انسانی حقوق کا المیہ

تحریر: امان اللہ کاکڑ
ہم بخوبی واقف ہیں کہ انسانی حقوق کا بنيادی مقصد یہی ھے کہ رنگ و نسل، مذہب، قوم و قبیلہ، فرقہ، ذات پاک سے بالا تر ہو کر حقوق انسانی سب کے لیے يكساں اور برابر ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ حقوق جو پیدائش سے لے کر مرتے دم تک آپ کے ساتھ ہوں جو چھینا نہ جا سکے اور نہ ہی ان کو ختم جا سکے بلکہ ایک مختصر عرصے کے لیے اس کو تحلیل کیا جا سکتا ہو اور وہ بھی تب جہاں پر قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔ انسانی حقوق کی تاریخ تو بڑی لمبی چھوڑی ہے کہ کیسے بنيادی حقوق کا خاکہ ہمارے ذہنوں میں نقش ہوا، اس میں ہزاروں جانیں قربان کی گئیں، ہزاروں سر کٹائے گئے، خون کی ندياں بہائی گئیں،ظلم و ستم، جبر اور اسحصال کی تاریخیں رقم کی گئیں، راستوں میں روڑے اٹکائے گئے، تشدد کیا گیا، پابندسلاسل کئے گئے غرض ہر وہ ناروا سلوک روا رکھا گیا لیکن مجال ہے کہ ان کو اپنے راستے سے ہٹا سکیں کیونکہ یہ سر پرے اپنے آنے والے نسلوں کو ایک بہتر سباون دینے کے خواہاں تھے، وہ یہ ظلم و ستم، ناانصافياں اور زیادتيوں کو بڑے تحمل، صبر و استقامت اور حوصلے کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور آخر کار وقت کے یزیدوں کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔

انسانی حقوق کا پہلا اور اولین مقصد یہی تھا کہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی جاۓ، انسانی زندگی سب سے افضل اور مقدم ھے اس کی حرمت کو تار تار نہ کیا جاۓ، مذید یہ کہ جان و مال کے ساتھ اس کی عزت و ابرو، وقار کا بھی پورا پورا خیال رکھا جاۓ، ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں کے درمیان عزت، سوج و بوجھ اور باہمی روابط کو مضبوط تر کیا جائے، جمہوری حقدار اور سماجی انصاف کا بول بالا رہے اور لوگوں کے درمیان امن، بھائی چارے، اپنايت، دوستی اور احساس کا ایک ایسا مضبوط ستون ہو جو کبھی بھی ٹوٹنے نہ پاۓ۔

یونیورسل ڈکلیریشن آف ہومین رائٹس کے چارٹر میں لکھے گئے کچھ ارٹیكلز جسکا تعلق ہمارے زندگی کے نجی، سماجی اور مذہبی روخوں سے ہے پیشِ خدمت ہے۔

1۔ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور ہر ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ امن، شانتی، بھائی چارے اور اپنايت کا برتاؤ رکھے گا۔
2۔انسانی بنيادی حقوق کا دوسرا آرٹیکل یہی بتاتا ہے کہ سارے انسان رنگ، نسل، قوم، زبان، ملت، ذات پاک سے بالاتر ہو کر قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ بنيادی انسانی حقوق سب کے لیے يكسان ہیں بلکل اسی طرح جس طرح ہمارے پیارے محمد ﷺ نے تين ہزار سال پہلے حج الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کے کسی عربی کو کسی اجمی پر، کسی اجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فو قیت نہیں سوا تقویٰ کی بنیاد پر۔
3۔تیسرا آرٹیكل یہی بتلاتا ہے کہ زندگی، روزگار اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہے، ریاست ہی شہریوں کے بنيادی حقوق کے حفاظت کا ضامن ہے، کسی جبر، ظلم، استحصال کی صورت میں ریاست سے ہی جواب طلبی کی جاۓ گی لیکن یہاں کہاں یہاں تو بنيادی حقوق تو کجا ہمیں زندگی سے ہی محروم رکھا جا رہا ہے، ہم سے جینے کا حق ہی سلب کیا جا رہا ہے، ہمارے پیاروں کو تعلیم، صحت، روزگار کی فراہمی تو دور یہاں چین سے جینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، ریاست مدینہ کے دعوے دار اپنے عیاشیوں میں مگن ہیں، نشے میں دھند رعایا کے دکھوں کا مداوا تو دور ان کے زخموں کی مرہم پٹی کے بجاۓ ان پر نمک پاشی کر رہی ہے۔ اتنے درد ہیں، اتنے غم ہیں، اتنت تکالیف ہیں کہ حیران ہوں کہ کن الفاظوں سے درد کو اپنے اندر سمو لوں، یہاں تو جنگل کا قانون ہے۔
4۔ آرٹیكل چار یہی کہتا ہے کہ ہر شہری کو حق ہے کہ وہ آزاد اور خود مختار اپنا مقدمہ لڑسکے، اسے حق ہے کہ وہ اپنا صفائی بیان کر سکے، عدليہ کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس کی سنوائی کر لے اسے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کا پورا پورا موقع دے لیکن نہیں یہاں کا پورا نظام ہی الٹ ہے، یہاں غریب در بدر کی ٹوکریں کھاتے انصاف کے امید میں بوڑھا ہو جاتا ہے، ایک الیکٹڈ ایم این اے مہینوں مہینوں جیل کے سلاخوں میں پڑا ہے لیکن ہمارا سپاسالار کہہ رہا ہے کہ جب تک وہ اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے اٹھائے گئے آواز پر معافی نہیں مانگے گا تب تک زندان سے خلاصی ممکن نہیں۔ وہ تو خیر لیکن ایک تین بار منتخب وزیراعظم کو اقامے پر نکالا گیا ہے، کوئی پوچھنے والا ہے کیا، لالا عثمان خان کاکڑ کو دن دہہاڑے اپنے ہی گھر میں شہید کیا گیا حالانکہ یہ اس کی سیاسی بصیرت ہی تھی کہ اس نے اپنے ہی زندگی اور سینٹ کے الوداعی خطاب میں قاتلوں کی نشاندہی کی تھی، ہے کوئی قانون، ہے کوئی عدالت، ہے کوئی جج جو لالا کے گھر والوں کو انصاف فراہم کر سکیں۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔
5۔ آرٹیکل پانچ یہی کہتا ہے کہ کسی بھی شخص پر ٹارچر نہیں کیا جاسکتا یا اُنکی بیتوقیری نہیں کی جاسکتی۔ اسکے ساتھ توہین آمیز سلوک روا نہیں کیا جاسکتا لیکن آئے روز ایسے کیسز آتے رہتے ہیں جس میں شہروں کی عزت نفس مجروح کیا جاتا ہے۔
6- چھٹا آرٹیكل یہی بتلاتا ہے کہ میں ایک آزاد شہری کی طرح جہاں بھی جانا چاہوں جب بھی جانا چاہوں مجھ پر کوئی روک ٹوک نہیں، مجھ سے بلا وجہ کے سوالات نہیں ہونگے، مجھے تنگ نہیں کیا جائیگا، مجھے گھر تک پہنچنے تک آٹھ بار شناختی کارڈ نہیں دکھانا پڑیگا لیکن نہیں میرے اپنے ہی دیس میں مجھ سے یہ حق بھی چھین لیا گیا ہے۔
17۔ آرٹیکل سترہ یہی کہتا ہے کہ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے نظریات، سوچ و فکر کے ساتھ اپنے لیے اپنی مرضی کے عقیدے اور مذہب کا چناؤ کر سکتا ہے۔
18۔ آرٹیكل 18 کا تعلق اسی سے ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ اپنے مادر وطن میں روزانہ کی بنیاد پر کتنے اقليتوں کو اس حق سے محروم کیا جاتا ہے، کتنوں کو جبرًا مسلمان کیا جاتا ہے۔ ان کی مزہبی آزادی کو کچلا جاتا ہے۔
19۔ آرٹیكل 19 کا تعلق آزادی اظہار راۓ سے ہے کہ ہر انسان کا یہ بنيادی حق ہے کہ وہ اپنے سوچ و فكر، مشاہدات، خیالات، تجربات اور احساسا ت کا کھلم کھلا اظہار کرے لیکن کہاں، آپ اس کی حالت بھی دیکھ لیں، میڈیا پر قد غنیں لگی ہوئی ہیں، اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والوں پر غداری کے فتوے سے نوازا جارہا ہے، سسٹم میں خامییوں کی نشان دہی کرنے والوں کو راء اور این ڈی ایس کے ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے، اگر آپ بول دیں کہ ملک حالتِ جنگ میں ھے تو ٹھیک لیکن اگر یہ بولیں کہ یہ ملک کیوں حالتِ جنگ میں ہے تو پھر آپ کو فی الفور ملک دشمن گردانا جاتا ہے۔

آخر میں ایک سوال اپنے قارئین کیلئے چھوڑ دوں گا کہ آیا اتنی اچھے، جامع اور بہترین چارٹرز دینے اور انسانی حقوق کا واویلا کرنے والوں نے خود اس پر کتنا عمل کیا ہے؟ اس کی مثال سعودی کا یمن، خود کو حقوق انسانی کا پاسدار سمجھنے والی امریکا کا افغانستان میں اور روس کا بالواسطہ طور پر بشارالاسد کے وسیلے سے شام میں ڈھائے جانے والا ظلم و بربریت کا ملاحظہ کریں تو اس سے صاف واضح نظر آتا ہے کہ انسانی حقوق کی چارٹروں کا عملی طور پر کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں