کوہ سلیمان میں صوفی شاعری

تحریر:زوراخ بزدار
صوفی شاعری جس کو دوسرے لفظوں میں عارفانہ کلام بھی کہا جاتا ہے.ظاہر ہے کہ کوئی عارف ہی عارفانہ کلام کہہ سکتا ہے. مگر اس کے لیے لازم نہیں کہ وہ عارف عرفان کے تمام منازل سے واقف ہو. اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ایک مکمل عارف جس نے سلوک کے تمام منازل طے کیے ہوئے ہوں وہی عارف ہے اور اسی کا کلام ہی عارفانہ ہے مگر جب ہم حقیقت کی آنکھ سے ان جیسوں کو دیکھتے ہیں تو نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ پند و نصائح کا ایک خاص انداز ہے جو واعظانہ نہیں بلکہ عارفانہ ہے.
یہاں میں مثال دوں گا جناب علی محمد چگھا بزدار کے کلام سے چند اشعار کا
گٹھیں الکھوے تئی شانی
پیغمبر امام پیرانی
مں شہ قاضی ءَ سوا جورانی.
ترجمہ.
اللہ کی شان (حمد و ثناء) بیان کرنا کسی ناممکن چوٹی کو سر کرنے سے بھی مشکل ہے یہ کسی عام آدمی کا نہیں بلکہ کوئی پیامبر، امام یا کوئی اور خدا رسیدہ اسکی حمد و ثناء بیان کرسکتا ہے مگر میں کسی سے پوچھے بغیر اسکی تعریف کرسکتا ہوں.
اب میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ عارفانہ کلام ہے چونکہ اس میں عرفان کی جو جھلک ہے وہ کافی نمایاں ہے.
صوفی اور صوفیانہ کلام کے تعارف کے بعد اب آتے ہیں بلوچی صوفی شاعری یا بلوچی عارفانہ کلام کی طرف.
فطرت چونکہ ذات تک رسائی کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور بلوچوں کو یہ سہولت ہمہ وقت میسر ہے کہ وہ فطرت کے اتنے قریب ہیں کہ ہر قدم پہ فطرت انکے سامنے بانہیں پھیلائے استقبال کے لیے تیار کھڑی ہے.
بلوچوں میں چونکہ لکھنے پڑھنے کا رواج کم تھا بلکہ یوں کہیں ہم عربوں کی طرح امی تھے تو بے جا نہ ہوگا.
جب انسان کو کسی خارجی مادی چیز کا سہارا نہ ہو تو اس میں ایک خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے. اور پھر وہ منزل کی طرف عقل کے زور سینہیں عشق کے سہارے سفر کرتا ہے. اور اسی سفر کو سلوک کی زبان میں مقام سیر کہا جاتا ہے.
اب تذکرہ ان بلوچ راہ روانِ منزل کا
جنہوں نے اپنے کلام سے نہ صرف زبان کی آبیاری کی بلکہ اپنے قوم کی حقیقی سرداری بھی کی. یہی فلسفہ بھی ہے اور عرفان بھی جینے کا سلیقہ بھی اور حق گوئی کا درس بھی ہے.
اس معاشرے میں کسی کا نام مستقبل میں زندہ رہے نہ رہے مگر شئے مریذ چگھا بزدار رحمن بزدار مست توکلی باباجوانسال
فیضل فقیر،لدھا بزدار،سمائل لاشاری، زندہ رہیں گے.
معلوم بلوچی صوفی شاعری میں پہلا نام شئے مریذ کا ہے جو ہانی کے عشق میں میر مریذحان سے شئے مریذ تک پہنچے انہوں نے خود سے خدا تک کا سفر دل کو چوٹ لگنے کے بعد کس طرح طے کیا.
انکی زبانی سنیے
پہ عشقا تئ پروانغاں
ماراں گو دستاں نہ گراں
سیاہ مار دستئے چابکاں
حانو منی رازئے گروخ
مں تانہی نوذاں گروخ
لحمیں غمانی دیر کنوخ
حانو ترا شاہے سریں
اژما سری آ جھنڈ مخاں
مارا پہ نیم چماں مہ گند
کہ دل کوتلیں چیزئے تہ نہ ایں
مہرے پہ بہا گفتغ نہ ایث.
شاہ مریذ کے بعد اس منزل کے ایک اور بلوچ راہی شعراء کے مرشد توکلی
مست سے ایک دفعہ خواجہ اللہ بخش تونسوی رحمہ اللہ نے پوچھا جو خود بھی صوفی تھے. مست تم نے یہ مرتبہ کیسے حاصل کیا.
تو مست کا جواب تھا.
مہرواں بیثہ بہانغے سموئے کثی.
ترجمہ.
مہرباں تو وہ خود ہوا (اللہ کی ذات کی طرف اشارہ ہے) بہانہ سمو کا بنا.
مست کے ہاں انسانی جان اور خون کی قدر و منزلت اسقدر ہے.
جب بگٹی اور مری قبیلے کے درمیان لڑائی ہوئی تو مست نے کہا
جوانئت جنگانی بذیں بولی
کئے وثی مال و مڑدماں رولی.
ایک روایت میں ہے کہ
کئے وثی دوستیں مڑدماں رولی.
ترجمہ. جنگ تو دور کی بات ہے اس کا تذکرہ بھی ٹھیک نہیں کہ جنگ سے انسان تو انسان حتی کہ جانور بھی علاقہ بدر ہوتے ہیں.
مست فطرت کے عاشق تھے فطرت کے ہر رنگ میں انکو محبوب نظر آتا تھا اس لیے وہ پوری زندگی پہاڑوں اور صحراوں میں رہے.
خود فرماتے ہیں
مست جالی م‍ں مں کوہ سلیمانا
کوہ بیہو آ سندھ دامنا
گنجیں دلی آ داں شہر خراسانا.
ایک اور موقع پہ انکا کہنا ہے.
مں شتؤ سندھا اژ مژو جھاگاں گوئستغاں
چماں ھوں مستوں پہ شفانی گذ وہاوہاں
پاذ نال بستو پہ ڈغارانی جھاگغاں.
مست اپنی محبت میں کتنے سچے تھے
کہتے ہیں.
کنجریانی چھیار شفی ذونقاں
سملئے عہذاں م‍ں نہ بوریں ناں.
یوں سمجھیں کہ مست کہہ رہا ہے دنیا کے عارضی لذات و شہوات کو مقدم جان کر میں اپنے آپ کو ابدی نعمتوں سے محروم نہیں کرسکتا.
یہی لوگ تھے جنہوں نے دنیا کو جینے کا ہنز سکھایا انہوں نے دنیا کو جبر سے دو ہاتھ کرنے کا گر بتا دیا ہے جس چیز کے دنیا کے لوگ صوفی ازم کہتے ہیں ہم انہیں زمانے کا استاد و امام مانتے ہیں چونکہ مذہب چند ماہ سال کو چھوڑ کر اکثر خود شاہوں کا غلام رہا اور آج تک ہے.
مشہور عربی قول ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے.
(لوگ بادشاہ کے دین پر ہوتے ہیں)
اس کی سب سے بڑی مثال رومن اپمپائر ہے جو جب بادشاہ نے عیسائیت قبول کی پورا ملک عیسائی بن گیا.
مگر وقت کے ان درویشوں نے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں اور ہر سر کے سنگ پیدا کرگئے جو اسکی آشفتہ سری کا مداوا ثابت ھوا.
بقول علی محمد چگھا بزدار.
سر سنگ سیالانی وڈان.
کے دشمن کے سر کے لیے وہ سنگ جو اس پہ ضرب کاری ثابت ھو.
لدھا بزدار فرماتے ہیں.
دوذ کہ ساہے ڈوبرا تاوی
دوست یادیں نوں ہاغہو وہاوی
جب تک سینے میں دم ہے نیند و بیداری ہر دو صورتوں میں محبوب کو بھلا نہیں سکتا.
ایک اور جگہ فرماتے ہیں.
عاشقاں مچے اندرا روخیں
وث خذا سئیغیں دیر گندو خیں.
عاشق کے دل میں ایک الاؤ روش ہے اسکا ادراک کسی کو نہیں اس کیفیت سے صرف اسکا مالک ہی آگاہ ہے.
سماعل فقیر کے تین جملے تو کمال ہیں.
نزی امیراں روغ آس ناریں
ہلفت بذانی ہلاکی سراریں
سنگ جاہلاں دو جہاں شرمساریں.
ترجمہ.
امراء کے قریب ھونا آگ سے قربت کی علامت ہے
بدکردار سے محبت کرنا اپنے آپکو ہلاکت میں ڈالنا ہے اور جہلا کی صحبت میں بیٹھنا دنیا و عقبی کی شرمساری کے سوا کچھ نہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں