سروے تجزئیے

تحریر: جمشیدحسنی
ہمارے وزراء مہنگائی کے قائل نہیں ٹماٹروں کے نرخ کا لطیفہ تو مشہور ہے ادھر عالمی ادارے نہ جانے کیوں معاف نہیں کرتے میگزین اکالوسٹ نے دنی میں 43ممالک کے سروے میں مہنگائی کے حوالے سے ہمیں چوتھا نمبر دیا ہے۔پہلے نمبر پر ارجنٹائن ہے جہاں مہنگائی کی شرح51.4فیصد ہے۔دوسرے نمبر پر ترکی ہے جہاں مہنگائی 19.6فیصد ہے پھر برازیل ہے مہنگائی 10.2فیصد ہے ہمارے ہاں مہنگائی کی شرح 9%ہے۔جاپان میں شرح0.4فیصد ہے۔سندھ کے گورنر فرماتے ہیں مہنگائی ہفتہ میں کم ہو جائے گی کیسے یہ نہیں بتلایا من وسلویٰ کب اترے گا۔وہ تو بادشاہ ہیں پچھلے دنوں لیاقت علی خان کی برسی پر کہا وہ کراچی میں شہید ہوئے بس انتا غنیمت ہے کہ کرونا کا زور ٹوٹ رہا ہے مگر ڈینگی بڑھ رہا ہے۔
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ نے139میں ہمیں 130واں ملک قرار دیا ہے ج امور زیر غور تھے وہ قانون کی بالادستی کرپشن بنیادی حقوق امن عامہ حکومتی کارکردگی ان معاملات میں بنگلہ دیش،سری لنکا،بھارت ہم
سے بدرجہا بہتر ہیں ہم بس افغانستان سے ایک درجہ اونچے ہیں ملک میں قانون کی بالادستی بد ترین ہے بلس کنسلٹنٹ کہتا ہے ملک کے 77%عوام مہنگائی کو بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں 30فیصد لوگ روز مرہ کے اخراجات پورے کرنے قرضدار ہیں 37%افراد نے گھریلو اخراجات میں سخت کٹوتی کی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ34ارب40کروڑ ڈالر ہے۔ درآمد64 فیصد بڑھ گئی ہے75%لوگوں کا خیال ہے معاشی پالیسی کی سمت غلط ہے 57%فیصد لوگوں کا حکومتی معاشی دعوؤں پر اعتبار نہیں۔
افغانستان کے بارے کانفرنس میں امریکہ نہیں آیا کہا گیا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد دی جائے۔
حزب اختلاف جلسے جلوس ہیں۔بلوچستان حکومت اپنی جگہ ٹھپ دو تین دن میں نتیجہ نکل آئے گا پگڑیاں تبدیل ہوں گی باقی فرق نہیں پڑنا موجودہ حکومت ترقیاتی فنڈز خرچ نہ کرسکی جام نے تین سال نکالئے آنے والا بھی دو سال نکال لے گا۔مرکز مطمئن ہے بلوچستان کے عوامی نمائندے مرکز سے پنگہ نہیں لے سکتے۔نواب سیف اللہ مگسی،محمد مراد جمالی،نواب غوث بخش رئیسانی،عبدالصمد خان اچکزئی،مولوی شمس الدین،نواب عطاء اللہ مینگل،نواب خیر بخش کے بیٹے اگر بلٹ پروف گاڑی ملتی ہے تو بلٹ کی کیا ضرورت ہے۔اب بھی جھگڑا صولوں نظریات پر نہیں ”ونڈ“یعنی حصہ داری کی کمی بیشی پر ہے۔نامہ علاقہ کا ہمارا علاقہ پسماندہ ہے،۔محمود خان اچکزئی اسلام میں براجمان ہیں،دیکھیں ان کی اور مولانا فضل الرحمن کی یاری کب تک چلتی ہے۔دونوں کا ووٹ بینک بلوچستان کے پشتون علاقہ میں ہے اور شروع سے سیاسی رقابت رہی ہے۔پیپلزپارٹی کا بلوچستان میں اثر ورسوخ نہیں۔
دیکھیں حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے کیا کرتی ہے۔ورلڈ بنک آئی ایم ایف کی شرائط ہیں بیرونی سرمایہ کاری آہ نہیں رہے۔حکومت کو ووٹنگ مشین کی پڑی ہے۔150ارب روپیہ خرچ ہوگا۔نیپ ہے ISIہے بلدیاتی نظام ہے کرونا ہے تاجکستان ایران کی گیس خالی باتیں۔یورپ اپنی 90فیصد گیس روس سے لیتا ہے طور خم،جلال آباد،کابل، مزار شریف،بلخ،بخارا،سمر قند،چھک چھک گاڑی چلے گی گویا یہ بھی کوئی ڈرون اڑانا ہے۔
کہتے ہیں غلام تنگ دھرنگ آیا۔ایک لنگوٹ باندھے گدھے پر سوار جنگلی بیر کھا رہا تھا کسی نے پوچھا کوئی ذوق شوق کہا ہاں ہم خاندانی لوگ ہیں عمدہ کھانا عمدہ پہنا عمدہ سواری ہماری کمزوری ہے۔
گھبرائیں نہیں جان جمالی‘ جوگیزئی‘ زہری‘ رئیسانی‘مگسی‘ مینگل سب کو لوگوں نے آزمالیا مگر آپ ان سے جان نہیں چھڑاسکتے۔کبھی کبھار خیال آتا ہے کہ بیلہ جا کر ہم بھی سنڈیمن کے قبر کی زیارت کرائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں