اگرخان صاحب کو دیوار سے لگاگیا تو؟

تحریر: انورساجدی
کپتان اور جن کے درمیان گشتہ چارسالوں میں جورومانس چل رہاتھا وہ ختم ہوگیا ہے جو ایک پیج تھا وہ پھٹ گیا ہے اس پر کون کون چسپاں ہوگا یہ تو چند ہفتوں یا چندماہ کے دوران معلوم ہوجائیگا فی الحال کپتان کو بہت رنج وقلق ہے انہیں وزیراعظم کے محدود اختیارات پر غصہ آرہا ہے کبھی کبھار رونا بھی آتا ہے انہوں نے چند روز قبل عالم اسلام کے عظیم جرنیل خالد بن ولید کی برطرف کا تذکرہ کیا کافی لوگ سمجھتے تھے کہ ”یہ بات برسبیل تذکرہ ہے“ اس کا کوئی خاص مقاصد یا موجودہ حالات سے تعلق نہیں ہے لیکن اسلام آباد میں سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خلفائے راشدین کے دور میں فوجی جرنیلوں کے میرٹ کا جوذکر کیا تو واضح ہوگیا کہ وہ ایک انقلابی بیانیہ بنارہے ہیں خان صاحب نے کہا کہ وہ لوگ اس لئے کامیاب ہوئے کہ جو لوگ اچھی کارکردگی دکھاتے تھے میرٹ پر خود بخود اوپر آجاتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ فی زمانہ ایسا نہیں ہے اس بات کو سن کر بعض مخالفین نے کہا ہے کہ خان صاحب خود کتنے میرٹ پر پورا اترتے ہیں جو انہیں وزیراعظم بنایا گیا وہ بھی اکثریت کے بغیر تجربہ کے بغیر ان کی کوئی خاص سیاسی جدوجہد بھی نہیں تھی بس جنرل مشرف کی نظر نیک پڑی ایک سیٹ کا انتظام کیا گیا۔اسی دوران انہیں 2011میں لانچ کیا گیا تاکہ وہ دوجماعتی نظام کا خاتمہ کرکے متبادل لیڈر کے طور پر آگے آئیں لیکن عوامی حمایت حاصل نہیں تھی اس لئے2013ء کے سرپرستوں نے فیصلہ کیا کہ پورا نظام چوپٹ کرکے ہر قیمت پر خان صاحب کو لانا ہے چنانچہ ان سے مشہور دھرنا دلوایا گیا عین دھرنے کے دوران ثالثی قبول کی گئی لیکن ایمپائر نے بوجوہ انگلی کھڑی نہیں کی خان صاحب کو آگے بڑھانے کیلئے پانامہ اسکینڈل لایا گیا اس میں چارسوافراد کے نام تھے لیکن صرف نوازشریف کو درس عبرت بنانے کا فیصلہ کیا گیا یہ مقصد حاصل ہونے کے بعد2018ء کے انتخابات میں خان صاحب کی کامیابی کو یقینی بنایا گیا لیکن عوامی حمایت کم ہونے کی وجہ سے اتنی کوششوں کے باوجود وہ اکثریت حاصل نہیں کرسکے اس کے باوجودہ مرکز اور پنجاب میں مانگے تانگے کی نشستوں کویک جا کرکے انہیں حکومت بناکردی گئی۔
خان صاحب نے وزیراعظم بنتے ہی نوے دن میں کرپشن کے خاتمہ کی نوید سنائی ایک کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھر بناکر دینے کا اعلان کیا عوام نے ان اعلانات کو بڑی پذیرائی بخشی۔خان صاحب پہلے دوسال میں بہت موج مستی میں تھے روز نخریہ انداز میں ایک پیج کا ذکر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مخالفین پیار کے اس تعلق سے حسد کاشکار ہیں لیکن آج سوا تین سال بعد
خان صاحب نے مسلسل ناکامیوں کے بعد ایک انقلابی لیڈر بننے کا فیصلہ کیا ہے وہ ریاست مدینہ کا بار بار ذکر کرتے ہیں یعنی وہ امیر المومنین یا خلیفہ بننا چاہتے ہیں وہ یاد دلاتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کس طرح دوران جنگ حضرت خالد بند ولید کو سپہ سالار کے عہدے سے برخاست کیا تھا وہ نہایت حسرت سے بتاتے ہیں کہ اس دور میں کس طرح جرنیل میرٹ پر اوپر آتے تھے اس سے ان کی یہ خواہش صاف جھلکتی ہے کہ وہ فوج کے تمام عہدوں پر تقرری خود اپنے ہاتھوں سے کرنا چاہتے ہیں لیکن وائے افسوس کہ رولز کے مطابق انہیں اس کا اختیار نہیں ہے۔
اسی دوران پی ٹی آئی کے ایک لیڈر نے سوشل میڈیا پر دھکی دی ہے کہ اگرعمران خان کو دیوار سے لگادیا گیا تو وہ ایساردعمل دیں گے جو آج تک کسی نے نہیں دیاہے-
البتہ انہوں نے واضح نہیں کیا کہ خان صاحب کا ردعمل کیا ہوگا لیکن اس سے پی ٹی آئی کے اندر کاردعمل ظاہرہورہاہے۔
عمران خان کس طرح کا ردعمل دیں گے اداروں سے کیسے ٹکر لیں گے اور عوام کو کیسے اپنے ساتھ ملائیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائیگا لیکن آثار بتارہے ہیں کہ ان کے دل میں جوہیجان ہے اور دماغ میں جو طوفان برپا ہے اس کو عملی شکل دینے کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ خان صاحب عوامی مقبولیت کے لحاظ سے بہت نیچے آئے ہیں وہ سیاسی اعتبار سے بھی خاصے کمزور ہیں پارلیمنٹ کے اندر ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے وہ زیادہ سے زیادہ نوازشریف کا بیانیہ اپنائیں گے لیکن کوئی پذیرائی نہیں ملے گی نوازشریف کی جماعت تو پھر بھی برقرار ہے لیکن تحریک انصاف کے آدھے سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ یہ بیانیہ سانے آنے کے بعد ادھر ادھر ہوجائیں گے ان کے ساتھ رہے تو وہ اہل یوتھ یعنی کارکن رہیں گے جو عمران ”کلٹ“ کا حصہ ہیں اورسمجھتے ہیں کہ عمران خان کو قطب ولی اوتار یامہاتما ہیں۔اگرعمران خان شدید ردعمل دیں تو کیا کرسکتے ہیں پارلیمنٹ میں آکر اپنے ساتھ تین سالہ زیادتیوں کی تفصیل بتائیں گے وزیراعظم کی بے اختیاری کارونا روئیں گے وہ اسمبلی توڑ کرنئے انتخابات کی راہ ہموار کرسکتے ہیں لیکن ”مجھے کیوں نکالا“ اور ”ووٹ کو عزت دو“ کی تحریک چلاکر نوازشریف بھی یہ رونا روتے رہے ہیں لیکن تین سال تک اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اگرعمران خان میں عقل فہم اورادراک ہے تو وہ اپوزیشن سے معافی مانگ کر ان سے مذاکرات کریں اور انہیں قائل کریں کہ اہم تقرریوں کا اختیار وزیراعظم کودلوانے کیلئے آئینی ترمیم بہت ضروری ہیں لہٰذا اپوزیشن اس کا ساتھ دے وہ اہتمام محبت کیلئے ایسا کرسکتے ہیں لیکن اپوزیشن میں سے کوئی ساتھ دینے والا نہ ہوگا اور نہ ہی اس کام میں انہیں پارلیمنٹ کے اندر اکثریت کی حمایت حاصل ہوسکے گی لہٰذا بہتر ہوگا کہ عمران خان باقی ماندہ مدت جیسے تیسے کرکے گزارلیں اس کے بعد اگر انہوں نے انقلاب کا راستہ اپنانا ہے جو بے شک2023ء کی انتخابی مہم کے دوران کمرکس کر میدان میں اتریں ہے جس طرح عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے1970ء کے انتخابات 6نکات کی بنیاد پرلڑے تھے خان صاحب بھی ایک انقلابی منشور تیار کریں جس میں نظام کی تبدیلی کے ساتھ وزیراعظم کو سپریم کمانڈر بنانے اورفوج میں تمام تقرریاں کااختیار اس منشور کا حصہ ہوں ورنہ وہ اس وقت اکیلے سیاسی وعوامی حمایت کے بغیر یہ مشکل کام نہیں کرسکیں گے۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ خان صاحب سابق وزرائے اعظم سے مختلف ہیں ان کا ایک عالمی قدکاٹھ ہے دنیا ان کی بات سنے گی اگروہ سکبدوشی کے بعد باہر چلے گئے تو آسمان سرپراٹھالیں گے-
کبھی پرانی ولایت اور کبھی نئی ولایت میں جاکر میڈیا کے سامنے شور مچائیں گے پاکستانی نظام کا تیا پانچہ کرکے دنیا کے سامنے رکھیں گے ایک عالمی رائے عامہ ہموار کریں گے اس لئے انہیں دیوار سے لگانا درست نہیں ہے اگروہ اپنی مدت پوری کرنے سے قبل باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے تو دنیا کے سامنے اپنا بھرپور تکہ نظر پیش کرسکیں گے اگروقت سے پہلے جانے کا موقع نہیں ملا تو ان کی زندگی کے باقی ایام عدالتوں کا چکرلگانے اوروکلاء کی خدمات حاصل کرنے میں پورے ہونگے کیونکہ تین سال کے عرصہ میں ان کیخلاف کرپشن بدعنوانی بیڈگورننس اختیارات کے ناجائز استعمال توشہ خان کو لوٹنے آٹا،چینی اور ایل این جی کے اتنے سارے مقدمات قائم ہونگے کہ ان کے مقدمات لڑنے کیلئے وکلاء کی تعداد کم پڑجائے گی۔
ہوسکتا ہے کہ کچھ ریفرنسز ان جنات اور موکلوں کیخلاف بھی قائم ہوں جو خان صاحب سے غلط فیصلے کرواتے رہے ہوں۔
یہ جو پرویز خٹک ہے یہ مالم جبہ اور پشاور بی آر ٹی کے مقدمات میں خان صاحب کیخلاف وعدہ معاف گواہ بنیں گے مرادسعید ہائی ویز خسروبختیار اور فخرامام غذائی درآمد تابش گوہر اور حماد اظہر انرجی سیکٹر میں ہونیوالی گڑبڑ اور شیخ رشید اداروں کیخلاف سازش کے مقدمات کے سلطانی گواہ بن جائیں گے نتیجے میں عمران خان ذوالفقار علی بھٹو تو نہیں بن سکتے البتہ ”منصور“ بن سکتے ہیں خدا کرے کہ یہ نوبت نہ آئے دوست اور دشمن مل کر ان پر”گل پاشی“ کریں۔
لیکن سیاست بہت بے رحم چیز ہے اس کا کوئی دل نہیں ہوتا اس کے سینے میں کوئی رحم نہیں ہوتا اس میں کوئی اپنا نہیں ہوتا جب حالات موافق نہ ہوں تو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی توقع نہیں ہوتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں