ایک اور موہن جودڑو

تحریر: انورساجدی
سپریم کورٹ عدالت عظمیٰ ہے اس کا ہر فیصلہ آخری اور حتمی ہوتا ہے اور ریاست کی رٹ برقرار رکھنے کیلئے اس کے فیصلوں پر من و عن عمل کرنا ضروری ہے عدالت عظمیٰ نے اپنے حتمی فیصلے میں سندھ حکومت کو حکم دیا ہے کہ شاہراہ فیصل پر واقع نسلہ ٹاور کو دھماکے سے گرایا جائے حکم میں واضح کیا گیا ہے کہ عمارت کو چھینی اور ہتھوڑے سے نہ توڑا جائے بلکہ دھماکے سے گرادیا جائے میں سوچ رہا ہوں کہ عمارت کو بارود لگاکر یا کسی اور طریقے سے دھماکے سے گرانے کی کیا منطق ہے۔
اگر حتمی فیصلے کے ساتھ عمارت کی منظوری دینے والے افسران کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا اور ان سے پوچھا جاتا کہ انہوں نے تعمیر کی منظوری کیسے دی نقشہ کیسے پاس کیا اور این او سی کیسے جاری کیا تو انصاف کے تقاضے پورے ہوتے اسی طرح جس بلڈر نے عمارت کے مکینوں کو عمر بھر کی جمع پونجی سے محروم کیا اسے بھی کٹہرے میں لانا لازم تھا وہ تو موقع پاکر فرار ہوگیا ہے لیکن کئی خاندانوں کو بے گھر اور زندہ درگور کرنے کا مرتکب ہوا ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ کل جب سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ عدالت کے روبرو کھڑے تھے تو انہیں حکم دیا جاتا کہ متاثرین کو عارضی شیلٹر دیا جائے تاکہ وہ کھلے آسمان تلے پڑے رہنے پر مجبور نہ ہوں۔
ایک اور دلچسپ فیصلہ یہ آیا ہے کہ اولڈ کلفٹن میں واقع عمارت موہٹہ پیلس کوگرلز میڈیکل کالج میں تبدیل کیا جائے فیصلہ تو اچھا ہے لیکن اس عمارت میں اتنی گنجائش نہیں کہ یہ میڈیکل کالج بن سکے اگر اس کے سبزہ زار کو کنکریٹ کی عمارتوں میں تبدیل کیا جائے تو کوئی اچھا منظر نہیں بنے گا چونکہ عمارت تاریخی ورثہ ہے اس لئے اس کا موجودہ حالت میں برقرار رہنا شہر کے مفاد میں ہے۔
گزشتہ صدی میں تعمیر ہونے والی یہ پرشکوہ عمارت کسی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ متروکہ افلاک کے زمرے میں آتی ہے بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترم فاطمہ جناح ضرور اس میں مقیم رہی ہیں لیکن اسے قصر فاطمہ قراردینا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے ایک فرق یہ ہے کہ بمبئی شہر میں بانی پاکستان کا جو گھر ہے ابھی تک اس کا نام جناح ہاؤس ہے اور اسے بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی اس صورت میں کیا ضرورت ہے کہ موہٹہ یا متہہ پیلس کا نام تبدیل کیا جائے اور اس کی بنیادی ہیئت بدل کر اسے کالج میں تبدیل کیا جائے موجودہ حالت سے پہلے یہ عمارت بہت بری حالت میں تھی برسوں تک اس کی طرف دھیان نہیں دیا گیا تھالیکن جب سے اسے آرٹ اور میوزیم کیلئے مختص کردیا گیا ہے تو اس کا سابقہ حسن بحال ہوگیا ہے اور اس جیسی دلکش جگہ پورے کلفٹن میں موجود نہیں ہے ماضی میں اس عمارت کو ہتھیانے کی بری کوشش کی گئی لیکن عدالتوں نے اسے ناکام بنادیا مثال کے طور پر قیام پاکستان کے فوراً بعد دفتر خارجہ نے اس پر قبضہ کرلیا فارن آفس نے عمارت کے پہلو میں کچھ بدنما دفاتر بنائے جو آج بھی موجود ہیں اس کے بعد محترمہ جناح نے یہاں رہائش اختیار کی اوراپنی موت تک اسی عمارت میں مقیم رہیں ابتدائی دنوں میں نواب آف جونا گڑھ اور بھوپال کے نواب خاندان نے بھی اسے کلیم میں حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن چند دانا افسروں نے یہ کوشش ناکام بنادی۔
عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ وہ کراچی کی تاریخی عمارتوں کا سروے کرنے کا حکم دیں کیونکہ بیشتر تاریخی ورثہ ختم ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ بدصورت ہائی رائز بلڈنگز تعمیر کی گئی ہیں شہر کے ساتھ ایک بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ رہائشی مکانات کی جگہ کمرشل عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں جس کی وجہ سے کراچی پورے کا پورا گرے اسٹرکچر میں تبدیل ہوگیا ہے حالانکہ اسی سال عدالت عظمیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ کراچی 1960 کی دہائی میں جس طرح تھا شہر کی وہ حالت بحال کی جائے اگرچہ یہ تو ممکن نہیں کیونکہ 1960 میں کراچی کی آبادی صرف 30 لاکھ تھی جو اب 3 کروڑ ہوگئی ہے اس پر طرہ یہ کہ ایک کروڑ سے زائد لوگوں کے نام مردم شماری میں درج نہیں کئے گئے ہیں اس لئے اس شہر کی منصوبہ بندی ممکن نہیں ہے البتہ اس کے مرکزی علاقے کو بچایا جاسکتا ہے مثال کے طور پر صدر،گارڈن،لیمارکیٹ اور کلفٹن ان علاقوں میں ملٹی اسٹوری تعمیرات پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے کراچی کی جس طرح مشروم گروتھ ہوئی ہے اس کی مثال ساری دنیا میں موجود نہیں ہے یہ شہر اسی گروتھ کی وجہ سے جس طرح تباہ و برباد ہوا ہے اس کی نظیر بھی دنیا بھر میں نظر نہیں آتی اسی لئے بعض لوگ کراچی کو دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی قرار دیتے ہیں یہ شہر کافی عرصہ سے مختلف مافیاز کے قبضہ میں ہے جن میں ڈرگ مافیا، بلڈر مافیا اور سیاسی مافیا بطور خاص قابل ذکر ہیں بنیادی طور پر سیاسی مافیا باقی مافیاز کا گماشتہ اور سہولت کار ہے شہر کی ساری پلاننگ عوام کی بجائے ان مافیاز کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی جاتی ہے۔
چلو نسلہ ٹاور غیر قانونی تھا اسے گرانے کا حکم درست ہے لیکن یہ جو بحریہ ٹاؤن ہے یہ کیا ہے وہاں پر ہزاروں نسلہ ٹاور غیر قانونی طور پر بنائے گئے ہیں اگر عدالتیں انکوائری کروائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اکثر عمارتوں کی منظوری نہیں لی گئی بحریہ ٹاؤن نے ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین غریب لوگوں کی صدیوں کی اراضی کھیت کھلیان اور گوٹھ زبردستی اپنی حدود میں شامل کرلی ہیں آج تک کسی حکومت اور کسی عدالت نے اس سے کچھ پوچھا حتیٰ کہ بحریہ ٹاؤن نے قدرتی ندی نالوں اور آبی گزرگاہوں کا راستہ بند کرکے انہیں اپنی حدود میں شامل کرلیا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ زمین لوگوں کی تھی الاٹ سندھ حکومت نے کی قیمت عدالت نے لگائی اور معلوم نہیں کہ وصول کس نے کی آج تک نہیں بتایا گیا کہ 460 ارب روپے میں سے ملک ریاض نے کتنی رقم جمع کروائی ہے۔
آخر طاقت طاقت ہوتی ہے بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کو ملانے کیلئے سندھ حکومت ملیر ایکسپریس وے بنارہی ہے عجیب حکومت ہے کہ اپنے عوام کے گھر کھیت اور باغات بلڈوز کرکے ایک کمرشل پروجیکٹ کو سہولتیں فراہم کررہی ہے اس نام نہاد ایکسپریس وے کی وجہ سے سینکڑوں لوگ بے گھر ہونگے ملیر کا باقی ماندہ سبزہ زار تباہ ہوجائے گا کیا ایک کھرب پتی سیٹھ کا اتنا اثر ہے کہ پوری سندھ حکومت اس کی غلام بنی ہوئی ہے کم از کم سندھ حکومت بتائے کہ اس کی پوزیشن کیا ہے آیا سندھ حکومت کو ملک ریاض نے ٹھیکہ پر لے لیا ہے سندھ کے وزیر اور گورنر اس کے زرخرید غلام ہیں اور ملک صاحب ان کا اصلی آقا ہے کراچی کے دیہات اس کے سبزہ زاروں مرغزاروں آبی گزرگاہوں پہاڑوں اور میدانوں کے ساتھ جو ہورہا ہے اس نے یروشلم میں اسرائیلی اقدامات کو بھی شرما دیا ہے شاید آصف علی زرداری کو معلوم نہیں کہ اس نے کتنا بڑا جوا کھیلا ہے اپنے عوام کو روند کر ان کے ووٹوں اور احسانوں کا بدلہ اس طرح ادا کررہے ہیں کہ یا سارا کچھ ملک ریاض کی ایسٹ انڈیا یا ایسٹ پنجاب کمپنی کے حوالے کررہے ہیں ملک ریاض دولت تو دے سکتے ہیں لیکن وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دلاسکتے اگر اطوار یہی رہے تو پیپلزپارٹی پنجاب کی طرح سندھ سے بھی رخصت ہوجائے گی۔
جس کے بعد زرداری اور ملک ریاض مل کر ”ناؤمل“ کا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن عوام سے پیپلزپارٹی کا رشتہ ختم ہوجائے گا ملیر سے کوہستان اور نواب شاہ تک کا علاقہ جو اسرائیل کے رقبہ سے 10 گنا بڑا ہے ایک سود خور کے حوالہ کرنا ایک تاریخی جرم ہے جس کا کفارہ کبھی ادا نہیں کیا جاسکے گا۔
سندھ حکومت اور کچھ نہیں کرسکتی تو جن لوگوں کی چھت چھین لی گئی ہے انہیں بحریہ ٹاؤن کے اندر کوارٹر بناکر آباد کرے بے شک اس میں گجرنالہ اور نسلہ ٹاور کے متاثرین کو بھی شامل کیا جائے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ بحریہ ٹاؤن ایک عظیم شہر بنے گا یا موہن جودڑو کا روپ دھارے گا لیکن اس پر حق ملیر کے لوگوں اور بلوچستان کے ان لوگوں کا ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر دربدر ہوئے ہیں کیونکہ بحریہ ٹاؤن بلوچوں کے قبرستانوں پر ایستادہ ہے جب جغرافیہ نے کروٹ بدلی تو سارے ملک ریاض بھاگ جائیں گے اور یہ خوشنما شہر سندھ کے اندر ایک اور موہن جو دڑو کی شکل اختیار کرلے گا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں