گہرے سیاہ بادل

تحریر: انورساجدی
بظاہر تو ہر طرف کالے سیاہ بادل نظرآرہے ہیں لیکن اس ریاست کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے ایسے وقت پہلے بھی آئے ہیں بلکہ اس سے زیادہ کڑا وقت 16دسمبر1971ء کا تھا جب یہ ریاست دولخت ہوگئی تھی لیکن اس وقت کے حکمرانوں کی صحت پرکوئی زیادہ اثر نہیں پڑا تھا وہ شرمندگی اور خجالت کی بجائے پرسکون تھے اتنے بڑے سانحہ کے باوجود یہ تعین نہیں کیا جاسکا کہ سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار کون ہے؟
پاکستان دولخت ہونے کے بعد بھی معاشی طور پر دیوالیہ ہوگیا تھا لیکن جادوگر بھٹو نے صورتحال بدل دی تھی۔
جب5جولائی1977ء کو ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو نام نہاد افغان جہاد شروع ہونے سے پہلے پاکستان تقریباً دیوالیہ تھا اگر اس وقت امریکہ ڈالڑوں کی بارش نہ کرتا تو پاکستان ڈیفالٹ کرجاتا۔
شدید عدم استحکام کے باوجود جنرل ضیاء الحق نے سندھڑی کے وڈیرہ محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنادیا انہیں حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا وہ صرف 1960ء کی دہائی میں ریلوے کے وزیر رہے تھے۔
جینوأ معاہدہ کے بعدجنرل ضیاء الحق نے29مئی 1988ء کو اپنا قائم کردہ نظام لپیٹ دیا اور 17اگست1988ء کو وہ خود بھی فضاؤں میں راکھ ہوکر بکھرگئے۔
ضیاؤ الحق کے بعد طرح طرح کے تجربات کئے گئے تاوقتیکہ 1999ء میں جنرل مشرف نے پوری بساط لپیٹ دی انہوں نے بلوچستان کے ایک سابق صوبائی اور ضیاؤ الحق کے وزیر مملکت میر ظفراللہ خان جمالی کو روجہاں جمالی سے اٹھاکر2002ء میں وزیراعظم بنادیا شریف آدمی تھے جھوٹ کم بولتے تھے صاف کہہ دیا کہ جنرل مشرف ان کے باس ہیں وہ انکے ماتحت ہیں لیکن یہ شریف آدمی بھی برداشت نہ ہوسکا تاریخ نے یہ جبر بھی دیکھا کہ جمالی کی برطرفی کے بعد تین ماہ کیلئے چوہدری شجاعت حسین جیسے بھولے شخص کو بھی وزیراعظم بنانے کا تجربہ کیا گیا جنرل پرویز مشرف نے عالمی مالیاتی اداروں میں کام کرنے والے شوکت عزیز کو بلاکر پہلے وزیر خزانہ اور کچھ عرصہ بعد وزیراعظم بنایا وہ کراچی کے سینٹ پیٹرک میں پڑھنے کے بعد جو نکلے تھے تو کبھی واپس نہیں آئے تھے لیکن طاقت طاقت ہوتی ہے جنرل مشرف نے اس جیسے شخص کو بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز کردیا ان کا کوئی حلقہ نہیں تھا سیاست کے ابجد سے ناواقف تھے اٹک ضلع کے علاقہ فتح جھنگ سے نہیں زبردستی کامیاب کروایا گیا جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب تھا کہ اچانک امریکہ نے نائن الیون کا بدلہ لینے کیلئے افغانستان پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں ایک بارپھر ڈالروں کی ریل پیل شروع ہوگئی اور ریاست دیوالیہ پن سے نکل گئی لیکن جب مشرف کے دور میں انتخابات سے قبل جو نگران حکومت بنی خزانہ خالی ہوچکا تھا 2008ء میں جب زرداری کو حکومت ملی تو بجلی نہیں تھی گیس نہیں تھی برآمدات نہ ہونے کے برابر تھیں زرداری نے جیسے تیسے کرکے2013ء کے انتخابات میں شکست کی وجہ سے جان چھڑالی اور آگئے دودفعہ پہلے وزیراعظم رہنے والے مقتدرہ کے راج دلارے میاں محمدنوازشریف کی نااہلی کے بعد2017ء میں ان کی جگہ خاقان شاہد عباسی آئے تو ریاست کا خزانہ خالی تھا مسلم لیگ ن نے کوئلہ سے چلنے والے پاور پلانٹ بنائے قطر سے ایل این جی منگوانے کا معاہدہ کیا لاہور،راولپنڈی اور ملتان میں میٹروبس بنائی جبکہ لاہور میں ایک کھرب کی لاگت سے اورنج ٹرین بھی بنائی آج یہ سارے منصوبے شدید خسارے سے دوچار ہیں پنجاب میں بننے والے ان میگا پروجیکٹ کے قرضے باقی ملک کو ادا کرنے پڑرہے ہیں میاں صاحب کاسمیٹک ترقی پر یقین رکھتے تھے یعنی ایسے منصوبے جو لوگوں کو نظرآئیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ عوام کو ان سے فائدہ پہنچے میاں صاحب نے اپنے دوسرے دور میں جو اسلام آباد لاہور موٹروے بنایا تھا وہ بھی اقتصادی طور پر خسارے میں ہے لیکن ان کے بنائے گئے کافی سارے اثاثے جناب عمران خان نے گروی رکھ کر کھربوں روپے کے قرضے حاصل کئے ہیں میاں صاحب نے سی پیک کے تحت لاہور سے ملتان اور سکھر تک جو موٹروے بنایا ہے اس کا واحد فائدہ یہ ہے کہ سفر کا دورانیہ کم ہوگیا ہے اور کوئی مصرف نہیں ہے حالانکہ ان موٹرویز کی ضرورت بلوچستان میں تھی تاکہ گوادر پورٹ کو ملک کے دیگر حصوں سے ملادیا جاتا۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ساری دنیا نے کوئلہ سے بجلی بنانے کا سلسلہ ترک کردیا تھا لیکن میاں صاحب نے چین کے تعاون سے کوئلہ والے بجلی گھر بنائے اور دلچسپ بات یہ کہ ان کیلئے کوئلہ انڈونیشیاء سے درآمد کیا جاتا تھا یہ بجلی گھر عذاب بن گئے ہیں اسی لئے موجودہ حکومت نے عالمی برادری کو یقین دلایا ہے کہ یہ سارے پلانٹ چند سال کے دوران گرین انرجی پر منتقل کئے جائیں گے۔میاں صاحب کے تمام تر دعوؤں کے باوجود جب عمران خان نے حکومت سنبھالی تو خزانہ ایک بار پھر خالی تھا حکومت سنبھال کر عمران خان بری طرح پھنس گئے اس لئے انہوں نے اربوں ڈالر کے غیر ملکی اور کھربوں روپے مقامی بینکوں سے قرضے لئے اب جبکہ متعدد قرضوں کی ادائیگی کا وقت آیا ہے تو زرمبادلہ کے ذخائر تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں آئی ایم ایف کی شرائط مان کر یہ حکومت بند گلی میں آگئی ہے کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے عوام اس حکومت سے بیزار آگئے ہیں گلی گلی میں حکومت کو صلواتیں سنائی جارہی ہیں۔عوام کی زندگی اجیرن ہے جس کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت عوام میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے البتہ تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن ابھی تک امید لگائے بیٹھے ہیں کہ خان صاحب آئندہ ڈیڑھ سال میں مہنگائی پر قابو پالیں گے اور ان کی مقبولیت بحال ہوجائے گی۔
لیکن معاملہ صرف مہنگائی کا نہیں ہے خارجہ پالیسی ناکام ہے معاشی پالیسیاں فیل ہیں افغانستان سے اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں افغانستان سے متصل دوصوبے بیڈ گورننس کی وجہ سے بدامنی کا شکار ہیں صوبہ پشتونخوا کے وزیراعلیٰ کو اپنے ضلع سوات کے بارے میں بھی جانکاری نہیں ہے خطہ کی جیوپولیٹکل صورتحال کو کیا سمجھیں گے اپنے جام صاحب سے اپنی ہی پارٹی کے وزراء اور ایم پی اے سنبھالے نہیں جارہے ہیں تو وہ اور کیا کرسکیں گے بلوچستان میں عجیب صورتحال ہے کہ جام صاحب کی جگہ وزارت اعلیٰ کے نصف درجن امیدوار ہیں ایک امیدوار میر عبدالقدوس بزنجو دوسرے ظہور بلیدی تیسرے جان جمالی چوتھے سردار محمد صالح بھوتانی پانچویں سردار عبدالرحمن کھیتران ہیں اور تو اور کچھ عرصہ قبل ایک معاون خصوصی محترمہ بشریٰ رند نے بھی وزارت اعلیٰ بننے کی خواہش کااظہار کیا تھاان کا موقف تھا کہ ایک مرتبہ خاتون وزیراعلیٰ بھی ہونا چاہئے لیکن بشریٰ رند نے ایک دفعہ جام صاحب کیخلاف بغاوت کرکے فوری طور پر اپنی تصحیح کرلی اس لئے انہیں آئندہ کسی وقت اپنی باری کاانتظار کرنا چاہئے مجموعی طور پر بلوچستان سمیت پورا ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار نظر آتا ہے حکومت اور اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت ہے اپوزیشن نے اچانک نیند سے جاگ کر حکومت کیخلاف تحریک شروع کردی ہے لیکن اس میں سنجیدگی نظر نہیں آتی ادھر تحریک لبیک نے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے لیکن مرکزی قیادت نہ ہونے اور صحیح رہنمائی کے بغیر ان کے لانگ مارچ کا اعلان قبل از وقت ہے اگرچہ تحریک لبیک کے پر جوش کارکن وقتی مسائل کھڑے کرسکتے ہیں لیکن حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں اسلام آباد میں دھرنا دینے کا موقع نہیں دیا جائیگا حکومت کی کارگزاری کا یہ عالم ہے کہ فٹیف نے آئندہ سال تک پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے افغان صورتحال اور پاکستانی حکومت کی جانب سے طالبان کی حمایت کے نتیجے میں یہ مدت طویل ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستانی حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ مسلح گروپوں کی خفیہ فنڈنگ کاراستہ روک سکے۔
غرض کہ ایک ہی وقت میں بے شمار مسائل سراٹھارہے ہیں حکومت کرے تو کیا کرے وہ معاشی زبوں حالی کی وجہ سے پریشان ہے اوپر سے سیاسی عدم استحکام اور داخلی بدامنی اس کے پاؤں کی زنجیر بن رہی ہے۔
بظاہر ایسے دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت ان تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے اس کیلئے واحد آبردمندانہ راستہ یہ ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرکے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیاجائے اگرچہ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے اور عمران خان جیسی شخصیت کیلئے ہار ماننا ممکن نہیں لیکن اس کے سوا کوئی حل نظر نہیں آتا حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ وہ طاقت کا استعمال نہیں کرسکتی کیونکہ ایسا کرنے سے حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے اس حکومت کی اخلاقی قدریں اتنی کمزور ہیں کہ ساری تحریک انصاف ایک خاتون صحافی عاصمہ شیرازی کیخلاف صف آرا ہے حالانکہ انہوں نے جو کالم لکھا تھا اس میں صرف اشارے تھے حکومتی مشیروں نے خود ہی بتادیاکہ ان اشاروں کنایوں کا رخ کس کی طرف تھا خاتون صحافی کو نہ صرف دھمکیاں دی جارہی ہیں بلکہ ان کی کردار کشی بھی کی جارہی ہے یہ اظہار رائے پر ایک شدید حملہ ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکومت کا کوئی مخالفانہ رائے برداشت کرنے کی قوت نہیں رکھتی تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ونگ آج کل ان تمام صحافیوں اور اینکروں کیخلاف ہاتھ دھوکر پڑی ہے جو حکومت کی خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کررہے ہیں ان کیخلاف وہ الفاظ اور القابات استعمال کئے جارہے ہیں کہ الامان والحفیظ

اپنا تبصرہ بھیجیں