانے ساتھی کی موت پر نوحہ خوانی سے پاکستانی عوام کی بدحالی اور معاشی مشکلات دور نہیں ہوں گی پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ایک تجویز پیش کی تھی کہ 700کلومیٹر طویل ساحلی پٹی پر پام اور کوکونٹ آئل حاصل کرنے کے لئے شجر کاری کی جائے اور جہاں زیتون کی شجر کاری مناسب ہو وہاں زیتون کے درخت اگائے جائیں تو اس تجویز کو بعض دانشوروں نے ساحل فروشی قرار دیا۔ آج پوٹھوہار اور سرائیکی زمین پر بلکہ سندھ میں بھی زیتون کے لاکھوں درخت اگا کر آمدنی کے ذرائع پیدا کئے جا رہے ہیں۔بلوچستان کی ساحلی پٹی پر شجر کاری کی منصوبہ بندی کی جاتی اس سے نہ صرف لوگوں کو روزگار ملتا بلکہ صوبہ بھی پسماندگی سے نکل چکا ہوتا اور عوام مہنگائی سے نجات یا مقابلہ کرنے کی استعدادحاصل کر چکے ہوتے۔اگر اُن دنوں شجرکاری کر لی جاتی توآج اس کے فوائد سے عوام مستفید ہو رہے ہوتے۔یاد رہے جو قومیں اپنے قدرتی وسائل کو استعمال کرنے سے خوفزدہ ہوتی ہیں وہاں غربت، جہالت، بیماری اور بے روزگای کے عفریت اپنے پنجے گاڑھ لیتے ہیں، عوام کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔چلیں دیر آید درست آید کے مصداق اس تاخیر کو بھی مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ آج واٹس ایپ کے بکثرت استعمال کی بناء پر لوگوں کی معلومات ماضی کے مقابلے میں بہتر ہیں، بیرونی منڈیوں تک رسائی آسان ہوگئی ہے،نادیدہ خوف سے باہر نکلیں،ہمت سے کام لیں ترقی اور خوشحالی عوام کی دہلیز پر آسکتی ہے۔ پیٹ بھر روٹی کا حصول زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اسے حل کئے بغیر سیاست بھی آگے نہیں بڑھے گی۔ترقی پسند سوچ کی ترویج کا کام سست ہو جائے تو عراق، شام اور لیبیاء جیسا حشر ہوتا ہے۔ انقلابی لیڈرشپ کے بغیر انقلاب نہیں آتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں