بےحس آواران

تحریر: جہانزیب عظیم
بے حس آواران میں لکھ رہاہوں، لیکن یقیناً بے حس علاقہ نہیں بلکہ اس کے باشندے ہوتے ہیں، جن کی پہچان وہ مخصوص علاقہ ہوتا ہے، اور آواران ہماری شناخت اور پہچان ہے ویسے تاریخ میں یہ علاقہ کولواہ کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن آج ضلع آواران ہے، میں بے حس آواران اس لکھ رہا ہوں کہ آواران کے باسی انتہائی بے حسی کا شکار ہیں، ویسے اس وقت مجموعی طور پر پورے بلوچستان کا یہی حال ہے، پوری قوم بے حس، بے بسی اور جبر کا شکار ہے کیونکہ گزشتہ بیس سالوں سے جاری جنگی اور تشدد کے ماحول سے حالات مختلف ہو چکے ہیں روز مرہ تشدد کے واقعات، ہلاکتیں، آپریشنز، کئی لوگوں کو غدار قرار دے کر ماراگیا، لوگوں کو اغوا کیا گیا، چوری قتل و غارت گری جیسے واقعات اب اگلی نسل کو منتقل ہورہے ہیں اس لئے اب یہاں عام بے بس و لاچار غریب عوام افسردہ، جبر اور بے بسی کا شکار تو ضرور ہوگی، اور اس خوف کے ماحول میں ہر شخص مختلف قسم کے ذہنی امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں، کیونکہ وہ ان حالات و واقعات کو مقابلے کرنے کی سکت نہیں رکھ سکتے ہیں،
لیکن میں آواران کے حوالے سے جو بات لکھنا چاہ رہا ہوں وہ یہ کہ آواران کے عوام، سیاسی ،سماجی و قبائلی، مزہبی شخصیات اس حد تک خوف کا شکار ہیں کہ وہ اپنے آئینی حقوق سے محروم اور بے حس ہو چکے ہیں وہ اپنے علاقے میں بنیادی ضروریات زندگی کے سہولیات کے بارے میں بات کرنے اور مطالبے کرنے سے ڈر جاتے ہیں، یہ حقیقت ہے ان پندرہ، بیس سالوں میں جاری انسرجنسی میں آواران بری طرح متاثر ہو چکی ہے اور آواران اس کا مرکز بھی رہا ہے، اس لئے یہاں کے لوگوں نے بہ نسبت باقی علاقوں کے ذیادہ خوف کے ماحول میں ذندگی گزاری ہے، اتنی خوف اور بے حسی ہے کہ اپنے علاقے میں اگر سڑکوں کی ابتر صورت حال دیکھتے ہیں، لیکن اس کے لئے وہ نہ نمائندوں سے بات کر سکتے ہیں، نہ اخباری بیان جاری کرسکتے ہیں، نہ احتجاج اور ریلی نکال سکتے ہیں،
حالانکہ ہر طبقہ ہر شخص بشمول طلباء، سیاسی و سماجی شخصیات، مذہبی و قبائلی شخصیات کو آپ آواران کے سڑکوں کی حالت زار کے بارے میں گریہ و زاری کرتے سنتے ہیں، ہر گھر، تعزیت، دیوان و مجلس کا موضوع آواران کی تباہی و سڑکیں ہیں،
لیکن یہی شخصیات کیوں یہی مسائل کے حل کیلئے عوامی اجتماعات منعقد نہیں کرتے، کیوں انہی آئینی حقوق کیلئے ہر امن جلسہ، ریلی نکالی کر حکمرانوں اور نمائندوں کے سامنے اپنے مطالبات پیش نہیں کرسکتے، انہی مطالبات کو پریس کانفرنس کے زریعے حکام بالا اور دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟
علاقے میں سینکڑوں بے روزگار نوجوان ہیں پڑھے لکھے ہیں، لیکن ان پڑھ اور نااہل، من پسند لوگوں پر سرکاری نوکریوں کی بندر بانٹ پر کیوں آواز نہیں اٹھاتے، کیوں حق تلفیوں پر بے حسی اور خاموش ہوتے ہیں، ان ناانصافیوں کے خلاف اپنا آئینی حق کیوں استعمال نہیں کرتے؟
صحت، پانی، تعلیم سارے محکمے تباہی کے شکار ہیں، سینکڑوں اسکولوں کی عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں، بچے چھت سے محروم ہیں، اساتذہ اپنے مرضی کے مطابق کاروبار کر رہے ہیں اور تنخواہ وصول کر رہے ہیں، ایک اندازے کے مطابق اس وقت ضلع آواران میں 176 سے ذیادہ سکولز اسٹاف اور سہولیات کے فقدان کے باعث بند ہیں، کلسٹر بجٹ لاکھوں کے حساب سے منظور ہونے کے بعد ہڑپ کئے جا رہے ہیں، اساتذہ ڈیوٹی نہیں دیتے، اپنے بچوں کی بہتر مستقبل کیلئے اور ان کی پڑھائی کیلئے اس وقت حب، کوئٹہ و کراچی میں موجود ہیں، کسی کو جوں تک نہیں رینگتی، کوئی پوچھنے والا نہیں، کیونکہ ان اساتذہ کو بھر پور سیاسی سپورٹ حاصل ہے،
لیکن عام عوام، سیاسی، سماجی شخصیات اپنے بچوں اور علاقے کے مستقبل سے وابستہ اس اہم مسئلہ پر کیوں بے پرواہ اور بے حس ہیں؟
خاص کر علاقائی سیاسی اپوزیشن جماعتیں بھی اس سنگین مسلے پر توجہ نہیں دیتے، شاید ایک وجہ یہ ہے کہ اس مسلے کے بنیادی سبب غیر حاضر اساتذہ ان سب پارٹیوں کے درمیان ورکرز کی شکل میں موجود ہیں، ورنہ تمام سیاسی جماعتوں کو باقی ضروری مسائل کے ساتھ ساتھ تعلیم،سکول اور غیر حاضر اساتذہ کے مسلہ کو اپنے اپنے پارٹی ایجنڈوں اور ترجیحات میں سرفہرست میں شامل کر لینا چاہیے،
کیوں کہ اس پارٹیوں کا مستقبل بھی انہی تعلیم اداروں سے وابستہ ہے، اگر تعلیمی نظام تباہ ہوگی، شعور آسمان سے نازل نہیں ہوگی، شعور یافتہ سماج پیدا کرنے کیلئے تعلیمی ادارے مضبوط کرنے چاہیے، تاکہ ایک پڑھا لکھا سماج وجود میں آجائے، تاکہ وہ پڑھ سکے خود کو اور دنیا کو اور شعور یافتہ بن جائے، تب وہ اپنے ملک و قوم اور سماج میں ایک جہاندیدا اور قابل انسان میں تبدیل ہوجاتا ہے. اور جب انہیں دانستہ طور پر کوئی محروم رکھتا ہے یا ان کا حقوق ان سے چھین لیتا ہے، تب وہ نظریاتی طور پر ایک رہنما، یا جہدکار بن کر اپن حقوق کا دفاع کرنے کے قابل ہو جاتا ہے، وہ کسی جماعت کا جانثار کارکن بن سکتا ہے وہ کسی پارٹی کا اثاثہ بن سکتا ہے، وہی پارٹی اور ادرے پھر ایک نظریہ پر کاربند رہ سکتے ہیں.
ورنہ تباہی ہمارا ہر قدم پر استقبال کریگی، اور پورا سماج معمولی مراعات کیلئے مکار حکمرانوں کیلئے دستیاب ہوگی، اور علاقہ، وطن اور قوم کو ذندہ رکھنے کے بجائے ہم وطن پر صرف بوجھ بن سکتے ہیں اس کے باوقار شہری نہیں.
آواران انفراسٹرکچر کے حوالے سے واقعی تباہ حال علاقہ تھا اور ہے بھی یہاں بنیادی ضروریات زندگی کے سہولیات میسر نہیں ہیں، لیکن یہاں آوران نے اپنے بطن سے نامور سیاسی، ادبی، قبائلی اور ششک جیسے سرداروں کی جبری ٹیکس کے خلاف مزاحمتی شخصیات جنم دے چکی ہے، ان نمایاں شخصیات
میں سے غوث بخش بزنجو جیسے باصلاحیت اور جمہوریت پسند لیڈر، اسلم گچکی جیسے مزاحمتی رہنما شام ہیں، آواران نے آدم حقانی جیسا نامور شاعر پیدا کیا جنکی شاعری کا مجموعہ ” درون ” قوم و سرزمینِ اور وطن سے دوستی اور محبت کا درس دیتی ہے، اور ان مجموعہ میں تاریخی واقعات پر کئی شعر موجود ہیں جو ہمیں گزشتہ دور کے سیاسی واقعات، خشک سالی، آبادی سمیت مختلف ادوار سے روشناس کراتے ہیں،
آواران نے میر عبدالکریم اور آدم جان جیسے مزدور کسان رہنما بھی پیدا کئے جنہوں نے سرداروں کے جبری ٹیکس "ششک” کے خلاف تحریک کو لیڈ کیا، بد قسمتی سے ان کے سیاسی وارثوں نے ناکام سیاسی پالیسیوں سے آواران کو آج پسماندہ اور تباہ حالی تک پہنچایا ہے اور عام عوام اور علاقے کے بہتری کے بجائے چند شخصیات،معتبرین اور ٹھیکیداروں کی ضروریات پورا کرکے حکمران بنتے آرہے ہیں، اس کے علاوہ کئی نامور شخصیات ہیں جو تاریخ کے بابوں کے حصے ہیں.
لیکن کیا ہوگیا آج آواران اپنے ہمسایہ علاقوں اور باقی بلوچستان کے حالات واقعات سے بے خبر، اور لاپرواہ اور بے حس بن چکا ہے، آواران آج بنیادی سہولیات سڑکیں، سکول، کالج،یونیورسٹی ،پانی و دیگر آئینی حقوق سے محروم ہے، لیکن اس حد تک خوف، کہ ہم اپنے آئینی و قانونی حقوق کے مطالبے اور اس کیلئے آواز اٹھانے اور بات کرنے سے گریزاں ہیں، ریاست پاکستان کا آئین آپ کو اپنے بنیادی حقوق تعلیم، روزگار، صحت، سڑکوں کا برابر حقوق مانگنے کا حق دیتا ہے، تو ہم کیوں حکمرانوں اور نمائندوں کے سامنے اپنے جائز مطالبات پیش کرنے سے خوفزدہ ہیں، کیوں ہم اپنے سڑکوں، تعلیمی زبوں حالی، کالج اور یونیورسٹی کیلئے، روزگار کے مواقع، اور دیگر مسائل ہر کیوں خاموش ہیں، کیوں ان مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے متعلقہ حکام، حکمران، نمائندے اور حکومت وقت کے سامنے پرامن احتجاج، ریلی، میٹنگز، اور دوسرے سیاسی طریقے استعمال کرنے سے گریزاں ہیں،
کیوں آواران کے بنیادی درپیش مسائل کی حل کیلئے آل پارٹیز اتحاد نہیں بنا سکتے؟
کیا ہم اسی طرح بیٹھ کر کسی موسی کے آنے کا انتظار کرینگے؟