انقلاب کی دستک

تحریر: انورساجدی
عمران خان جتنے دلیر حکمران ہیں ان سے پہلے واحد دلیر حکمران جنرل یحییٰ خان گزرے ہیں 1970ء کو جب رباط میں پہلی اسلامی کانفرنس ہوئی تو صحافیوں نے یحییٰ خان سے پوچھا کہ بحرہند کو پرامن رکھنے کے بارے میں آپ کا کیا پلان ہے تو وہ ناراض ہوگئے اور کہا کہ اگر آپ کے خیال میں ہمارا سمندر بحرہند ہے تو پھر آپ جاکر انڈیا سے بات کریں حال ہی میں حقانی نیٹ ورک پر امریکی اعتراضات کے جواب عمران خان نے فرمایا کہ حقانی افغانستان کا بڑا قبیلہ ہے اس پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے حالانکہ یہ بات بچہ بچہ جانتا ہے کہ حقانی گروپ وہ طالبان ہیں جو جامع العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل ہیں ایک مرتبہ کہا کہ جاپان اور جرمنی ہمسایہ ہیں یحییٰ خان سے صحافیوں نے شیخ مجیب کی گرفتاری کے بارے میں سوال پوچھا تو انہوں نے کہا کیا شیخ اخبار نویسوں کا ماموں ہے کوئی اور سوال نہیں ہے جوایک غدار کے بارے میں دریافت کررہے ہیں یہ تو نہیں کہاجاسکتا کہ چند اتفاقات کے سوا یحییٰ خان اور عمران خان میں کوئی مماثلت ہے لیکن دونوں کی دلیری ایک مانند ہے خان صاحب کسی سے ڈرتے ہیں نہ گھبراتے ہیں عوام کا ڈر تو سرے سے ان کے اندر موجود ہی نہیں ہے اس کی وجہ ان کا وہ اعتماد ہے جو سمجھتے ہیں کہ عوام ہر حال میں ان کے ساتھ ہیں چاہے تیل کی قیمت2سو روپے فی لیٹر مقرر کردیں چینی ڈیڑھ سو روپے کلو ہوجائے آٹے کی قیمت سو روپے ہوجائے پھر بھی عوام عمران خان کے ساتھ ہیں کیونکہ عوام کے سامنے اور کوئی چوائس نہیں ہے عمران خان کی حمایت ان کی مجبوری ہے ایسا دلیر حکمران بھلا اور کون ہوسکتا ہے جو ایک ہی رات میں بجلی اورتیل کی قیمتوں میں بہ یک وقت اضافہ کردے۔
ایک ہفتہ قبل سمری کے مسئلہ پر ایک ہیچان پیدا ہوا تھا تو انہوں نے اپنی پارلیمانی پارٹی سے کہا تھا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے وہ سب کچھ ٹھیک کردیں گے سنا ہے کہ اس وقت پارلیمانی اراکین کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور وہ کہیں اور پناہ تلاش کرنے کا سوچ رہے تھے جس طرح انہیں عوام کا ڈر نہیں ہے اسی طرح انہیں مقتدرہ اداروں کا بھی خوف نہیں ہے ان واقعات کے بعد کئی لوگوں کو پکا یقین ہوچکا ہے کہ عمران خان جس تبدیلی کی نوید سنارہے تھے اس کا وقت آچکا ہے جس طرح انہوں نے اپوزیشن کو ادھ موا کرکے چھوڑا اسی طرح اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کا وہ ڈٹ کر مقابلہ کریں گے چاہے وہ جتنا طاقتور کیوں نہ ہو کہا جاتا ہے کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ پارلیمنٹ میں آکر صورتحال سامنے رکھیں گے اور اس کے بعد پارلیمنٹ توڑنے کی دھمکی دیں گے دھمکی کیا بلکہ پارلیمنٹ توڑدیں گے وہ انتخابی مہم کے دوران عوام کو سڑکوں پر لاکر ایسے مقامات پر دھرنا دیں گے کہ جس کے بارے میں کسی نے سوچا نہ ہوگا البتہ اس بات کا خطرہ رہے گا کہ ان کے اراکین انہیں چھوڑدیں یگے انہیں اس کی فکر نہیں ہوگی کیونکہ عوام تو ان کے ساتھ ہونگے۔
عمران خان کی حالیہ تحریک کا مطالعہ کیاجائے تو انہوں نے مخالفین کیخلاف دشتام طرازی اور لفظوں کی ایسی گولہ باری کی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی انہوں نے شریف خاندان زرداری محمود خان اور مولانا کو ایسے القابات دیئے جو کانوں نے پہلے نہیں سنا تھا اسی طرح ان کی سوشل میڈیا ٹیم نے کسی کو نہیں بخشا لیکن اب جبکہ ان پر جوابی حملے ہورہے ہیں تو کہا جارہا ہے کہ گھروں پر حملے غیر اخلاقی ہیں حال ہی میں مریم نواز نے جنات اور جنتر منتر کی بات کی تو شہباز گل نے جواب دیا کہ لندن رقومات چڑیل لے گئی تھی اگرپاکستانی سیاست جنات اور چڑیلوں تک پہنچ گئی ہے تو آگے ”دیو“ بھی آئیں گے اور عین ممکن ہے کہ وہ جنات اور چڑیلوں پر بھاری پڑجائیں۔
ابتک سیاسی مبصرین کے تمام اندازے غلط نکلے ہیں وہ کپتان کو ایک تابع فرماں اور شریف بچہ سمجھتے تھے یہ سارا کچھ غلط ثابت ہورہا ہے وہ بازی پہ بازی کھیل رہے ہیں اور شائد آخری گیند پر آخری بازی بھی کھیل جائیں یہ کام تو بہت پرخطر اور رسک والا ہے لیکن کیا کرے اور کوئی راستہ اور چارہ نہیں ہے وزیراعظم بننے کے بعد انہیں معیشت کی تباہ کاریوں کا علم نہیں تھا اب جبکہ وہ پھنس چکے ہیں تو ان کے وزیر اور مشیر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ تیل اور بجلی کی قیمتیں سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بڑھانا پڑرہی ہیں۔انہوں نے عمران خان سے ایسی تربیت حاصل کی ہے کہ کوئی بات اپنے اوپر لینا نہیں ہے ہرچیز کی ذمہ داری زرداری اور نوازشریف پر ڈالنا ہے مجال ہے جو کوئی وزیر اور مشیر کسی بھی خرابی کی ذمہ داری قبول کریں عمران خان کی دلیری کا یہ عالم ہے کہ ہرنازک اور حساس بات برملا کہہ دیتے ہیں اور وہ بات ان کے جاسوس وزیر اور مشیر آگے پہنچادیتے ہیں انہوں نے فوج میں حالیہ ٹرانسفر اورپوسٹنگ روک کرکمال کی دلیری دکھائی ہے اس ادارے نے آج تک ایسی صورتحال نہیں دیکھی لیکن کپتان اتنے طاقتور ہیں کہ ان کا لاڈ پیار برداشت کیاجارہا ہے ان کی ہمت کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ انہیں قومی اسمبلی میں اکثریت بھی حاصل نہیں ہے پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی اقلیتی حکومت قائم ہے لیکن پھر بھی کپتان کو کوئی فکر نہیں ہے مثال کے طور پر اگر دو اتحادی حکومت سے الگ ہوجائیں تو مرکز اور پنجاب کی حکومت ایک منٹ میں گرسکتی ہے لیکن کپتان کوکوئی خوف نہیں ہے وہ جانتے ہیں کہ وقت بدل چکا ہے ان کیخلاف کچھ بھی کرنا آسان نہیں ہے اس صورتحال میں اگر کسی کو پریشانی ہے تو وہ پنڈی کے شیخو جی ہیں انہیں نالہ لئی کے منصوبے نے ابھی تک روک رکھا تھا لیکن بزدار نے گزشتہ روز اس کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے اب وہ ہر طرح کی فکر سے آزاد ہوگئے ہیں حتیٰ کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر انہوں نے لوگوں کے دھکے بھی کھائے لیکن فوری طور پر اپنی وگ کے بال سیدھے کرکے کابینہ کے اجلاس میں پہنچ گئے غالباً کابینہ کے دیگر وزراء نے کسی بھی بات کی پرواہ نہ کرنے کا ہنر شیخ صاحب سے سیکھا ہے شیخ صاحب صحیح معنوں میں مرغ بادنما ہیں اگر اس حکومت کی حالت پتلی ہوگئی تو سب سے پہلے اس سے علیحدگی کا اعلان وہی کریں گے اور ان کی ڈھیر ساری وجوہات بھی تراش لیں گے گزشتہ ہفتہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ اور امران (عمران)ساتھ آئے تھے اور ساتھ ہی جائیں گے لیکن شیخ جی نہ جونیجو کے ساتھ ٹھہرے نہ ق لیگ کا ساتھ دیا اور نہ ہی مشرف سے وفا کی جب دیکھا کہ کشتی ڈوب رہی ہے تو سب سے پہلے چھلانگ لگادی اب تو ویسے بھی عمر کا چل چلاؤ بھی ہے قویٰ اتنے مضبوط نہ رہے حتیٰ کہ لال حویلی کی رونقیں بھی ماند پڑگئی ہیں اچھا ہے کہ فتح جھنگ میں ٹھکانہ بنالیاہے ورنہ راجہ بازار میں ن لیگ کے متوالے روز سنگ زنی کرتے رہیں گے اور شیخ صاحب کیلئے نکلنا ممکن نہ ہوگا خدا خیر کرے باقی وزراء کا تو اس سے بھی براحال ہونیوالا ہے یہ جوترجمان اور مشیر ہیں انہوں نے ضرور کوئی اور جائے پناہ تلاش کرلی ہوگی شہزاداکبر اور شہبازگل ضرور ولایت سدھاریں گے اگرکپتان تمام مخالفین اور طاقتور اداروں کو زیر کرکے انقلاب لانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر وہ ایک مختلف حکمران نظرآئیں گے حتیٰ کہ انہیں الیکشن کروانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی ہٹلر تو پہلی دفعہ الیکشن کے ذریعے آئے تھے اس کے بعد کبھی الیکشن نہیں ہوئے اسی طرح مسولینی کونسا الیکشن کے ذریعے آئے تھے اگر کپتان لاکھوں لوگ راولپنڈی میں جمع کرکے ایک انقلابی حکومت کا اعلان کریں تو کس میں جرأت ہوگی جو ان کے سامنے آئے بس واحد فکر پیرانہ ساکی کی ہے کہ کہیں طاقت جواب نہ دے جائے اگر انقلاب کو نقصان پہنچا تو اسی وجہ سے پہنچے گا
مجھے تو فکر کھائے جارہی ہے کہ اگر کپتان کو نوازشریف اورزرداری کی طرح اٹک اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل میں وقت گزارنا پڑے تو اس وقت کیا ہوگا ن جیلوں کے علاوہ مچھ میانوالی اور منٹمری کی جیلیں بھی بہت سخت ہیں ایوب خان اور یحییٰ خان نے مخالفین کو ان جیلوں کو سیر کرائی تھی جوانگریزی نے خطرناک مجرموں کیلئے بنائی تھیں منٹگمری میں نواب اکبر خان شہید اور میانوالی کی جیل میں شیخ مجیب الرحمن کو رکھا گیا
ایک تو اس ریاست کا دستور ہے کہ جو کوئی بھی تخت سے اترے تو سیدھے زندان پہنچ جاتا ہے اس سلسلے میں زرداری اور نوازشریف کی مثالیں سامنے ہیں موجودہ حکومت کے دور میں بھی بے شمار اسکینڈل بنے ہیں اور یقینا اس حکومت کے اہم لوگ ان جیلوں میں سے کسی کی ذینت ضرور بنیں گے ایک بڑا مقدمہ توشہ خانہ کا ہے جس کے قیمتی تحائف موجود نہیں ہیں اگر یوسف رضا ابھی تک کیس بھگت رہے ہیں تو موجودہ حکمران بھی ضرور بھگتیں گے موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان کا آٹا تاجکستان تک جارہا ہے یہ بھی تو ایک کیس بنتا ہے حکومت سے خود ہی چینی کی قیمت65روپے سے115تک پہنچائی اس کے بارے میں بھی پوچھا جائیگا حکومتی وزراء جیل جائیں نہ جائیں وہ ایک عدالت سے دوسری عدالت میں دھکے کھاتے ہوئے نظرآئیں گے حکمرانوں کی دلیری اس وقت سامنے آئے گی جب وہ تخت سے اتریں یا ان کا دھڑن تختہ ہوجائے ہٹلر کی طرح چاروں طرف محاذ کھولنے کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ ہے دائمی شکست
باقی بندہ خود سمجھدار
اور ایماندار ہے
وہ کبھی گھبراتا نہیں ہے
اور آخری گیند تک لڑتا ہے
اس بات کی آزمائش زیادہ دور نہیں ہے۔