سوشل انارکی

تحریر: انورساجدی
پاکستانی سماج اس وقت شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے صدیوں سے قائم سماجی اقدار دم توڑ رہی ہیں اس کی وجوہات تو سماجی علوم کے ماہرین ہی بتاسکتے ہیں لیکن ظاہری طور پر وہ تبدیلیاں ہیں جو گزشتہ نصف صدی میں وقوع پذیر ہوئی ہیں ریاستی ڈھانچہ کی ہئیت بدل کر جن اداروں نے ریاست کی نظریاتی سمت بدل دی ہے اور ایک ایسا نظریہ تخلیق کیا ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے وہ بھی بڑی حد تک اس زوال پذیری کے ذمہ دار ہیں اس کے علاوہ ریاستی وسائل پر ایک فیصد نودولتیہ اشرافیہ کے قبضہ عام آدمی کو مزید غربت اور فاقوں میں دھکیلنے کے عمل نے بھی گہرا اثر ڈالا ہے پاکستان کا عام آدمی اس وقت جس بے بسی کسمپرسی اور زبوں حالی کا شکار ہے اس کی وجہ سے سماج میں بدلاوا آرہا ہے ہر طرف مفاد پرستی رشوت سفارش لوٹ مار اور بے ایمانی کا دوردورہ ہے اس صورتحال کو ”سوشل انارکی“ کانام دیا جاسکتا ہے ہر شخص اپنے مفاد اور ذاتی منفعت کے پیچھے بھاگ رہا ہے جس کی وجہ سے جھوٹ غلط بیانی اور دروغ گوئی کو اچھا خاصا فروغ مل رہاہے۔
ہر طرح کے رشتے دم توڑ رہے ہیں حتیٰ کہ خونی رشتے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی نے بھی کم قیامت برپا نہیں کی ہے انٹرنیٹ کے استعمال نے تمام رشتوں کو ایک دوسرے سے بیگانہ کردیا ہے 22کروڑ کے ملک میں جہاں کی بالغ آبادی نصف سے زیادہ ہے لیکن موبائل ٹیلی فونز کی تعداد18کروڑ ہے سیل فون کی کمپنیاں حیران ہیں کہ اس ملک میں اتنے زیادہ فون کیسے فروخت ہورہے ہیں سوشل میڈیا نے سماجی اقدار پر خودکش حملہ کیا ہے۔
خبروں اور اطلاعات کے ذرائع بہت وسیع ہوگئے ہیں پوری دنیا ایک انگلی کے اشارے پر ہے ہر ملک اور ہر براعظم کی اطلاعات برق رفتاری سے موصول ہورہی ہوتی ہیں کوئی شعبہ ایسا نہیں کہ اس کے بارے میں اربوں صفحات پر مشتمل ڈیٹاموجود نہ ہو پاکستانی حکومتوں نے انٹرنیٹ کے استعمال کا کوئی ضابطہ نہیں بنایا جس کی وجہ سے ایک پوری نسل تباہی کا شکار ہے اب جبکہ حکومت نے نئے ضوابط تشکیل دیئے ہیں تو وہ بھی یک طرفہ اور عدم توازن کا شکار ہیں یعنی ابتک مادرپدر آزادی تھی تو پابندیاں ایسی تجویز کی گئی ہیں جیسے قہرآلود سنسرشپ نافذ کی جارہی ہو۔
بجائے کہ حکومت ایک حقیقت پسندانہ پالیسی نافذ کرے وہ چین،روس اور شمالی کوریاں کاسسٹم اپنارہی ہے اس اقدام کا مقصد بھی کوئی اصلاح نہیں بلکہ حکومت مخالف سرگرمیوں کو روکنا ہے اسی لئے نام نہاد ”فیک نیوز“ کی آڑ لیکر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بعد سوشل میڈیا پر سخت گیرپابندیاں عائد کی جارہی ہیں ایک ایسی حکومت جس کے سربراہ نے لاہور کی انگریزی درسگاہ ”ایچ ای سن“ اور شہرہ آفاق ادارہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تھرڈ گریڈ ہی میں سہی تعلیم حاصل کی ہو وہ 21ویں صدی کے اس قاتلانہ دور میں سنسرشپ سوشل میڈیا پر قہرآلود پابندیوں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر خبروں کے بلیک آڈٹ عائد کرنے کے بارے میں قانون لارہی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کا حلیہ انتا بگاڑا جاچکا ہے کہ پرائیویٹ چینلوں سے زیادہ خبریں پی ٹی وی پر نشرہورہی ہیں اس سنسر شپ کی ایک مثال اس وقت سے سامنے آرہی ہے جب انتہا پسند تنظیم تحریک لبیک کا اسلام آباد مارچ شروع ہوا ہے چینلوں نے لاہور اور سادھوکی کی جھڑپوں کا اس وقت تک بلیک آؤٹ کیا جب تک حکومت نے اپنا ورژن نہیں دیا حکومتی موقف سامنے آنے کے بعد تمام چینل حکومتی ترجمان بن گئے اور انہوں نے وزیرداخلہ وزیراطلاعات اسد عمر اور دیگر وزراء کے بیانات دینا شروع کردیئے جانی نقصان ایک طرف کا دکھایا گیا اور دوسرے فریق کے موقف کو سنسر کیا گیا ٹی ایل پی کا مارچ غلط ہے یا صحیح ہے اس کا موقف درست ہے کہ نہیں یہ الگ بات لیکن مارچ کی خبروں کو غائب کرنا کونسا طریقہ ہے۔
اس حکومت کے کیا کہنے اس نے خود ٹی ایل پی سے تحریری معاہدہ کررکھا ہے جس میں اس کے تمام مطالبات منظور کرلئے گئے ہیں جن میں فرانسیسی سفیر کی بے دخلی بھی شامل ہے لیکن اچانک حکومت نے بدعہدی اور غلط بیانی سے کام لیکر یوٹرن لیا ویسے بھی یوٹرن لینا اس حکومت کا وطیرہ ہے بلوچستان کے مسائل خاص طورپر مسنگ پرسنز کے حوالے سے اس حکومت نے سردار اخترمینگل سے معاہدہ کیا لیکن کبھی اس پر عملدرآمد کی زحمت نہیں کی وزیراعطم عمران خان نے خود بیان دیا کہ وہ جام کمال کے ساتھ ہیں لیکن پیٹھ پیچھے انہوں نے چیئرمین سینیٹ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری وزیردفاع پرویز خٹک اور دیگر نمائندوں کو ہدایت کی کہ بلوچستان میں تبدیلی لائی جائے حالانکہ وہ یہ بات واضح طور پر بھی کہہ سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے روایتی طریقہ کار سے کام لیا!
اگرچہ بلوچستان میں جس چیز کا نام سیاست ہے وہ تو موجود ہی نہیں ہے لیکن مروجہ سیاست کے مطابق دیکھا جائے تو چیئرمین سینیٹ مسٹر صادق سنجرانی کا پہلا انتخاب اور انکا موجودہ دورانیہ صرف اور صرف آصف علی زرداری کا مرہون منت ہے زرداری نے سنجرانی کو لانے کیلئے پہلی مرتبہ تحریک انصاف سے اتحاد کیا تھا انکے خلاف عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے زرداری نے اپنے ہی امیدوار کو ناکام بنانے کا رسک بھی لے لیا اگرسنجرانی میں کوئی بھی رمق بھی باقی ہو وہ زرداری کی مخالفت نہیں کرسکتے بلکہ وہ آئندہ چل کر پیپلزپارٹی کے سہولت کار بن سکتے ہیں اسی طرح میرعبدالقدوس بزنجو نے دوسال قبل زرداری سے ملاقات کرکے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ آئندہ انتخابات کے موقع پر پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے۔
اگرچہ فی زمانہ رائج سیاست میں ایسے وعدوں کی پاسداری ممکن نہیں لیکن قدوس بزنجو کی وزارت اعلیٰ کیلئے انہوں نے کافی کوششیں کیں کئی اراکین سے رابطہ قائم کیا اور نواب ثناء اللہ کو کھل کر حمایت کی ہدایت کی اس کے بعد ہی بازی پلٹ گئی۔
جام کمال بھی خود اختیار کردہ سماجی اقدا کی وجہ سے یکہ وتنہا رہ گئے ان کا دوست صرف سوشل میڈیا کے نیٹ ورک تھے وہ اس میں مگن رہتے تھے اور اپنے وزراء اور اراکین اسمبلی کو اہمیت دینے کی بجائے ایک خیالی دنیا میں رہتے تھے ایک ایسی دنیا جس کا زمینی حقائق اور یہاں کی رہنے والی مخلوقات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اگرچہ سماجی اعتبار سے ریاست کے تمام علاقوں کا ایک جیسا حال ہے یاوہی حال ہے جو فیصل واؤڈا نے کالا سیاہ بوٹ ٹیبل پر رکھ کر اس سماج کی اصل ہئیت آشکار کی تھی لیکن بلوچستان اس حوالے سے کچھ خاص ہے اس کی سماجی اقدار کو توڑنے کیلئے طویل عرصہ سے کام ہورہا ہے یہاں ایک جدا گانہ طرز سیاست رائج کی گئی ہے جماعت بھی اپنی بنائی گئی ہے اور60فیصد سے زائد وہ لوگ لائے گئے ہیں جن کا سیاست میں کبھی کوئی کردار نہیں رہا ہے اور نہ ہی انہوں نے سماج کی کوئی خدمت کی ہے اس کی وجہ سے وہ لوگ جو اعلیٰ مناصب پر پہنچے ہیں وہ بے انتہا ممنون احسان ہیں ان کی زندگی کا مقصد ایک بے انتہا آسودہ حال زندگی گزارنا ہے اور کسی قسم کی تبدیلی یا کارروائی پرلب کشائی نہیں کرنی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے جو کچھ حاصل ہے وہ پل بھر میں چھن بھی سکتا ہے۔
یہ کریڈٹ جنرل ضیاء الحق کے سوا اور کسی کو نہیں جاتا کہ انہوں نے1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جو نابغہ روزگار مخلوق اکٹھی کی وہ آج بھی پاکستان پر مسلط ہے پہلے اس طبقہ کے سرخیل نوازشریف تھے لیکن جب انہوں نے راستہ الگ کیا تو انہیں درس عبرت بنایاگیا۔چوہدری پرویز الٰہی آج بھی اسپیکر کی صورت میں تخت لاہور پربراجمان ہیں اور ایک بارپھر وزارت اعلیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں ضیاؤ الحق نے سیاست کی جو نئی شرح وضع کی تھی جناب عمران خان اس پر سوفیصد پورااتررہے ہیں اس حکومت کی تمام تر پالیسیاں ان سیٹھوں اور نودولتیہ اشرافیہ کے مفاد میں بن رہی ہیں جو ضیاؤ الحق نے تخلیق کیا تھا قیام پاکستان سے لیکر ایوب خان اور اس کے بعد کے ادوار میں سیٹھوں کا جو سکہ بند طبقہ تھاختم ہوگیا ہے جسے22 خاندانوں کا نام دیا گیاتھا شائد داؤد اور آدمجی کی نئی نسل کی نمائندگی ہو لیکن باقی سب کی جگہ نئی اشرافیہ لے چکی ہے۔
میاں منشا سے لیکر سیٹھ ریاض تک سارے وہ لوگ ہیں جن کا کاروباری جنم1985ء کے بعد ہوا نودولتیوں کا یہ طبقہ بہت بے رحم ظالم اور مطلبی ہے۔
بلوچستان تو نودلتیوں کی دوڑ میں بھی بہت پیچھے رہ گیا ہے۔اس وقت کے سارے سیٹھوں کا تعلق تین صوبوں سے ہے بلوچستان میں اس طبقہ کی نمائندگی میاں سیف اللہ پراچہ کررہے تھے جو رخصت ہوچکے ہیں باقی لوگ تو بس پیٹ اچھا پال کر خوش ہورہے ہیں۔
سماجی اقدار ٹوٹنے کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ کافی سال پہلے ایک گرگ باراں دیدہ ایم این اے ایک وزیر سے ملاقات کیلئے پارلیمنٹ ہاؤس میں ان کے چیمبر گئے وہاں پر لوگوں کاکافی رش تھا ایک نوجوان نے ایم این اے سے کہا کہ آپ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں تجربہ کار سیاستدان سے کہا کہ دیکھو بھائی بات ہے ایک میں اپنے لئے کروں گا تو مجھے فائدہ ہوگا اگر تمہارے لئے کروں گا تو تجھے فائدہ ہوگا آپ سمجھو کہ میں کس کیلئے بات کروں گا۔
اس وقت پورے سماج کایہی حال ہے وزراء زیادہ پروجیکٹ اورفنڈز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں افسران منافع بخش پوسٹنگ کیلئے بھاگ دوڑ کرتے ہیں شوت کمیشن اور کک بیک لیناکوئی معیوب بات نہیں بس معیار زندگی بلند ہونا چاہئے کروڑوں کی بڑی بڑی گاڑیاں ہونی چاہئیں۔
علم کی قدر عنقا ہوچکی ہے استاد ادیب دانشور اور اسکالر کی کوئی عزت نہیں ان کی جگہ شمس الجہلا لوگوں نے لے لی ہے ہر طرف جہالت کا دور دورہ ہے جن عناصر نے سماج کی موجود شکل تخلیق کی ہے وہ خوش ہورہے ہیں کہ انہوں نے سماج کی ارتقاء مصنوعی طریقے سے روک دی ہے
لیکن یہ بالاآخر نہیں چلے گا
ارتقا کو کوئی نہیں روک سکتا

اپنا تبصرہ بھیجیں