ضرب عضب

تحریر: انورساجدی
1988ء میں جب جنرل ضیاؤ الحق نے محمد خان جونیجو کو برطرف کیا تھا تو اس وقت صدر کے پاس آئین کا آرٹیکل 58 ٹوبی کا اختیار صدر کے پاس تھا اسی طرح1990ء میں غلام اسحاق خان نے بینظیر اور1993ء میں نوازشریف کو اسی اختیار کے تحت گھر بھیج دیا تھا جبکہ سردار فاروق لغاری نے صدارتی اختیار استعمال کرکے1996ء میں اپنی ہی حکومت اوروزیراعظم کر برخاست کیا تھا۔
لیکن خدا بھلا کرے آصف زرداری کا کہ انہوں نے18ویں ترمیم کے تحت حکومتوں کو برطرفی کاصدارتی اختیار ختم کردیا تب سے نہ صدر کو مرکزی اور نہ ہی گورنروں کو صوبائی حکومتوں کے خاتمہ کا اختیار ہے
اگرپانامہ پیپرز کے آنے کے وقت یہ اختیار باقی ہوتا تو نوازشریف کو ہٹانے کیلئے اتنا ڈرامہ نہ کرنا پڑتا بلکہ صدر سیدھا58ٹوبی کااستعمال کرکے انہیں گھر بھیج دیتا لیکن اختیار نہ ہونے کی وجہ سے لمبا چوڑا کھیل کھیلنا پڑا عدالتوں کا سہارا لینا پڑا اور ایک نقطہ ڈھونڈ کر اقامہ کے تحت انکوسزا دی گئی۔یہ جو اس وقت کپتان شیر ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ماورائے آئین اقدام یا مارشل لاء کے بغیروزیراعظم کو ہٹانے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے عمران خان جانتے ہیں کہ یہ مارشل لاؤں کا دور نہیں ہے اس لئے ان کی حکومت کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے البتہ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کا خاتمہ ممکن ہے لیکن حالات اس نہج پر نہیں پہنچے کہ عدم اعتماد کی تحریک کی نوبت آئے حالانکہ اگر دو اتحادی ساتھ چھوڑدیں تو یہ کام بہت آسان ہوجائے گا۔
سیاسی عناصر کو حیرانی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ خان صاحب اتنی دلیری دکھارہے ہیں اور انہیں کوئی خوف اور ڈر نہیں ہے اس کی ضرور کوئی وجہ ہوگی جس کاعلم خود خان صاحب یا علم الاعداد کے ماہرین کو ہوگا باقی لوگ تو صرف قیاس آرائیوں سے کام لے رہے ہیں خیالی گھوڑے دوڑارہے ہیں اسی طرح متجارب قوتیں بھی کچھ سوچ رہی ہونگی لیکن وہ بھی خاصاً پوشیدہ ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی سویلین وزیراعظم اور فوج کے درمیان اس طرح کی صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی۔1988ء میں البتہ بینظیر نے وزیراعظم بننے کے بعد جنرل اسلم بیگ سے کہا تھا کہ جنرل حمید گل انہیں قبول نہیں ہے کیونکہ وہ رجعتی جہادی عناصر کے نمائندہ ہیں اور وہ منتخب حکومت کو چلنے نہیں دیں گے چونکہ ضیاؤ الحق کا قتل تازہ تازہ ہوا تھا اس لئے جنرل اسلم بیگ اس کے اثرات سے باہر نکل نہیں پائے تھے اس لئے بینظیر کے کہنے پر جنرل شمس کلو کو آئی ایس آئی کا نیا سربراہ مقرر کرنا پڑا البتہ1990ء میں جنرل اسلم بیگ نے اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرلی اور اعجاز الحق کے واویلے کو نظرانداز کرکے بینظیر کیخلاف آئی جے آئی بنوانے میں کامیاب ہوگئے ان کی سفارش پر صدراسحاق نے حکومت بھی برطرف کردی تھی نئے انتخابات میں آرمی چیف نے کسی خوف وخطر کے بغیر14کروڑ روپے یونس حبیب سے لیکر آئی جے آئی کے رہنماؤں میں تقسیم کردی یہ الزام سپریم کورٹ میں ثابت ہوچکا ہے یاد رکھنے کی بات ہے کہ جنرل کلو بینظیر کی خاص مدد کرنے میں ناکام رہے البتہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی میں آئی بی نے اہم کردار ادا کیا تھا یہ پرانے دور کی پرانی باتیں ہیں 18ویں ترمیم نے ایسے اقدامات کیخلاف مضبوط بند باندھ رکھا ہے اس کے باوجود جب تصادم کی فضا ہو دو فریق آمنے سامنے ہوں تو کسی کو فتح اور کسی کو شکست لازمی طور پر ہوتی ہے۔
اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کو سوا تین سال پورے ہوچکے ہیں تو کیا پتہ کپتان نے سوچا ہو کہ کوئی بڑی گیم کھیلی جائے یا بڑا جوأ کھیلا جائے اس کا نتیجہ آر ہو یا پار کوئی فرق نہیں پڑتا اگر ان کی ضد عارضی ہے اور عید میلادگزرنے کے بعد وہ تقرریوں کی سمری پر دستخط کردیں تو معاملہ زیادہ نہیں بگڑے گا اگر انہوں نے ناں کردی اور اس سے بڑی تبدیلیوں کا سوچاتو اصل کھیل اسی وقت شروع ہوجائیگا اس نئے کھیل میں عمران خان اکیلے ہونگے اور شائد ہی کوئی ساتھ دینے والا ہو حتیٰ کہ ان کے وزراء اور اراکین اسمبلی بھی کھسکنے لگ جائیں گے اگرایسا نہ ہوا تو بھی اپوزیشن ساتھ نہیں دے گی بلکہ مولانا مریم اور بلاول تو علی الاعلان اپنا کندھا پیش کرچکے ہیں یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے 1990ء کی دہائی میں کبھی نوازشریف بینظیر کے خلاف اور کبھی بینظیر نوازشریف کیخلاف متجارب قوت کے ساتھ صف آرا ہوتی تھیں پاکستانی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے پرانی روایت ابھی تک قائم ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ مریم کے بقول کپتان خودکش حملہ جیسے انتہا پسند اقدام تک کیسے آئے ہیں۔
اس وقت جو صورتحال ہے اس کے بارے میں سارے لوگ بے خبر ہیں حتیٰ کہ وفاقی پایہ تخت کے صحافی بھی ادھر ادھر کی ماررہے سینکڑوں یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے شاہ سوار بھی صرف افواہیں پھیلارہے ہیں مثال کے طور پر کہاجارہا ہے کہ کپتان آخری داؤ کے طور پر بہت بڑی تبدیلیاں لائیں گے اعلیٰ ترین عہدیداروں کو سبکدوش کردیں گے اس سلسلے میں انہوں نے آئینی ماہرین سے صلاح ومشورے مکمل کرلئے ہیں۔
معلوم نہیں کہ یہ ماہرین کون ہیں جہاں تک وزیرقانون فروغ نسیم اور پارلیمانی امور کے وزیرمسٹر محمدظہیر الدین بابر کا تعلق ہے تو وہ مرغ بادنما ہیں ان کا حلقہ انتخاب بھی راولپنڈی سے وابستہ ہے البتہ اٹارنی جنرل خالد جاوید جو پروفیسر این ڈی خان کے فرزند ہیں اور غیر جانبداری سے کام کررہے ہیں وہ مشورہ مانگنے پر آزادانہ رائے دے سکتے ہیں ان کے علاوہ چوہدری اعتزازاحسن بھی صحیح آئینی پوزیشن سمجھا سکتے ہیں ان کے علاوہ اور کوئی مشورہ دینے والا دکھائی نہیں دے رہا لیکن کیا بعید کہ حساس قسم کے مشورے ولایت میں موجود پاکستانی آئین کے ماہرین سے لئے ہونگے۔
کپتان کو یقین ہے کہ اگر انہوں نے انتہائی قدم اٹھالیا تو کوئی ماورائے آئین کارروائی تو ہونے سے رہی جب تک ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک آئے وہ نئے دوستوں کے ساتھ مل کر معاملات کو سنبھال لیں گے۔
اگر وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوئے تو بڑی واہ واہ ہوگی کہاجائیگا کہ کپتان نے جمہوریت اور پارلیمان کی لاج رکھ لی ہر طرف سے مبارک سلامت کے نعرے بلند ہونگے لوگ مہنگائی اور بیروزگاری کو بھول جائیں گے اور آنکھیں بند کرکے اپنے لیڈر کا ساتھ دیں گے۔
اور اگر
وہ جوأ ہار گئے تو اپنے محل بنی گالا میں جائیں گے وہ اسمبلیاں بھی توڑ سکتے ہیں اور نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں زیادہ سے زیادہ الیکشن ہارجائیں گے یا2013ء والی پوزیشن پر آجائیں گے 25-30نشستوں کے ساتھ حزب اختلاف کی بنچوں پر بیٹھ جائیں گے زیادہ سے زیادہ ان کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو زرداری اورنوازشریف کے ساتھ ہوا چند اسکینڈلوں کو لیکر ان کیخلاف کرپشن کے مقدمات بنیں گے توشہ خانہ کے تحائف ہڑپ کرنے اور بنی گالا کے محل کوناجائز طور پر ریگولرائز کروانے پر نیب کے ریفرنسوں کا سامنا کریں گے کچھ عرصہ جیل بھی جاسکتے ہیں اس کے بعد ان کی ضمانت ہوگی اور وہ ہر جگہ کہتے پھریں گے کہ مخالفین نے ان کیخلاف سازش کی چوروں نے مل کر حکومت چلنے نہ دی وغیرہ وغیرہ کیس تو آج تک زرداری اور نوازشریف کیخلاف بھی کوئی ثابت نہ ہوسکا عمران خان کیخلاف بھی نہیں ہوگا۔
اگر نازوں سے پلے کپتان زیادہ تنگ آگئے تو کسی نہ کسی طرح ولایت جائیں گے جہاں ان کے تین بچے ان کے منتظر ہیں زندگی کے باقی ایام وہ ولایت میں گزاریں گے ایک شاندار کتاب لکھیں گے بڑے بڑے انکشافات کریں گے لندن کے نواح میں بڑے بڑے محلات بڑے سستے مل جاتے ہیں جیسے کہ سرے محل جہانگیر ترین کا پیلس اور علیم خان کا کاسل صرف30-30لاکھ پاؤنڈ میں ملے کپتان کو بھی10ایکڑ والا کوئی محل 50لاکھ پونڈکی قیمت میں مل جائیگا جہاں وہ اپنے پرندے اور پسند کے کتے بھی رکھ سکیں گے اپنے ملک میں لاکھ مقدمات ہوں برطانیہ تو کسی کو واپس نہیں کرتا کپتان بھی وہاں پر آسودہ حال زندگی گزارسکتے ہیں اپنے بچوں کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں ان کے ساتھ تفریح،لنچ اور ڈنر پرجاسکتے ہیں وہ لندن سے اچھی طرح واقف ہیں جب کپتان وہاں پر کرکٹ کھیلتے تھے تو صرف ولایتی کھانا ملتا تھا لیکن اب وہاں پر دنیا کے ہر ملک کا طعام موجود ہے جس کا وہ لطف اٹھاسکتے ہیں کیونکہ کپتان کو اپنے گھرپر بنا کھانا پسند نہیں ہے وزیراعظم بننے سے پہلے بنی گالا کے محل کا کچن بند رہتا تھا یہ بات ان کی دوسری اہلیہ ریحام نے اپنی کتاب میں بھی لکھی ہے ویسے بھی70سال عمر کے بعد آرام کرنا اور مہم جوئی ترک کرنا ضروری ہوتا ہے اور وہ باقی ماندہ وقت ایک سے زائد کتابیں لکھیں تو ان کے لئے اچھا ہوگا بہر حال پاکستان میں ایک فیصلہ کن مرحلے کاآغاز ہوا چاہتا ہے دسمبر تک بڑی بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے کا امکان ہے اگر کپتان نے2023ء تک اپنی مدت پوری کرلی تو یہ ایک معجزہ ہوگا اسی طرح اگر انہیں مزید ایکسٹینشن دینے کی بجائے نئی تقرریاں کا موقع ملا تو یہ ایک اور معجزہ ہوگا لیکن بخوبی بہت ہی کڑا وقت آنے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں یہ کڑا وقت کس کیلئے ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا البتہ پاکستانی عوام کو سخت تکالیف اور مصائب جھیلنا پڑیں گے مستقبل قریب میں ان کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں