افغانستان کے لیفٹیننٹ جنرل سمیع سادات نے کہا امریکہ نے غداری کی اور دھوکہ دیا

تحریر: امان اللہ شادیزئی
امریکہ کی حیثیت ایک سپر پاورکی تھی یا ہے، اب اس کا تجزیہ ہونا باقی ہے، امریکہ آج سے 20سال قبل اپنی جابرانہ کیساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ طالبان اقتدار سے محروم کر ے گا تووہ طالبان دوبارہ اقتدار حاصل کر لینگے، اور امریکہ اپنی تمام تر قاہرانہ و جابرانہ قوت کیساتھ طالبان کے ہاتھوں شکست کھائے گا اور 20سال تک طالبان تاریخی مزاحمت کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، برطانیہ، سویت یونین کے بعد امریکی استعمار نے افغانستان میں ذلت آمیز شکست کھائی اور رات کی تاریکی میں امریکی جنرل دور سپاہی بھاگ رہے تھے، میدان جنگ سے بھاگنا اور شکست کھانا ایک ایسا داغ ہے جو قبر تک اس کا پیچھا کرتا ہے تاریخ میں اس کا نام قابل احترام سے نہیں لیا جاتا ہے وہ ہم نے اور پوری دنیا نے صدر افغانستان اشرف غنی کو فرار ہوتے ہوئے دیکھا ہے، اشرف غنی کو امریکہ داتا تھا اور امریکہ اس کا آقا تھا جب آقا اپنے لاؤ لشکر کیساتھ فرار ہوا تو نوکر کیسے ٹھہر سکتا تھا تاریخ اشرف غنی پر ہمیشہنفرین بھیجتی رہے گی جب تاریخ یہ باب رقم کرتی ہے، تو تاریخ میں وہ سربراہ جنہوں نے برطانوی سامراج کا مقابلہ بڑی بہادری اور دلیری سے کیا تھا تو ان بزدلوں کی زندگی ہمیشہ ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھے گیاور ان
بہادروں اور دلاوروں کو ہمیشہ یاد رکھے گی اور ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا اور ان کا احترام ایک زمانے پر چھایا رہے گا سلطان ٹیپو جھانسی کی رانی اور خان قلات میر محراب خان جگمگاتا رہے گا اور تاریخ ان کے ناموں سے روشن رہے گی۔29دسمبر1978ء کو جب سوویت یونین کی سرخ فوج افغانستان کی مقدس سرزمین پر اتر رہی تھی تو اس وقت افغانستان کے صدر حفیظ اللہ امین تھے ان کا تعلق پرچم پارٹی سے تھا اور اس نے جب نور محمد ترہ کئی کا تختہ الٹا تو اس کے خلاف جنرل
حفیظ اللہ نے بغاوت کی تھی اور ایوان صدر میں اپنی فوج کے ساتھ داخل ہوا تو اس وقت نور محمد ترہ کئی ایوان میں موجود تھے اس واقعہ سے پہلے نور محمد ترہ کئی سے حفیظ اللہ امین کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اس نے حفیظ اللہ امین کو فون کیا کہ آپ ایوان صدر آجائیں اور کہا کہ میرے ساتھ سوویت یونین کے سفیر بھی موجود ہیں حفیظ اللہ امین فوجی دستے کے ساتھ جب صدارتی محل میں داخل ہوا تو اس پر حملہ کیا گیا وہ بچ گیا اس کے بعد جنرل حفیظ اللہ امین نے فیصلہ کیا کہ اپنے نظریاتی استاد نور محمد کو موت کے گھاٹ اتار دے گا ادھر نور محمد کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا اور اس کی لاش بنا غسل کے ایک گڑھے میں پھینگ دی اور اس پر مٹی ڈال دی یہ کمیونسٹوں کی بد عہدی کا ایک سیاہ باب ہے جس کو افغانستان کے کمیونسٹوں نے لکھا اس کے بعد سویت یونین کو اندازہ ہو گیا کہ افغانستان اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اس نے حفیظ اللہ امین کی حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کر لیا اور دسمبر کی ایک یخ بستہ رات کو اس کی سرخ فوج باگرام کے ہوائی اڈے پر اتر رہی تھی اور درہ سالانگ سے توپ خانہ کابل میں داخل ہو رہا تھا، صدر حفیظ اللہ امین اس وقت صدارتی محل میں موجود تھا اس نے مقابلہ کا فیصلہ کر لیا سرخ فوج داخل ہوئی تو چند گھنٹے کے بعد صدرحفیظ اللہ امین کی اس ایوان صدر میں لاش بے گور د کفن پڑی ہوئی اس کی بھی ایک گڑھے میں پھینگ کر دفن کر دیا گیا یہ افغانستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے جو کمیونسٹوں نے لکھا سردار داؤد سے لیکر حفیظ اللہ امین تک اور صدر نجیب اللہ سے لیکر اشرف غنی تک تاریخ ان کے کردار سے شرمندہ رہے گی اشرف غنی امریکی بینک کا ملازم تھا اس کو جہازمیں بٹھا کر افغانستان لایا گیااور اس کی حفاظت کیلئے 40ہزار فوج تھی جو ٹرمپ کے دور میں کم ہوتی گئی اور امریکہ نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ افغانستان سے چلا جائیگااور صدر بائیڈن کے دور میں ذلت آمیز کا باب لکھا گیا اور فوج بھاگ رہی تھی اور اشرف غنی بھی بھاگ گیا موت کا خوف اور ڈالروں کے چھن جانے کے خوف سے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور دنیا نے اس کو فرار ہوتے ہوئے دیکھا جب وہ بھاگ رہا تھا تو اس نے شرمندگی سے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور طالبان نے جتنی قوت سے افغانستان کو فتح کرتے ہوئے کابل کی طرف رخ کرلیا تو فتح امریکہ کی تربت یافتہ فوج بھی بھاگ رہی تھی 3لاکھ 50ہزار فوج خوف زدہ تھی اور بھاگ رہی تھی وہ 80ہزار طالبان کے سامنے ٹھہر نہ سکی اور دنیا حیران تھی کہ یہ کیا ہو گیا ہے یہ تمہد اس لئے باندھی ہے کہ افغانستان سے فوج کے لیفٹیننٹ جنرل سمیع سادات اس شکست کے اسباب اور امریکہ کی بے وفائی کا کھل کا اظہار کیا ہے اور اس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور ہم سے غداری کی ہے جنرل سمیع سادات افغان نیشنل آرمی کی 215 مائند کور کی قیادت کی۔
اس سے قبل افغانستان کی نیشنل انٹیلی جنس کے سینئر ڈائریکٹر تھے اور ڈیفنس اکیڈمی برطانیہ کے گریجویٹ ہیں اور کنگز کالج لندن سے ماسٹرز کی رکھتے ہیں (حوالہ نیو یارک ٹائمز)
I Commonded Aghan For Trops This Year, We Were Betrayed
(New York Times)
جنرل سمیع سادات نے کہا
طالبان سے دو عشروں تک کی جنگ کے دوران ہمارے بمبار اور ٹرانسپورٹ طیاروں کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ کنٹریکٹر کے سپرد تھی جولائی تک 17ہزار کنٹریکٹر میں سے بیشتر رخصت ہوچکے تھے ٹینیکل مسائل اٹھ کھڑے ہوئے جس کا مطلب یہ تھا کہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹر130.c طیارہ نگرانی پر مامور ڈرون سبھی کچھ گراؤنڈ کردینا پڑا۔
کنٹریکٹرز پروپر انٹری سوفٹ وئیر اور ہتھیاروں کا سسٹم بھی ساتھ لے گئے انہوں نے ہمارے ہیلی کاپٹر میزائل ڈیفنس سسٹم کو بھی الگ کردیا اپنی گاڑیوں، ہتھیاروں اور عملے کا سراغ لگانے کیلئے ہم جس سوفٹ وئیر پر انحصار کرتے تھے وہ بھی غائب ہوگیا اہداف کی رئیل ٹائم انٹیلی جنس بھی ممکن نہ رہی طالبان اسنائپر رائفلز اور دیسی ساخت کی بموں کی مدد سے جمع کرتے رہے جبکہ ہم ایک طرف فضائی کارروائیوں کے ذریعے ملنے والی امداد سے محروم ہوگئے اور دوسری طرف لیزر گائیڈڈ اسلحہ بھی ہم سے چھین لیا گیا۔ ہیلی کاپٹر نہ ہونے کے باعث ہم اپنے اڈوں میں موجود فوجیوں کو سپلائی جاری نہ رکھ سکتے تھے اس لئے سپاہیوں کے پاس اتنا اسلحہ ہوتا ہی نہیں تھا کہ لڑائی جاری رکھ سکیں۔ طالبان نے ہمارے اڈوں پر قبضہ کیا اور کہیں کہیں تو پورے یونٹس نے ہتھیار ڈال دئیے۔
امریکی اڈے اور اتحادی فوجیوں اور سفارت کاروں کے تیز رفتار انخلاء سے معاملات بگڑ گئے۔ اس حوالے سے زمین حقیقتوں کو نظر انداز کردیا گیا۔طالبان کو امریکیوں کی طرف سے ایک واضح حتمی تاریخ چکی تھی اور اس عبوری مدت کے دوران وہ جو کچھ بھی کرتے اس کے حوالے سے کسی فوجی کارروائی کا کوئی خطرہ نہ تھا طالبان تو یہ بھی اندازہ تھا کہ امریکی فی الحال فوجی کارروائیوں کے حوالے سے زیادہ پر عزم نہیں۔یوں طالبان کی پیش قدمی جاری رہی۔ جولائی کے دوران اگست کے پہلے ہفتے میں میرے یونٹ نے صوبہ ہلمند میں 7کار بم دھماکوں کا سامنا کیا مگر پھر بھی ڈٹے رہے اور میدان نہیں چھوڑا۔(جاری)
(یہ کالم نگار کی اپنی رائے ہے اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں