12 اکتوبر سے 12 اکتوبر تک

تحریر: انورساجدی
ایک طوفان کوئٹہ سے اٹھا ہے دوسرا اسلام آباد میں سر اٹھا رہا ہے دونوں کا حل راولپنڈی میں ہے جام صاحب اکثریت کھوچکے ہیں لیکن وہ استعفیٰ دینے سے صاف انکاری ہیں انہیں توقع ہے کہ راولپنڈی سے کوئی غیبی امداد آجائے گی اور ان کا منصب بچ جائے گا اگر ایسا ہوا بھی تو جام صاحب اور ان کی جماعت کے 16 اراکین میں کبھی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوگی بلوچستان میں ویسے بھی کسی وزیراعلیٰ نے مدت پوری نہیں کی عمومی طور پر یہی سمجھاجاتا ہے کہ 3 سال کافی ہیں یہی ڈاکٹر مالک کے ساتھ ہوا اور نواب ثناء اللہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا پیپلزپارٹی کے دور میں امید پیدا ہوچلی تھی کہ نواب اسلم رئیسانی اپنی مدت پوری کریں گے لیکن ہزارہ قبیلہ کے قتل عام نے انہیں مدت سے پہلے گھر جانے پر مجبور کردیا اگرچہ بلوچستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے اگر ہوتی تو جام صاحب اسمبلی میں آکر خود ہی اعتماد کا ووٹ لینے کی کوشش کرتے اعتماد ملنے کی صورت میں وہ اپنے منصب پر براجمان رہتے ورنہ گھر چلے جاتے ایک سوال ابھی باقی ہے کہ باپ پارٹی کے باغی اراکین کے پیچھے کونسے عناصر ہیں یا وہ جام صاحب کے رویہ سے تنگ آکر انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں اقتدار کی اس کشمکش میں بلوچستان کے دفتری معاملات تتر بترہیں ترقیاتی عمل تو یہاں ہے نہیں کہ کوئی کہے کہ اس چپقلش سے ترقیاتی عمل رک گیا ہے البتہ معمولی کاکام ٹھپ ہے افسران بھی پریشانی اور سراسمگی کا شکار ہیں کوئٹہ سے اٹھنے والے طوفان کا کیا حل نکل آئیگا بس چند ہی دنوں میں سب کچھ واضح ہوجائے گا۔
ادھر اسلام آباد میں گزشتہ ہفتہ جو طوفان اٹھا تھا وہ پہلے ایک پیالی میں اٹھا طوفان معلوم ہوتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کی سنگینی بڑھتی گئی اگر مسئلہ ایک ادھ دن میں حل نہ ہوا تو جس طرح چند دن پہلے مرگلہ پہاڑ سے اٹھنے والے کالے بادلوں نے دن کو رات کردیا تھا سمجھوکہ عمرانی حکومت کا زوال بھی شروع ہواچاہتا ہے کپتان کو اس بات کا غم ہے کہ انہوں نے اپنی باقی مدت پوری کرنے اور مزید پانچ سال اقتدار میں رہنے کا جو پلان بنایا تھا تبادلوں نے یا ایک تبادلہ نے اسے چوپٹ کردیا ہے وہ اس معاملہ کو لیکر اتنے جذباتی ہوئے کہ حضرت خالد بن ولید کی برطرفی کا تذکرہ کرڈالا تاریخ کے صفحات پر یہ واقعہ نمایاں طور پر درج ہے پاکستان میں اس کا ذکر سب سے پہلے حضرت علامہ شاہ احمد نورانی نے جنرل ضیاؤ الحق کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کیا تھا۔
مولانا نے فرمایا تھا کہ ضیاؤالحق نظام مصطفےٰ کے نفاذ کا جھوٹا نعرہ لگارہے ہیں کیونکہ اگر اسلام نافذ ہوگیا تو جرنیل اسے برداشت نہیں کرسکتے انہوں نے مثال دی کہ حضرت خالد بن ولید کمانڈر انچیف تھے لیکن حضرت عمرؓ نے انہیں برطرف کردیا اور حکم دیا کہ وہ اسی فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے لڑائی لڑیں گے عالم اسلام کے سب سے عظیم سپہ سالار نے امیرالمومنین کے حکم کی تعمیل کی اور کوئی اعتراض نہیں اٹھایا انہوں نے کہا کہ اگر اسلامی نظام نافذ ہوگیا تو جنرل ضیاؤالحق کو اسی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا وہ عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے جھوٹا نعرہ لگارہے ہیں۔
اس واقعہ کا تذکرہ کپتان نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا چونکہ معاملات الجھے ہوئے تھے اس لئے اینکروں اور یوٹیوبرزنے اس کی توجیح اور طرح سے کی اور اسے ایک اشارہ اور دھمکی کے معنوں میں لیا اسلام آباد کی مذکورہ تقریب میں کپتان نے اپنے روحانی سفر کا احوال بھی بیان کیا اور گلوگیر انداز میں بات کی ان کے چہرے پر رنج و غم نمایاں تھا اور ان کی باڈی میں کوئی چابکدستی نہیں تھی ایک دن قبل وہ پارلیمنٹ ہاؤس کی راہ داریوں میں راستہ بھول گئے اور یہ بھی بھول گئے تھے کہ وہ کہاں پر ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ابتک نازوں میں پلے ہیں اور انہوں نے کوئی سخت وقت یا بحران نہیں دیکھا صورتحال ان کیلئے خلاف توقع تھی انہوں نے آئینی ماہرین سے مشورے کئے تو انہیں بتایا گیا کہ یہ اختیار انہی کا ہے کسی اور کا نہیں ہے اس لئے انہوں نے سمری پر دستخط نہیں کئے 22 اکتوبر سے پہلے ایک واضح فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ بہت بڑابحران پیدا ہوجائے گا بعض مبصرین نے خیال آرائی کی ہے کہ کپتان کو آنے والے معاشی بحران کا اندازہ ہوگیا ہے ملک کے معاشی حالات مزید ابتر ہونے والے ہیں اگر حکومت نے آئی ایم ایف کے پروگرام کو خیرباد نہیں کہا تو اسے اس کی کڑی شرائط تسلیم کرنا پڑیں گی جن میں بجلی گیس کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں بے تحاشہ اضافہ کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے مہنگائی اور بیروزگاری میں ناقابل برداشت اضافہ ہوجائے گا شوکت ترین مذاکرات کیلئے واشنگٹن گئے ہیں امکان یہی ہے کہ وہ ساری شرائط مان کر آجائیں گے ابتر معاشی صورتحال کی وجہ سے حکومت پہلے ہی اپنی مقبولیت کھوچکی ہے اور وہ جعلی گیلپ سروے کے ذریعے اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کی کوشش کررہی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں عوام کی اکثریت تحریک انصاف کا نام نہیں سننا چاہتی وہ اس حکومت سے اتنے خائف ہیں جو ماضی کی کسی حکومت سے نہیں ہوئے کپتان کو ان حالات کا اچھی طرح اندازہ ہے جوں جوں ان کی غیر مقبولیت بڑھ رہی ہے تحریک انصاف کے سینکڑوں سوشل میڈیا کے ورکر جعلی کارنامے بتاکرحالات کو سنبھالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں تو حکومت کی ساکھ کیسے بحال ہوسکتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ عروج ختم زوال شروع ہمیشہ زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی ایشو پر محاذ آرائی کی صورتحال بن جائے اس سلسلے میں نواز شریف کا ریکارڈ دیکھنا ضروری ہے وہ بھی عمران خان کی طرح لاڈلے تھے 1990 میں انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا گیا لیکن 3سال کے اندر تقرری و تبادلوں پر اختلاف ہوا جس کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم ہوگئی انہیں 1997 میں زبردست جھرلو کے ذریعے دوبارہ برسراقتدار لایا گیا لیکن صرف دو سال کے اندر چلتا کردیا گیا وجہ یہ تھی کہ نواز شریف نے وزیراعظم بننے کی کوشش کی تھی تیسری دفعہ تو پانامہ کا اسکینڈل لاکر اقامہ کے ذریعے انہیں جیل بھیج دیا گیا لیکن ایک ڈیڑھ سال بعد یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ہمارا سلیکشن غلط ہے چنانچہ اس بات کا انتظام کیا گیا کہ جیل میں مقید میاں صاحب کو بیماری کے بہانے محفوظ مقام پر بھیج کر ”ریزرو“ میں رکھا جائے تاکہ بہ وقت ضرورت کام آسکیں حالانکہ پانامہ کے بعد میاں صاحب نے کہا تھا کہ ”مجھے کیوں نکالا“ اور انہوں نے ووٹ کو ”عزت دو“ کی تحریک بھی چلائی تھی تاہم لندن پہنچنے کے بعد میاں صاحب اتنے ممنون ہوئے کہ انہوں نے توسیع کے حکم نامے پر کسی چوں و چراں کے بغیرانگوٹھا ثبت کردیا یہ اعتماد سازی یا روابط بحال کرنے کی پہلی کامیاب کوشش تھی اسی دوران میاں صاحب کے ساتھ جو روابط رہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی گزشتہ تحاریک اور نعرے صرف سیاسی تھے اور وہ آئندہ مل کر چلنے پر آمادہ ہیں کیونکہ وہ سمجھ گئے ریاست کے مضبوط سسٹم میں ووٹ کو عزت دو والی کسی چیز کی گنجائش نہیں ہے کیا پتہ کہ کل کپتان بھی یہی نعرہ لگائے کہ مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو لیکن کوئی بعید نہیں گھمبیر حالات کے پیش نظر وہ شہید جمہوریت بننے کی کوشش کریں تاکہ ان کی جماعت صفحہ ہستی سے مٹنے سے بچ جائے حالانکہ یہ جماعت جنوبی پنجاب کے خاندانی لوٹوں اور ہر حکومت میں شامل ہونے والے الیکٹیبلز کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے اگر کپتان اپوزیشن میں جائیں تو اکیلے جائیں گے ان میں سے کوئی ساتھ نہیں ہوگا عمر ایوب، خسرو بختیار، بابر اعوان اور جہانگیر ترین جیسے لوگ کبھی مشکل حالات میں ساتھ دینے والے نہیں ہیں اپوزیشن میں جانے کے بعد کپتان مٹی کی ناک رکھنے کیلئے کہہ سکتے ہیں وہ کامیاب جارہے تھے لیکن جمہوریت دشمنوں نے رخنہ ڈالا اور انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا لیکن پیپلزپارٹی جتنی بڑی جماعت تصادم اور جدوجہد کے بعد بحال نہ ہوسکی تو تحریک انصاف کیسے زندہ رہ سکتی ہے اس کی تو جڑیں بھی گملوں میں ہیں۔
یہ امکان ضرور ہے کہ اسلام آباد کا طوفان وقتی طور پر ٹل جائے کیونکہ لوگ درمیان میں پڑے ہوئے ہیں لیکن شیشے پر بال تو آچکا ہے ارادے تو ظاہر ہوچکے ہیں ایک صفحہ تو پھٹ چکا لہٰذا اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ دوبارہ لاڈلے بن جائیں وہ کوئی انقلابی لیڈر نہیں اور نہ ہی ان کی جماعت ماؤ یا لینن کی کمیونسٹ پارٹی ہے وہ کوئی انقلابی تحریک نہیں چلاسکتے سوائے اس کے کہ صبر و شکر کرکے شوکت خانم کے اپنے تینوں اسپتال بہتر انداز میں چلائیں لیکن یہ ریاست کا دستور ہے پھنگا کرنے والا کبھی صبرو سکون سے نہیں رہ سکتا ان کے خلاف درجنوں مقدمات منتظر ہونگے بے شمار اسکینڈل ہیں پھنگا کرنے والوں کا مقام ہمیشہ اٹک اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل ہوتا ہے لہٰذا کوئی معجزہ ہی کپتان کو ان کا کھویا ہوا مقام دلاسکتا ہے یا 2023 کا الیکشن جتواسکتا ہے لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایک بار پھر دو جماعتی نظام بحال ہوجائے گا یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے کام چلانے کی کوشش کی جائے گی یہ جو ق لیگ ہے جے یو آئی اور اے این پی ان کو بھی ساتھ لگادیا جائے گا ایک دفعہ زوال کے بعد تحریک انصاف تو خیبرپختونخواء سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہوجائے گی جہاں مولانا اے این پی اور ن لیگ مل کر اقتدار کے مزے لوٹیں گے اسی طرح مرکز میں دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کی مخلوط حکومت قائم ہوگی گو یا ”اسٹیٹس کو“ جاری رہے گا کپتان کے ذریعے دو جماعتی نظام کو توڑ کر غلطی کی گئی کیونکہ کپتان کے ساتھ تو زیادہ چابکدست نکلے انہوں نے صرف تین سال کے عرصہ میں اپنا توشہ خانہ بھر دیا آنے والے کل کو وہ کہیں اور پناہ ڈھونڈ لیں گے۔
فیاض الحسن چوہان تو پیپلز پارٹی کو ہزاروں گالیاں دینے کے بعد چند دن پہلے گورنر ہاؤس پنجاب میں جئے بھٹو کے نعرے لگارہے تھے اپنے ڈبو کا کیا ہے وہ پہلے بھی جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے تھے آئندہ لگائیں گے تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی البتہ اپنے شیخو جی کے برے دن آنے والے ہیں ان کی سیاست عمر اور عروج اختتام پذیر ہونے والا ہے کیونکہ ن لیگ انہیں کبھی قبول نہیں کرے گی جبکہ پیپلز پارٹی میں خود نہیں جائیں گے دلچسپ صورتحال اس وقت ہوگی جب باپ پارٹی کے سارے رہنما ن لیگ میں جائیں گے اور ایک بارپھر بلوچستان میں اس جماعت کی حکومت ہوگی جو مرکز میں برسراقتدار آئے گی۔
چلتی کا نام گاڑی
اسی کو کہتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں