کھیل دلچسپ مرحلے میں

تحریر: انورساجدی
یہ جو جنگ ہے کھیل ہے یا دنگل سادہ الفاظ میں یہ پنجاب کی مقتدارایلیٹ کلاس کی جنگ ہے اور اس کا تعلق اسٹیک ہولڈرز کے درمیان زیادہ اختیار اور کامل اقتدار کے حصول سے ہے یہ جنگ نوازشریف نے بھی لڑی بلکہ ابھی تک لڑرہے ہیں لیکن لڑائی آپس میں ہے باقی تین غریب صوبوں کا اس سے چنداں تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ پاور شیئرنگ کے اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں وہ کسی گنتی میں بھی نہیں ہیں بلکہ وہ طاقتور عناصر کے لاحقے کی حیثیت رکھتے ہیں ایک بات پر پنجاب کی اشرافیہ متفق ہے کہ اقتدار کا سرچشمہ پنجاب کو ہونا چاہئے چاہے نام نہاد جمہوریت ہو یا فوجی آمریت کسی اور کو دخل اندازی کا حق حاصل نہیں ہے۔
عمران خان کو اس لئے لایا گیا تھا کہ وہ ایک کمزور وزیراعظم ثابت ہونگے کیونکہ ان کے پاس ووٹ اور عوامی حمایت زیادہ نہیں تھی ان کی 2018ء میں کامیابی کو ایک احسان سمجھا گیا اور یہ توقع باندھی گئی کہ وہ ایک فرماں بردار بچہ ثابت ہونگے لیکن ماتھا اس وقت ٹنکا تھا جب عمران خان نے ایکسٹینشن کے مسئلہ پر لیت ولعل اور تاخیر سے کام لیا جان بوجھ کر تین مرتبہ ناقص سمری بنائی گئی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنی بڑی قانونی ٹیم کی موجودگی کے باوجود ایک ڈھنگ کی سمری نہ بن سکے اس سے ظاہرہوتا تھا کہ وزیراعظم توسیع کے حق میں نہ تھے اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی آئین میں اس کی گنجائش نہ تھی جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلہ میں واضح طور پر اس کی نشاندہی کردی تھی لیکن انہوں نے خود فیصلہ دینے کی بجائے معاملے کو پارلیمنٹ کے سپرد کردیا۔
توسیع کی تائید نوازشریف نے کرکے سب کو حیران کردیا تھا لیکن یہ ایک سیاسی چال تھی اور اس احسان کا بدلہ تھا جو مقتدرہ نے ان کے باہر جانے کا راستہ ہموار کرکے کیا تھا گزشتہ3سال میں کئی ایسے مواقع آئے کہ ن لیگ پنجاب میں عدم اعتماد کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت ختم کرسکتی تھی لیکن حکمت عملی کے تحت ن لیگ نے ایسا کرنے سے گریز کیا مقصد یہ تھا کہ اسٹبلشمنٹ کے لاڈلے اپنی ناکامیوں کے بوجھ تلے آجائے اسے وقت سے پہلے گرانا نئی زندگی دینے کے مترادف ہوگا۔
باتیں رفتہ رفتہ کھل رہی ہیں پردہ ہٹ رہا ہے جو نازک معاملے جن کو صیغہ راز میں ہونا چاہئے وہ چوک اور چوراہوں پرآگئے ہیں کوئی راز نہ رہا کوئی پردہ نہ رہا حتیٰ کہ فائر بندی کی کوششیں بھی ناکام ہوگئیں آخر سب کی ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات بھی کام نہ آئی کپتان نے جو سوچا تھا اس پر اڑگئے اور جن عناصر کی ان پر مان تھی وہ ٹوٹ گئی تین سال کے عرصہ میں یہ پہلا موقع تھا کہ عمران خان نے وزیراعظم بن کر دکھایا وہ نوازشریف کے نقش قدم پر جانے لگے ہیں جبکہ نواز دور بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں وہ غیر جانبدار ہیں کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت نہیں کررہے ہیں ان کے خیال میں جو بھی فریق ہارجائے فائدہ انہی کا ہے حالانکہ نوازشریف اپنی معزولی کے بعد سویلین بالادستی کا بیانیہ لیکر چل رہے ہیں اس اصول کے تحت انہیں کپتان کی حمایت کرنے چاہئے مریم نواز یہ کہہ کرکپتان کے عمل کو مسترد کردیا کہ اہم فیصلے جب جادوٹونے سے کئے جائیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے جو اس وقت ہے۔
بادی النظر میں سمری کا مسئلہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کاہے گوکہ وقتی طور پر یہ مسئلہ حل ہوجائیگا لیکن یہ سوال ایک بار پھر اٹھاہے کہ ملک پر حکمرانی کس کی ہوگی۔
آیا منتخب وزیراعظم کواختیار ہوگا کہ وہ وہ ملک کو چلائیں یا مقتدرہ کو ازروئے آئین تمام معاملات کا اختیار وزیراعظم کو ہے لیکن یہ پرانی کہاوت ہے کہ آج تک کسی بھی وزیراعظم کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا چاہے محمد خان جونیجو ہوں بینظیر ہوں یا عمران خان اقتدار کا سرچمشہ وزیراعظم ہاؤس نہیں تھا نوازشریف نے کئی سالوں تک پیپلزپارٹی کے خلاف مقتدرہ کو اپنا کندھا دیا لیکن1993ء میں آکر وہ بدل گئے انہوں نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان،جہانگیر کرامت،آصف نواز اور وحید کاکڑ سے اختلاف کیا ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ معزولی کی صورت میں نکلا1999ء میں کارگل کی جنگ کے مسئلہ پر جواختلاف جنرل مشرف سے ہوا اس نے تو میاں صاحب کو10سالوں کیلئے جلاوطن کردیا لیکن میثاق جمہوریت نے ان کی واپس کی راہموار کردی اور وہ تیسری بار2013ء میں وزیراعظم بن گئے اس مرتبہ بھی ان کا اقتدار واختیار کو”ڈان لیکس“ کا سامنا کرنا پڑا مقتدرہ کا خیال تھا کہ طویل جلاوطنی سے وہ بدل گئے ہونگے لیکن میاں صاحب بدلے نہیں تھے چنانچہ یہ ثابت کرنے کیلئے کہ اقتدار کسی اور کے پاس نہیں ہوگا اس لئے انہیں برطرف گرفتار اورنااہل قراردیاگیا۔
کافی عرصہ سے یہ مطالبہ کیاجارہا ہے کہ ایک بار یہ طے کیا جائے کہ ملک کو سویلین یا منتخب وزیراعظم چلائیگا یایہ اختیار مقتدرہ کا ہوگا یہ سوال سب سے پہلے خان عبدالولی خان نے اٹھایا تھا بعد میں بینظیر مسلسل کہتی رہی کہ فیصلہ ہوجانا چاہئے انہوں نے میثاق جمہوریت بھی بنایا اور اپنے تئیس ملٹری ٹیک اوور کا راستہ بند کردیا لیکن طاقت طاقت ہوتی ہے کاغذ کا کوئی پرزہ اس کا راستہ نہیں روک سکتا چاہے وہ مقدس دستاویز آئین ہی کیوں نہ ہو لوگوں کو یاد ہوگا جنرل ضیاؤ الحق نے تہران میں کہا تھا کہ آئین کیا ہے کاغذوں کا ایک پلندہ ہے جسے کسی وقت بھی ردی کی ٹوکری میں ڈالاجاسکتا ہے اسی بات کو جنرل پرویز مشرف نے بھی دہرایا تھا حالانکہ 18ویں ترمیم کے ذریعے آصف علی رداری نے آئین کی بیشتر سقم دور کردیئے تھے لیکن آج تک18ویں ترمیم کو تسلیم نہیں کیا گیا این ایف سی میں صوبوں کاجوحصہ طے ہے اس پر بھی بارباراعتراض اٹھایا جاتا ہے بلکہ عمران خان کو لانے کا ایک مقصد یہ تا کہ کسی طرح 1973ء کے آئین کوغلاف میں رکھنے کااہتمام کیاجائے اور اس کی جگہ صدارتی آئین لایاجائے لیکن کمزور سیاسی پوزیشن کے ساتھ عمران خان آئین بدلنے کی طاقت اور حوصلہ نہیں رکھتے تھے ان سے مایوسی ظاہرکرتی ہے کہ انہیں جوٹاسک دیئے گئے تھے وہ پورا نہ ہوسکے اسی طرح کپتان نے بھی جان لیا کہ وہ اختیار کے بغیر ایک منصب پر براجمان ہیں یہ ادراک ہونے کے بعد ہی انہوں نے سمری کے مسئلہ پر اختلاف کیااسکی وجہ سے تقریباً وہی حالات پیدا ہوگئے جو ماضی میں تھے سیاسی مبصرین کے مطابق عمران خان تھک ہار کر نوازشریف کے بیانئے پر آگئے ہیں لیکن نوازشریف انہیں اپناکندھا پیش نہیں کررہے ہیں جبکہ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ مخالفین کو درپردہ اپنا کندھا پیش کرچکے ہیں یا وقت آنے پر کردیں گے پیپلزپارٹی اگرچہ نمایاں اسٹیک ہولڈر نہیں ہے لیکن اس نے کافی عرصہ سے قربانیوں کا سلسلہ ترک کردیا ہے لیکن مقتدرہ پنجاب ایلیٹ کی لڑائی سے اسے کچھ نہ فائدہ ضرور ملے گا۔
اقتدار کی جنگ میں یہ نہیں ہوسکتا کہ فریقین میدان میں آنے کے بعد پرانے خوشگوار لمحات میں لوٹ جائیں بلکہ جوں جوں وقت گزرے گا یہ کھیل فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوجائے گا کپتان کو اپنی ساری غلطیاں ایک ایک کرکے یاد آجائیں گی چاہے2013ء کے انتخابات میں 35پنکچرز کامسئلہ ہو2014ء کادھرناہو۔ نوازشریف اور زرداری سے ذاتی دشمنی ہواوراپنا استعمال ہونا ہو انہیں سب کچھ یادآجائیگا انہوں نے2جماعتی سسٹم توڑنے اسٹیٹس کو ختم کرنے اور تبدیلی لانے کا اعلان کیا تھا لیکن موجودہ سسٹم میں تبدیلی کہاں سے آتی موجودہ اسٹیٹس کو انقلاب کے بغیر توڑا نہیں جاسکتا انقلاب کیلئے عوام کو منظم کرنا ہوگا اور سڑکوں پر لانا ہوگا اتنی بساط کپتان کی نہیں ہے لوگ یہی سمجھیں گے کہ وزیراعظم بننے کی خاطر انہوں نے سیاسی نعرے لگائے تھے جو پانی کے بلبلوں کی طرح اڑگئے جو نئی صورتحال ہے لازمی طور پر نئے انتظامات پر غور کیاجارہا ہے چاہے ان کی اکثریت دھڑام سے گرجائے ق لیگ الگ ہوجائے ایم کیو ایم سلام آخر کہہ دے یا باپ پارٹی اپنی حمایت واپس لے لے اکثریت ختم کرنے کے یہ آسان ترین نسخے ہیں اگر اکثریت ختم ہوجائے تو استعفیٰ ناگزیر ہوجائے گا جس کے بعد نئے انتخابات لازم ہونگے جن میں کپتان بہت پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ان کے مقابلے میں نئے گھوڑوں کو ریس میں لایاجائیگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں