ماوزے تنگ کے لانگ سے ہرنائی لانگ تک؟

تحریر:امان اللہ شادیزئی
چین کے انقلانی ہنماء ماوزے تنگ نے انقلاب کیلئے لانگ مارچ کی اور اس کے ہمراہ لاکھوں لوگ تھے راستہ میں سینکٹروں نے ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے، جو بن لائی ان کے ہمراہ تھا بالا آخراس تاریخی لانگ مار چ نے تاریخ رقم کر دی اور کمیونسٹ انقلاب کا میاب ہو گیا، انقلاب کے چند سالوں بعد سویت یونین اور چین میں اختلافات پیدا ہو گئے سویت یونین کے انقلاب نے دیا بھر میں اپنے اثرات قائم کئے، پاکستان میں بھی روس نواز پارٹیاں وجود میں آگئیں، پاکستان میں قوم پرست پارٹیوں میں سویت یونین کے اثرات موجود تھے اور روس کی حمایت کرتے تھے، اس کی تعداد لاکھوں میں تھی، چین کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے اثرات انڈونیشیاء میں زیادہ تھے اس کی تعداد لاکھوں میں تھی انڈونیشیاء میں کمیونسٹ پارٹی نے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی لیکن اس انقلاب کو فوج اورمشجوی پارٹی نے اس کو ناکام بنا دیا، اس کشمکش میں ہزاروں لوگ قتل ہو گئے سوءئکارنز صدر،، اور اس بغاوت کو جنرل سہارتو نے ناکام بنا دیا اور حکومت پر قبضہ کر لیا انڈونیشیا میں ناکام بغاوت کے بعد اس راستہ کو ترک کردیا اور جمہوری راستہ کو تبدیلی کیلئے استعمال کیا لیکن روس نے سازش کے ذریعے انقلاب برپا کرنے مشرق وسطےٰ اور افریقہ کے ممالک میں سویت یونین نے فوج کے ذریعے کمیونسٹ انقلاب برپا کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد جاری رکھا افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں عوام کے ذریعے انقلابات برپا کئے اور کامیاب ہوئے اس کے بعد سویت یونین نے 1979ء میں افغانستان میں فوج کے ذریعے شب خون مارا اور سردار داؤد کا تختہ الٹ دیا اور خلق پارٹی نے نور محمد کو صدر بنا دیا۔بنیادی طور پر وہ سکول ٹیچر تھا افغانستان میں پہلی دفعہ روسی فوج داخل ہوئی تھی اور سردار داؤد کا تختہ الٹنے کے بعد ہزاروں لوگ قتل کردئیے گئے۔ افغانستان میں اس کے رد عمل میں جہاد شروع ہوگیا اور بالآخر سوویت یونین کو افغانستان چھوڑنا پڑا اس کے بعد سوویت یونین میں کمیونزم کے خلاف رد عمل پیدا ہوا اور سوویت یونین سے کمونزم کی حکومت ختم ہوگئی اور کمونزم نے دم توڑ دیا اور سوویت یونین بھی ختم ہوگیا۔ اور مسلم ریاستیں آزاد ہوگئیں۔ افغانستان میں جارحیت کا یہ المناک انجام ہوا اب افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں امریکہ اور نیٹو کو عبرتناک شکست ہوگئی۔ ہم یہ تجزیہ ہرنائی کے لانگ مارچ کے حوالے سے کررہے ہیں ہرنائی کے لانگ مارچ کا ہیرو سید نور محمد ہے جس نے علاقے کے مسائل حل کیلئے ہرنائی سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا فیصلہ کیا اور اس کے ہمراہ30سے40لوگ تھے جو مارچ کررہے تھے نور محمد شاہ جو دل کے مریض ہیں لیکن ان کے حوصلہ کو داد دینی چاہئے کہ180میل کا طویل سفر طے کرکے کوئٹہ پہنچ گئے سب سے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس لانگ مارچ میں سید نور محمد کے2کمسن بچے سید فرقان احمد شاہ عمر10سال اور سید مہتاب احمد شاہ عمر11سال ہے یہ دونوں بچے اپنے باپ کے ہمراہ اس لانگ مارچ میں شامل تھے۔سید نور محمد شاہ نے بتلایا کہ دونوں 2دفعہ اس لانگ مارچ میں بے ہوش ہوگئے تھے۔میں نے لانگ مارچ جاری رکھا180کلو میٹر کا فاصلہ طویل تھا راستہ میں جہاں جہاں سے گزرے لوگوں نے استقبال کیا اور حوصلہ افزائی کی ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے پاکستان کی سیاست میں بعص دفعہ پارٹیوں کے اندر سازشیں ہوتی رہتی ہیں بعض دفعہ تو کسی شخصیت سے خوف زدہ ہوتو قتل سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے یوں ذہین اور مقبول شخصیت کے خلاف پارٹی کے اندر یہ کھیل کھیلا جاتا ہے اس کھیل پر نظر رکھنی چاہئے یہ کھیل ہماری پارٹیوں کا المیہ ہے لیکن ایسا کھیل بڑی خوبصورتی اور شاطرانہ طریقہ واردات کے ذریعہ کھیلا جاتا ہے یہ ہماری سیاسی پارٹیوں کا المیہ ہے اور بعض دفعہ پارٹی کے اندر یہ کھیل اس وقت بھی کھیلا جاتا ہے جب کوئی شخص موروثی سیاست اور جانشین کیلئے کھیلا جاتا ہے اور ابھرتی والی شخصیت کو بڑی مہارت سے ہٹا دیا جاتا ہے سب کھیل اقتدار اور سیاست میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔
ہم سید نور محمد شاہ کے لانگ مارچ کا تجزیہ کررہے ہیں اورساتھ ساتھ سیاست کے کھیل کا تجزیہ بھی کررہے ہیں۔برصغیر ہند کے ممتاز دانشور سیاست دان ابو الکلام آزاد نے ایک بار کہا کہ
سیاست کے سینہ میں دل نہیں ہوتا
بڑی بے رحم ہوتی ہے
ہم تاریخ عالم میں اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
یہ لانگ مارچ اس بات کا، ہے کہ جو ہمرا ہ اس علاقہ سے منتخب ہو ا ہے اس کی توجہ اور اس کی سیاست کا مظہر اس لئے ایک خاک شیشن احتجاج مسائل کی طرف متوجہ کر تا ہے اور اس کا لانگ مارچ منتخب ممبر پرہم پر عدم اعتماد ہے اس لئے اسمبلی میں ان مسائل پر توجہ نہیں دی ہے اور عوامی مسائل کے حل کیلئے کوشش نہیں کی ہے ہم نے اسمبلی میں منتخب ہونے والوں کو پھر دوبارہ منتخب ہوتے نہیں دیکھا ہے اور وہ پھر تاریخ کے اندھیروں میں ایسے گم ہوئے ہیں کہ ان کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ہیں، ہم نے 1970ء سے بلوچستان اسمبلی میں نمائندوں کو قہقے بھکیرتے دیکھا ہے یہ اسمبلی مدت پوری کرنے کے بعد و ہ گمنامی کے قبرستان میں دفن ہو گئے ہیں اور ان کے نام و نشان مٹ گئے ہیں، اور نہ کسی نے ان کے ویران قبروں پر فاتحہ پڑھی، ہم سید نور محمد شاہ نے لانگ مارچ کے حوالے سے ایک پمفلٹ بھی تقسیم کیا کرا رہے ہیں، انہوں نے اپنے مطالبات کی فہرست میں سے اہم نکات کو،، جو صوبوں ہر نائی ترین بحال کی جائے۔
ہرنائی ولن مل کو فوری چلایا جائے۔
ہرنائی ضلع میں کوئلہ پر تمام غیر قانونی ٹیکس ختم کئے جائیں۔
تمام تعلیمی اداروں میں واش روم بنائے جائیں۔
تمام نا مکمل پل کو مکمل کیا جائے۔
زمینداروں کو بیج مہیا کئے جائیں۔
ہرنائی کی سرکاری زمین پر قبضہ گیری ختم کی جائے۔
ہرنائی کالج میں خواتین ٹیچرز تعینات کی جائیں۔
علاقہ سے منشیات کے اڈے ختم کئے جائیں۔
ہسپتال میں ادویات کی کمی کو پورا کیا جائے۔
گرڈ اسٹیشن بنایا جائے۔
ہرنائی کے طلبہ جو باہر پڑھتے ہیں وظیفہ مقرر کیا جائے۔
ہرنائی کو زرعی پیکج دیا جائے۔
ہرنائی میں گرلز کالج قائم کیا جائے۔
اس مارچ میں علاقہ کی اہم شخصیات شامل تھیں۔
اس تحریک نے ایک پمفلٹ کی صورت میں عزم تک اپنے مطالبات پہنچا دئیے ہیں۔یہ تمام مطالبات جائز ہیں اور حکومت ان کو حل کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں