ڈگری یافتہ یا تعلیم یافتہ

تحریر،،ابوبکردانش بلوچ
آج تک دنیا میں جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ علم کی ہی بدولت ہے، علم کی اہمیت سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ زمانہ قدیم سے دور ِحاضر تک ہر متمدن و مہذب معاشرہ علم کی اہمیت سے واقف رہا ہے، فطرت بشری سے مطابقت کی بنا پر اسلام نے بھی علم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے، اس کے آثار ہمیں اسلام کے اولیں عہد سے ملتے ہیں۔
غزوہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کیلئے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی تھی، ان میں سے جو نادار تھے وہ بلا معاوضہ ہی چھوڑ دیئے گئے لیکن جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں حکم ہوا کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو چھوڑ دیئے جائیں گے۔ چنانچہ سیدنا زید بن ثابت ؓ نے جوکاتب وحی تھے، اسی طرح لکھنا سیکھا تھا۔ اسی واقعے سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیم کی کیا اہمیت ہے اور اس کا حصول کتنا ضروری ہے۔ جو لوگ معاشرے میں تعلیم حاصل کرتے ہوں وہ دینی ہو یا دُنیاوی ، اس انسان کا معاشرہ کے اندر اور اپنے گھر کے اندر ایک الگ مقام ہوتا ہے، ایک نوجوان بچے کی قدر، بزرگ لوگ صرف تعلیم کی وجہ سے کرتے ہیں۔
تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہو تو یہ خاصیت آدمی کو انسان بنا دیتی ہے، ایک مہذب شہری بناتی اور اس کی غیر موجودگی ہی کسی بھی شخص کے جاہل اور بے شعور ہونے کی ذمہ دار ہے۔ آج ہم اگر جہالت کے گہرے اندھیروں سے نکل کر شعور کے اشرف مقام تک پہنچے ہیں تو اس کے پیچھے صرف اور صرف تعلیم کا ہی ہاتھ ہے۔ پیارے نبی سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اس قوم کو جو کہ جہالت کے گہرے سمندروں میں ڈوبی ہوئی تھی نکال کر ایک اعلی و ارفع مقام عطا کیا تو اس میں بھی سب سے پہلی ابتدا مشہور و معروف حرف یعنی”اقراء”سے ہی ہوئی تھی۔”حیرت ہے تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے ہے وہ قوم ہے جس کی ابتدا، اقراء سے ہوئی تھی“۔
تعلیم روشنی ہے اور جہالت اندھیرا، تعلیم کی بدولت ہی انسان ایک مہذب انسان کہلوانے کا حق دار کہلاتا ہے، یہ تعلیم کی موجودگی ہی اس کو اپنی زندگی کے بہتر فیصلے کر نے میں مدد دے سکتی ہے۔ یہی تو وہ بنیادی زیور ہے جو اچھائی اور برائی کی وضاحت کرتا ہے۔ یہی تو ہے جو انسان کو اس کی حقیقت جانچنے پر فکر مند کرتی ہے، اس کو اپنی زندگی کا اصل مقصد جاننے پر مجبور کرتی ہے، تعلیم ہی تو ہے جو انسان کو اپنی زندگی گزارنے کا بہتر پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔
تعلیم ہی تو ہے جو آدمی کو اشرف المخلوقات بناتی ہے، یہی وہ تعلیم ہے جو انسان کو بزرگوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کرنے کا درس دیتی ہے، یہی تو لوگوں میں محبت، خلوص، دوستی اور امن پیدا کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ تعلیم لوگوں کو الفت کی ٹھنڈی چھاؤں کے سائے تلے آرام پہنچاتی ہے، اسی تعلیم کے نہ ہونے سے ہی تو نفرت کے انبار جنم لیتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آج ہم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر بھی خلوص و محبت کی بجائے ناراضگی، نفرت، حسد اور کینہ جیسی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
حالانکہ تعلیم ہی واحد چیز ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی اور فلاح و بہبود کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہے، آج ہم اگر شہرت کے آسمانوں کو چھو رہے ہیں تو اس کے پیچھے تعلیم ہی ہے، اسی تعلیم نے ہم میں یہ شعور پیدا کیا کہ ہم زمین میں چھپے خزانوں کو بروئے کار لا کر انسانیت کو سکھ پہنچا سکیں، اسی کی بدولت ہی ہم جنگلوں میں زندگی گزارنے کی بجائے شہروں اور قصبوں میں بلند و بالا پر سکون زندگی جی رہے ہیں، اسی نے تو ہماری پوری کی پوری دنیا کو گلوبل ویلج میں تبدیل کیا ہے۔
اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اس تعلیم کے حقیقی مقصد کو ہی فراموش کر چکے ہیں۔ آج تو ہماری تعلیم کا اصل مقصد کچھ اور ہی بن چکا ہے۔ ہماری تعلیم کا اصل مقصد شعور و آگاہی، تہذیب اور تمیز تو قطعا ہی بی نہیں بچا۔ آج ہم نے اس تعلیم کے اصل معانی کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے، ہمیں تعلیم کے حقیقی مقاصد سے تو اب بالکل بھی کوئی غرض نہیں رہی، نہ ہی تربیت سے کوئی مطلب ہے، ہماری تعلیم کے مقاصد ہی مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔
آج ہم تعلیم کی ضرورت تو درست طور سمجھ رہے ہیں مگر اس کے اصل معنی اور مقصد سے پوری طرح لاعلم ہیں، آج ہمارا مقصد صرف اور صرف ڈگری کا حصول رہ گیا ہے۔ ہماری تعلیم کا حقیقی مقصد صرف بہتر روزگار کی تلاش ہے، ہم آج تعلیم کو مختلف طبقات میں تقسیم کر چکے ہیں اور ان طبقات کے ساتھ بھی ہم نے روزگار جوڑ رکھے ہیں۔ آج تعلیم کو ہزاروں اقسام میں تقسیم در تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ان کے چناؤ میں بھی ہم بہت ہی سوچ وبچار سے کام لیتے ہیں، بار بار مشاورت کے بعد کسی ایک کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کی رائے لیتے ہیں کہ آیا کونسا شعبہ تعلیم میرے مستقبل کو چا ر چاند لگا سکتا ہے اور مستقبل ایک چمکتے سورج کی مانند بدل سکتا ہوں۔ ایسی ڈگری جو میری پوری زندگی کو دولت سے بھر کر رکھ دے۔ ایسی کونسی تعلیم ہوگی جس سے میں پوری زندگی عیش وعشرت سے گزار سکوں گا؟ ایسی کوئی تعلیم مل جائے جو مجھے پوری دُنیا سے زیادہ امیر بنا دے۔ مجھے کوئی ایسی ڈگری دلوا دی جائے جس کی بدولت میں بینک بیلنس کے ڈھیر لگا لوں، یوں اپنے مستقبل کو تابناک بنا لوں۔
ہم اس تعلیم کے حصول کے وقت بھی کچھ سیکھنے کی بجائے صرف اور صرف اچھے گریڈ یا اچھے نمبروں کے لئے زیادہ فکر مند رہتے ہیں۔ ہمیں ماضی بھول گیا کہ تعلیم و تربیت ہی تو ہے جس کی بدولت اسلام پوری دُنیا کے کونے کونے میں پھیلا۔ اسی تعلیم نے ہی انسان کو انسان بنایا تھا، اسی سے ہی طرف اجالے ہوئے، یہی وہ تعلیم تھی جس نے انسان کو اتنی ترقی دی تھی۔ اسی تعلیم نے انسان کو اس کی خودی کی پہچان دی تھی۔ ہمیں اس کے حقیقی مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دینی اور دُنیاوی تعلیم کے حصول سے زیادہ اس کے معانی اور مقاصد کا حصول زیادہ اہم ہے۔ تعلیم ایمان بھی ہے، نظم و ضبط بھی، کردار بھی، یقین بھی، زندگی کا ربط بھی، تعلیم ہمت بھی ہے ، عزم و عمل بھی، بندگی بھی، رحمت بھی، لطف و فضل بھی، تعلیم تہہ سمندر بھی، خلا کی کہکشاں بھی، جو ستاروں سے آگے وہ جہاں بھی، تعلیم کھوج بھی ہے، فکر معاش بھی، زیر زمیں دفینوں کی تلاش بھی۔

آج بھی اگر ہمیں ترقی و خوشحالی چاہیے تو ڈگری کے کاغذ کی دوڑ کے بجائے آدمی سے انسان بنانے والی تعلیم و تربیت، شعور و آگاہی کو فروغ دینا ہو گا تا کہ ہم تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا صحیح استعمال کر سکیں۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارا دنیا کی ان اقوام میں شمار ہونا شروع ہوجائے گا جو جدید علوم سے مستفید ہوتے ہیں۔ ورنہ ایک اعلیٰ ڈگری ہولڈر اگر ادب و تہذیب سے نابلد نظر آتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ یہ ڈگری جوصرف کاغذ کا ٹکڑا ہے ٗ یہ تو ہماری عقل کے ساتھ انسانیت بھی کھا گئی!،،

اپنا تبصرہ بھیجیں