عاصمہ شیرازی کا مصلوب ہونا کیوں ضروری ہے؟

تحریر: انورساجدی
بلوچستان میں تبدیلی آگئی ہے ایک تبدیلی تو وزیراعلیٰ جام کمال کا رخصت ہوجانا ہے دوسری تبدیلی نئے وزیراعلیٰ کا تقرر ہے یہ عمل چنددنوں میں مکمل ہوجائے گا لیکن کئی سوالات ہنوز حل طلب ہیں۔
مثال کے طور پر وزیراعلیٰ باپ کا ہوگا تو کابینہ کل جماعتی ہوگی یا یہ اپوزیشن کی مختلف جماعتوں پر مشتمل ہوگی اگرپی ڈی ایم کی جماعتیں بھی کابینہ میں شامل ہوئیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کے دور میں یہ پہلا موقع ہوگا جو اپوزیشن بھی کسی صوبے کی حکومت میں شامل ہوگی اس سلسلے میں کافی اسرار واموز ہیں جو کچھ عرصہ بعدکھلیں گے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ بات دکھائی دے رہی ہے کہ پی ڈی ایم کی پہلء مہم کی ناکامی کے بعد جوسیاسی فضا پر سکوت طاری تھی وہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے اگربلوچستان کی حکومت صحیح طریقے سے چلی اور اپوزیشن نے آگے جاکر باپ پارٹی کیلئے مسائل پیدا نہیں کئے تو اسی طرح کا ایکٹ پنجاب میں بھی ہوسکتا ہے عثمان بزدار کو ہٹانا اگرچہ جام کمال کے مقابلے میں مشکل ہوگا تاہم زرداری ق لیگ کو دوبارہ ساتھ ملاسکتے ہیں جس کے بعد عدم اعتماد کی تحریک لائی جاسکتی ہے لیکن ”چھانگا مانگا“ قریب ہونے کی وجہ سے ایک بڑا سیاسی معرکہ برپا ہوگا۔کیونکہ پنجاب حکومت پرحملہ عمران خان کی پوری حکومت پر حملہ تصور ہوگا اور وزیراعظم خود میدان میں گودپڑیں گے پنجاب میں خریدوفروخت چونکہ پرانی روایت ہے اس لئے وہاں اسے بروئے کار لایاجائیگا۔
لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی تو میاں نوازشریف نے اپنے ایم این اے چھانگا مانگا کے جنگل میں چھپادیئے تھے زبردست ہارس ٹریڈنگ کے باوجود یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی تھی اس طرح1993ء میں منظوروٹو نے طاقتور عناصر کی مدد سے ن لیگ کے ایک سو اراکین پنجاب اسمبلی توڑ لئے تھے اور وزیراعلیٰ غلام حیدر وائن اکیلئے کپڑے جھاڑ کر چلے گئے تھے حتیٰ کہ ان کے دوست رانا پھول محمد خان نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا تھا مشرف کے دور میں سارے مسلم لیگی چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ چلے گئے تھے لیکن2008ء میں چوہدری صاحب کے سارے ساتھی واپس ن لیگ میں آگئے تھے اور میاں شہبازشریف کے ساتھ گھل مل گئے تھے ایک پنجاب پر کیا موقوف بلوچستان میں بھی1988ء سے یہی کھیل جارہی ہے اس سلسلے میں سارا قصور سیاسی جماعتوں کا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی صفوں میں جمہوریت قائم نہیں کی صحیح تنظیم سازی سے کام نہیں لیا نہ صرف یہ بلکہ اکثر سیاسی جماعتیں مختلف اوقات میں غیر جمہوریت طاقتوں کے ہاتھوں استعمال بھی ہوجاتی ہیں جب تک جمہوری ادارے آزاد اورمضبوط نہیں ہونگے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
عاصمہ شیرازی:۔ایک نڈر بیباک اور متحرک صحافی ہیں میڈیا انہیں خاتون صحافی کا نام دیتا ہے جبکہ صحافی صحافی ہوتا ہے چاہے وہ مرد ہویا عورت انہوں نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے اور اپنی ایک ساکھ بنائی ہے حتیٰ کہ بی بی سی جیسا شہرہ آفاق ادارہ بھی ان کے کالم تواتر کے ساتھ شائع کرتا ہے کالم کسی بھی صحافی کی رائے اور آبزرویش یعنی کرنٹ افیئر کے مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے جوصائب رائے لوگ ہوتے ہیں ایک جمہوری معاشرے میں انہیں آزادانہ تجزیے ضابطہ تحریر میں لانے کا حق ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے جب سے تحریک انصاف برسراقتدار آئی ہے اس نے سب سے بڑا محاذ میڈیا کیخلاف کھول رکھا ہے حالانکہ تحریک انصاف کو عوام میں مقبول کرنے اور بادی النظریں برسراقتدار لانے میں میڈیا نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے بلکہ اس نے جانبدار ہو کرتحریک انصاف کا ساتھ دیا ہے مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے اور کرپشن کامفروضہ گھڑنے میں اس میڈیا کا کردار ناقابل فراموش مگر افسوسناک ہے نام نہاد پانامہ اسکینڈل کو منظر پر لانے اور اسکے ذریعے تین دفعہ کے وزیراعظم نوازشریف کوچور ڈاکو اور مافیا ثابت کرنے میں عدلیہ اوراداروں کے ساتھ پاکستانی میڈیا بھی دودو ہاتھ آگے تھااگرچہ خودنوازشریف اداروں کے تخلیق کردہ سیاستدان ہیں لیکن طویل تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ پاکستان کسی ہائبرڈ نظام اور کاسمیٹک جمہوریت کے ذریعے آگے نہیں بڑھ سکتا انہوں نے یہ نتیجہ جنرل ضیاؤ الحق اور جنرل مشرف کے مارشل لاؤں کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اخذ کیا تھا بدقسمتی سے 1985ء کے بعد سے موجودہ پاکستان کی سیاسی ونظریاتی سمت تبدیل کردی گئی گزشتہ35برسوں کے دوران دانستہ طور پر کوشش کی گئی کہ پاکستان کو قرون وسطیٰ کی قدامت پسند ریاست بنادی جائے اس مقصد کیلئے کئی خودساختہ نظریات تراشے گئے پورے نصاب کو کئی بار تبدیل کیا گیا افغانستان میں پہلے نام نہاد جہاد لڑاگیا جس نے ملک کو شدید معاشی سیاسی اور معاشرتی پستی میں دھکیل دیا جبکہ ضیاؤ الحق کے جانشین جنرل پرویز مشرف نے بھی افغانستان پر تباہ کن حملوں میں ساتھ دیا حالانکہ جنرل مشرف خود کو روشن خیال میانہ رو اور پروگرسیو شخصیت کہتے تھے لیکن وہ جنرل ضیاؤ الحق کے قائم کردہ مائنڈ سیٹ کولیکر چلے پہلے مشرف نے طالبان کی سرپرستی کی لیکن بعدازاں ڈالروں کی خاطر امریکہ کاساتھ دے کر افغانستان کی تاراجی میں حصہ لیا دونوں فوجی حکمرانوں نے جو کچھ کیا اسکے نتیجے میں اس خطے میں بے شمار انسانی المیوں نے جنم لیا لاکھوں بے گناہ شہری قتل وزخمی ہوئے اورگزشتہ چاردہائیوں سے امن نہیں آیا پاکستان بدستور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے معاشی زبوں حالی انتہا کو پہنچ گئی ہے ایک نام نہاد نودولتیہ اشرافیہ نے ریاست پر مکمل طور پر قبضہ کرلیا ہے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ساری دولت ایک فیصد اقلیت کے تصرف میں ہے جن کی لوٹ مار نے ریاست کو کنگال اورغریب عوام کوفاقوں پر مجبور کردیاہے۔
اگرچہ تحریک انصاف نے نوجوانوں کو تبدیلی اور کرپشن کے خاتمہ کے نعرے دیئے تھے جس کی وجہ سے اسے ووٹ پڑے لیکن اس کا ایجنڈا سرے سے تبدیلی کا نہیں تھا اسے بس کسی نہ کسی طرح اقتدار چاہئے تھا اپنی خمیر میں تحریک انصاف اس طرح کی قدامت پسند اور رجعت پسند نظریات کا حامل ہے جیسے ضیاؤ الحق تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ جناب عمران خان کے آئیڈیل فیلڈ مارشل ایوب خان ہیں جنہوں نے پہلا مارشل لالگاکر ملک کی تباہی کی بنیاد رکھ دی ان کے پیریٹی نظام نے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو شدید احساس محرومی سے دوچار کردیا جس کے نتیجے میں ایوب خان کے زوال کے تین سال بعد سقوط ڈھاکہ کا المیہ پیش آیا اس کے باوجود ہمارے وزیراعظم کے آئیڈیل ایوب خان ہیں ایوب خان نے اپنے دور میں پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈی ننس کاکالا قانون نافذ کیا تھا جو بدترین کالا قانون تھا جس کا مقصد آزادی صحافت پر قدغن لگانی تھی اس سے بدترعمل جنرل ضیاؤ الحق نے کیا جبکہ جنرل پرویز مشرف نے کئی ماہ تک ٹی وی چینلوں پر پابندی لگادی تھی مقام افسوس ہے کہ عمران خان بھی کالے قوانین بناکر میڈیا کی آزادی اور اظہار رائے پر پابندی لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا مجوزہ قانون اسی مقصد کیلئے ہے اس کے ساتھ ہی یہ حکومت سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگاکر چین اور روس اور شمالی کوریا جیسے اقدامات کرنا چاہتی ہے حالانکہ اس وقت سوشل میڈیا کااستعمال سب سے زیادہ خود تحریک انصاف کررہی ہے اس کی سوشل میڈیا ٹیم سینکڑوں لوگوں پر مشتمل ہے جس کاکام سیاسی مخالفین کیخلاف پروپیگنڈہ کرنا ہے بدقسمتی سے اس ٹیم نے کچھ عرصہ سے ان صحافیوں اور اینکر پرسن کو ہدف بنانا شروع کردیا ہے جو آزادانہ رائے رکھتے ہیں یا حکومت کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ایسے آزاد میڈیا پرسنز میں عاصمہ شیرازی بھی شامل ہیں بلکہ سب سے زیادہ نمایاں ہیں اگرعاصمہ شیرازی چاہتی تو انہیں حکومت سے بہت کچھ مراعات مل سکتی تھیں لیکن انہوں نے آزادی اظہار کو مراعات پرفوقیت دی جس کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ انہیں معتوب ٹھہرایا جائے اگرتحریک انصاف کی بادشاہت ہوتی تو وہ عاصمہ شیرازی کو مصلوب کرنے سے بھی گریز نہ کرتے لیکن ذات پر حملہ کردارکشی دھمکیاں اور تہمت لگانا اگرچہ مصلوب کرنے کی سزا نہیں ہے لیکن یہ رفتہ رفتہ یادھیرے دھیرے ایک شخصیت اور اس کی صلاحیتوں کو قتل کرنے کے مترادف ہے عاصمہ شیرازی سے یہ گناہ سرزدہوگیا تھا کہ اس نے حکومت کی پالیسیوں خاص طور پر موجودہ مہنگائی کے حوالے سے اس کی معاشی پالیسیوں پرتنقید کی تھی اور لکھا تھا کہ یہ مسائل جادو ٹونے سے حل نہیں ہونگے تحریک انصاف کے متوالوں نے اس سے یہ مراد لیا کہ یہ خاتون اول کی شان میں گستاخی ہے حالانکہ عاصمہ نے ایسی کوئی گستاخی کی جسارت نہیں کی تھی بلکہ یہ غلطی تحریک انصاف کی نالائق میڈیا منیجروں سے ہوئی کہ انہوں نے یہ شک پیدا کیا کہ جہاں کہیں جادو ٹونا یاجنتر منتر کے لفظ استعمال ہوں تو اس کا اشارہ خاتون اول کی طرف ہے حالانکہ خاتون اول سب کیلئے قابل احترام ہیں آج تک کسی ذمہ دارمیڈیا پرسن نے ان پر اس حوالے سے تنقید نہیں کی سوشل میڈیا کی بات الگ ہے سیاسی مخالفین کی کردار کشی کاآغاز تحریک انصاف کی ٹیم نے کیاتھا۔
کیاعاصمہ شیرازی کی کردار کشی اس لئے جائز ہے کہ وہ کسی سیاسی منصب پر نہیں ایم این اے یا سینیٹر نہیں یا ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں۔
یہ سراسر غلط تاثر ہے کہ صاحب عزوشرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو اعلیٰ منصب پر فائز ہوں حالانکہ پاکستان میں بہت کم سیاستدان طویل جدوجہد کرکے اقتدار تک آتے ہیں اس کے برعکس ان صحافیوں کی فہرست طویل ہے جنہوں نے جمہوریت اعلیٰ انسانی اقدار اوراظہاررائے کی آزادی کیلئے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔
اگر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین باعزت ہیں تو عاصمہ شیرازی بھی ایک عزت ماب خاتون ہیں طویل صحافتی کیریئر میں ان کی کوئی خامی منظر عام پر نہیں آئی ان کی طرف کوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا۔
لہٰذا تحریک انصاف کو اپنا وطیرہ بدلنا چاہئے اس کا کام حکومت چلانا اور معاشرے کو ٹھیک کرنا ہے ناکہ معاشرے کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے لڑانا حکومتوں کا کام خلق خدا کو جوڑنا ہے تقسیم کرنا نہیں ہے۔
ہونا یہ چاہئے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل معذرت طلب کریں اور اپنی سرکش میڈیا ٹیموں کو لگام دیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں