کچھ انسانی حقوق کے بارے میں

تحریر ” ندیم مینگل
1973ء کے آئین پاکستان کے مطابق پاکستان کے تمام شہریوں کو مختلف قسم کی آزادیاں فراہم کی گئی ہیں۔یہ حقوق تقریباََ دنیا کے تمام ممالک میں یکساں طور پر شہریوں کو فراہم کی جاتی ہیں مگر پاکستان میں بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے تمام حقوق جنہیں بنیادی حقوق کہا جاتا ہے صرف اور صرف آئین کے شقوں میں اور کاغذوں میں موجود ہیں۔ عملی اور تجرباتی زندگی میں انہیں ہر صاحب اختیار و صاحبِ غیر اختیار جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ پاکستان کے 1973ء متفقہ آئین کے آرٹیکل نمبر 9 "Security of person and life” "فرد کی سلامتی” پر مشتمل ہے مگر ہر ذی ہوش شہری کے سامنے روزانہ کئی قتل کے واقعات سامنے سے گزرتے ہیں بم دھماکوں میں کئی جانیں چلی جاتی ہیں شاہراہوں پر روزانہ کی بنیاد پر حادثات میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔تحفظ اور امن کے نام پر ادارے خود لوگوں کی جانیں لینے سے نہیں کتراتے۔ان تمام لوازمات کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ آئین پاکستان ہر وقت ردی کی ٹھوکری میں پھینک دیا جاتا ہے، محض اسکے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنائے ہوئے ہیں۔
اسی آئین کے آرٹیکل 10 Safeguard as to arrest and juggling یعنی "گرفتاری اور نظر بندی سے تحفظ” پر مشتمل ہے۔ حقیقی معاملات اس شق کے بھی برعکس ہیں ایشین ہیومن رائٹس رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیں تمام تر آئین کی پامالیاں مملکت خداداد میں ہوئی ہیں۔بلوچستان اور سندھ کے لوگوں کے مطابق ان کے ہزاروں افراد لاپتہ ہیں جنہیں ریاستی اداروں نے اٹھا کر جبراََ لاپتہ کیا ہے اور کئی لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد کی جاچکی ہیں حال ہی میں بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جس کے خلاف لواحقین ابھی تک گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔بعض لوگوں کو پولیس کے ذریعے گرفتار کرکے بعد ازاں انہیں لاپتہ کیا جاتا ہے سندھی اور مہاجر آبادی بھی اس عمل سے شدید متاثر ہے۔
اسی طرح بنیادی حقوق میں صحت کے حوالے سے بھی کوئی پرسان حال نہیں۔بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ اوسط 260 سے 400 تک خواتین زچگی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔چاغی میں کیا جانے والا نیوکلیئر بم دھماکوں سے ذرات کے پھیلاؤ نے کینسر جیسے موذی مرض کو جنم دیا ہے جس کے سدباب کیلئے کوئی راستہ نہیں اپنایا گیا۔کینسر سے بھی سالانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح آرٹیکل 8 "بنیادی حقوق اور حکمت عملی کے اصول” آرٹیکل 10 a ” منصفانہ سماعت کا حق ” آرٹیکل 14 "شرف انسانی وغیرہ کی آزادی ” آرٹیکل 15 "نقل و حرکت وغیرہ کی آزادی” آرٹیکل 19 "تقریر وغیرہ کی آزادی وغیرہ تمام تر اپنی اصل صورت میں عملدرآمدی سے قاصر ہیں بلکہ ان کے برعکس جگہ جگہ انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں کئی جگہوں پر لوگ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔جس سے آئین و قانون کی بالادستی کی غیرعملداری اور غیر موجودگی ظاہر ہوتیہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں