عدم اعتماد اور جنتر منتر

تحریر: انورساجدی
پیر25اکتوبر:۔ جب کسی حاکم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو تو یہ بہت دن ہوتے ہیں اس دوران اچھا خاصا موقع ملتا ہے کہ ناراض ساتھیوں کومنایا جائے جنتر منتر چلایاجائے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لالہ رشید کی طرح بعض اراکین پر سایہ آگیا ہو اور وہ موکلوں کے پاس دم کرانے جائیں یہ بات لالہ رشیدی بتاسکتا ہے کہ وہ کس کے پاس دم کروانے گئے تھے پتہ نہیں کہ عاملوں نے انہیں اسمبلی جانے کی اجازت کیوں دی کیونکہ اس سے تو سارا راز فاش ہوسکتا ہے اوریہ سراغ بھی لگ سکتا ہے کہ اسمبلی کے اجلاس سے غائب خواتین اراکین کہاں پر ہیں اور کن سے دم کروارہی ہیں عجیب بات ہے کہ چار اراکین کی غیر حاضری کے باوجود جام صاحب کیخلاف 33اراکین نے عدم اعتماد پر دستخط کئے اگروہ ہمت کرکے دو اور اراکین کو بھی دم کروانے کیلئے بھجوادیتے تو انکی مشکل آسان ہوسکتی تھی چونکہ چار دن بہت ہوتے ہیں اس لئے کچھ بھی ہوسکتا ہے میچ20اوور کا ہے اس میں آخری گیند اور آخری کھلاڑی تک مقابلہ جاری رہتا ہے اور یہ پیشنگوئی کرنا مشکل ہے کہ جیت کس کی ہوگی ویسے جام کمال بھی کمال کے شخص ہیں کوئی دوسرا وزیراعلیٰ ہوتا تو گھبراکر استعفیٰ پیش کرچکا ہوتا لیکن انہوں نے اپنے اعصاب مضبوط رکھے اور اعلان کیا کہ وہ کسی صورت استعفیٰ نہیں دیں گے بلکہ ووٹنگ تک مقابلہ کریں گے اس دوران جام صاحب نے کمال خوبی سے اپنے اوسان بحال رکھے جبکہ ان کے ترجمان لیاقت شاہوانی غصہ اور ٹینشن کاشکار دکھائی دیئے انہوں نے تو یہ دعویٰ کردیاکہ عدم اعتماد پیش کرنے والے33اراکین نہیں تھے بعد میں جام صاحب نے بھی اس کی تصدیق کی اور کہا کہ جتنے لوگوں کے دستخط تھے اتنے اسمبلی میں موجود نہیں تھے بلکہ حساب کتاب اور گنتی میں ہیراپھیری سے کام لیا گیا ہے اس سے قطع نظر جب 25اکتوبر کو اسپیکر جام صاحب کے حامیوں اور مخالفین میں ڈویژن کروائیں گے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائیگا اس وقت کوئی ہیراپھیری نہیں چل سکے گی کیونکہ اراکین کو بار بار گنا جائے گا
بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں صرف ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ1988ء میں جب نواب اکبر خان بگٹی اور میرظفراللہ خان جمالی کے ووٹ ٹائی ہوگئے تھے جبکہ اسپیکر سردار محمد خان باروزئی نے کاسٹنگ ووٹ ڈال کر ظفر اللہ جمالی کی جیت کا اعلان کیاتھا لیکن بعد میں پتہ چلا تھا کہ اسپیکر نے اپنے سے گنتی شروع کی تھی اور آخر میں اپنا کاسٹنگ ووٹ بھی شمار کیا تھا تاہم بلوچستان ہائی کورٹ میں یہ گنتی غلط ثابت ہوگئی تھی جس پر نواب صاحب ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعلیٰ قراردیئے گئے تھے
1974ء میں تو بہت بڑی ہیراپھیری ہوئی تھی آئین کے نفاذ کے بعد یہ ضروری ہوگیا تھا کہ گورنررول ختم کرکے اسمبلی بحال کی جائے چنانچہ جام میر غلام قادر وزارت اعلیٰ کے امیدوار نامزد کئے گئے لیکن اسپیکر نے ڈویژن کروائے بغیر اعلان کیا تھا کہ جام صاحب کو اکثریت حاصل ہے بعدازاں یہ اکثریت مزید ارکان کی پیپلزپارٹی میں شمولیت جن میں محترمہ فضیلہ عالیانی اور مولوی صالح محمد شامل تھے بن گئی تھی نیب کے دو اراکین میر دوست محمد اور سردار عبدالرحمان کی نشستیں خالی ہوگئی تھیں ضمنی الیکشن میں صابر بلوچ اورقادر بخش بلوچ کو کامیابی ملی تھی جام صاحب 1976ء تک وزیراعلیٰ رہے جبکہ1977ء تک محمد خان باروزئی وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔
غالباً موجودہ وزیراعلیٰ کے والد جام میر محمد یوسف عالیانی بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ تھے جنہوں نے پانچ سال کی مدت پوری کرلی جام یوسف صلح کل انتہائی معاملہ فہم اور تنازعات سے دور تھے۔وہ ہرایک کاکام کرتے تھے انکارانکے ہاں تھا ہی نہیں اس لئے سارے وزیر اور ایم پی اے ان سے خوش تھے بلکہ کئی وزیر اور ایم پی اے وزیراعلیٰ کے سیکرٹ فنڈ سے بھی خرچہ پانی لیتے تھے ایک مرتبہ ایک ایم پی اے کو انہوں نے وزیربنایا لیکن وہ سیکرٹ فنڈ سے بدستور خرچہ وصول کررہے تھے جام صاحب نے مجھے بلاکر کہا کہ وزیر سے کہیں کہ اب تو انہیں محکمہ مل چکا ہے لہٰذا یہ سیکرٹ فنڈ سے خرچہ لینا چھوڑدیں یعنی اتنے شریف آدمی تھے کہ اپنے وزیر کو یہ بات خود نہیں بول سکتے تھے۔
اپنے دادا اور والد کے مقابلہ میں جام کمال ڈسپلن کے زیادہ پابند ہیں اور ان کے ذہن میں وزیراعلیٰ کا ڈیکورم ہے اگرریکارڈ دیکھاجائے تو وہ اپنے ایم پی اے اور وزراء کو ماضی کے مقابلہ میں بہت زیادہ فنڈز دے رہے ہیں کیونکہ ماضی میں بجٹ کم تھا اب بہت بڑھ چکا ہے کئی وزراء کو جام صاحب نے چار چار ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز بھی دیئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ناخوش ہیں اپوزیشن کی ناراضی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن وزراء کی ناراضی سمجھ سے بالاتر ہے بلکہ ایک وزیر نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جام صاحب نے اپنے حلقہ انتخاب کیلئے 7ارب روپے رکھے ہیں ہمیں بھی اتنے ہی فنڈز جاری کریں۔جام صاحب نے ایک اور روایت بھی توڑی ہے ماضی میں عمومی طورپر بلوچستان میں کل جماعتی حکومتیں رہی ہیں بلکہ ایک مرتبہ 65میں سے64اراکین حکومت کا حصہ تھے اور سارے مل کر بیٹھ کر گزارہ کرتے تھے اور کوئی جھگڑا نہیں تھا جام صاحب نے شائد یہ غلطی کرلی کہ اپوزیشن اراکین کو صرف مختص شدہ فنڈز دیتے تھے اضافی ترقیاتی فنڈز نہیں دیتے تھے انہیں چاہئے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران وہ ایم پی اے فنڈز کی تمام تفصیلات جاری کریں تاکہ پتہ چلے کہ کس کو کیا ملا ہے ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ جام صاحب اپوزیشن یا اتحادی جماعتوں کی نسبت باپ پارٹی کے اراکین کا زیادہ خیال رکھتے تھے لیکن ان کیخلاف بغاوت بھی اپنی ہی جماعت میں ابھری جام صاحب کیخلاف ایک شکایت یہ تھی کہ وہ ملاقاتیں کم کرتے تھے اور شائد ایم پی اے حضرات کیلئے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ”خواں“ بھی نہیں بچھتا تھا جبکہ اکثر کوپرانے ادوار کی عادت تھی اور وہ دن میں ایک دو دفعہ ضرور وزیراعلیٰ ہاؤس میں کھانا تناول کرنا فرماتے تھے۔
جام صاحب اپنے ذاتی ”اپروچ“ میں انگریزوں کی طرح ہیں انکے لبوں پر ہروقت ایک ملکوتی مسکراہٹ رقصان رہتی تھی لیکن وہ کسی سے گرمجوشی کے ساتھ نہیں ملتے ہیں معانقہ سے گریز کرتے ہیں ایک عیب یہ تھا کہ دن کو کام کرتے ہیں لیکن رات اپنی ہوتی ہے وہ گھر میں رہتے ہیں اور اپنے سوشلمیڈیا کو چلاتے ہیں یہ سوشل میڈیا کم بخت وہ شعبہ ہے کہ اس کے عادی لوگوں کے پاس دیگر کاموں کیلئے وقت بہت کم بچتا ہے اس لئے ایم پی اے حضرات کو ملاقات نہ کرنے اورکم وقت دینے کا گلہ رہتا تھا وہ ٹرانسفر پوسٹنگ خود کرتے تھے اور بیوروکریسی انہیں جل نہیں دے سکتی تھی یہ ٹرانسفر پوسٹنگ بھی ایک بڑا مسئلہ تھا کیونکہ اکثروزیر اور ایم پی اے چاہتے تھے کہ ان کے من پسند افسران ان کے حلقوں میں تعینات ہوں جام یہ بات نہیں مانتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ایم پی اے اپنا کام کریں افسر تو سرکاری ملازم ہوتے ہیں ممبران کا کیا کام کہ وہ انکا ٹرانسفر اور پوسٹنگ کروائیں جام صاحب سے ناراضی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی انگریزی عادات میں ایک بات وقت کی پابندی تھی صبح جلدی اٹھتے ہیں اور بعض اوقات اگلی صبح تک جاگتے ہیں کئی اہم افسران کو رات3بجے بھی فون کرکے تنگ کرتے تھے وہ عمومی طور پر ہر عام وخاص کی کال اٹینڈ نہیں کرتے تھے ایک اور خامی یہ تھی کہ وہ کسی کی تعریف نہیں کرتے ہیں اس سلسلے میں کافی بخیل ثابت ہوئے معلوم نہیں کہ اپنے سے بڑی شخصیات کے ساتھ ان کا طور طریقہ کیا تھا لیکن لگتا ہے کہ جام صاحب ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے البتہ ان میں انا اور منتقم مزاجی کے عنصر شاہد پائے جاتے ہیں۔
یہ تو معلوم نہیں کہ25اکتوبر کو کیا ہوگا اگر جام صاحب بچ گئے تو انہیں اپنے اندر بعض تبدیلیاں لانی ہونگی اپنے معمولات کو بدلنا ہوگا اگر وہ وزیراعلیٰ نہ رہے تو وزارت اعلیٰ کیلئے باپ پارٹی اور اپوزیشن کے اندر ایک نیا مناقشہ شروع ہوگا جو آئندہ انتخابات تک جاری رہے گا یعنی بلوچستان میں حکومتی سطح پر عدم استحکام رہے گا جبکہ مجموعی طور پر اس صوبے میں کسی قسم کا کوئی استحکام نہیں ہے یہ کافی عرصہ سے جنگ زدہ اور انسانی المیوں کا شکار ہے یہا پر حکومتوں کا قیام محض رسمی کارروائی ہے اور اس کا بلوچستان کے عوام سے چنداں تعلق نہیں ہے بلوچستان کے عوام ترقی اورخوشحالی تو کجا آبرومندانہ زندگی اور زندہ رہنے کے حق سے محروم ہیں
انکی بلاسے کون وزیراعلیٰ ہوگا اور کون نہیں ہوگا صرف چہرے بدلنے سے انکے مصائب اور آلام کم نہیں ہونگے۔
اسٹیٹ بینک کے امپورٹڈ گورنر باقررضا نے برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روپیہ کی قدر گرنے کا دفاع کیا ہے انہوں نے یہ منطق پیش کی کہ اس سے اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ ہوگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اگر یہی حال رہا تو آئندہ سال مارچ تک ڈالر کی قدر دوسو روپے تک پہنچ سکتی ہے اس سے ملک پر واجب الادا غیر ملکی قرضوں کی مالیت دوگنی ہوجائے گی رضا باقر بھول گئے ہیں کہ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو وہ روز کہتے تھے کہ حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے روپیہ گرتا اور ڈالر بڑھتا ہے اور اس کی وجہ سے غیر ملکی قرضے ڈبل ہوتے ہیں ان قرضوں کی سود بھی ڈبل ہوجاتی ہے اتنی رقم کہاں سے آئیگی لیکن آج عمران خان اپنی معاشی ٹیم کے آگے مکمل طور پر بے بس ہیں کسی خاص وجہ سے باہر سے فضول اشیاء کی درآمد جاری ہے جبکہ اربوں روپے مالیت کی قیمتی گاڑیاں بھی منگوائی جارہی ہیں معاشی اداروں کا زور صرف غریب عوام پر چلتا ہے نامعلوم ان تباہ کن پالیسیوں کا کیانتیجہ نکلے گا اور معاشی بحران کہاں جاکر رکے گا آئی ایم ایف کی نئی شرائط ماننے کے بعد عوام کھربوں روپے ٹیکسوں کے نیچے آکر زندہ درگور ہوجائیں گے اسکے باوجود اہل یوتھ کا دعویٰ ہے کہ آئندہ الیکشن بھی پی ٹی آئی جیتے گی غالباً ان کے ذہنوں میں کمزور اپوزیشن کی کمزور کارکردگی ہے یہ اپوزیشن وقت گزاری کیلئے چھوٹے احتجاج ریلیاں نکال کر2023ء کے الیکشن تک مصروف رہنا چاہتی ہے اور اسے خوش فہمی ہے کہ عوام آنکھیں بند کرکے ووٹ انکی جھولی میں ڈال دیں گے اس وقت حکمران اور اپوزیشن نالائقی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں باقی اداروں کابھی یہی حال ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں