یہ بھی اپنے وہ بھی اپنے

تحریر: انورساجدی
اگر بات کو مذاق کی حد تک لیاجائے
تو صورتحال اس طرح بنتی ہے کہ
حکومت بھی ”انپڑی“ ہے اور تحریک لبیک بھی انپڑی ہے لہٰذا جب دو اپنے آمنے سامنے ہوں تو صلح کی صورت نکل آتی ہے تحریک لبیک نے پورا ایک عشرہ معاملات کو سرپر اٹھارکھا تھا کئی پولیس اہلکار ہلاک سینکڑوں زخمی ہوئے جی ٹی روڈ اور درجنوں شہر مکمل طور پر بند تھے حکومت دھمکیاں دے رہی تھی لیکن سب کو پتہ ہے کہ دونوں فریقین کی خمیر ایک تھی اس لئے وہ ایک حد سے آگے نہیں جاسکے تھے۔
لیکن
سنجیدہ بات یہ ہے کہ حکومت نے ایک مسلح جھتے کے آگے سرنڈر کرلیا یہ پہلا موقع نہیں کہ ٹی ایل پی کی جیت ہوئی ہے ن لیگ کے دور میں جب شاہدخاقان عباسی وزیراعظم تھے تو ایسا ہی ہوا تھا اس وقت کی حکومت نے بھی سرنڈر کیا تھا اس طرح یہ ثابت ہوا کہ تحریک لبیک ایک اہم اثاثہ ہے اور اسے کسی وقت بھی حرکت میں لاکر استعمال کیاجاسکتا ہے لوگ پہلے بھی مرے تھے اس دفعہ بھی مرے ہیں لیکن کوئی مقدمہ نہیں ہوگا غریب لوگوں کا خون حسب سابق معاف ہوگا اور تحریک کے رہنما آرام سے گھر جائیں گے اور پھر ایک نئے موقع اور نئی ہدایت کا انتظار کریں گے۔
یہ جو10دن تک ریاست اور حکومت کی رسوائی ہوئی ساری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی کہ پاکستان کیا ملک ہے جہاں جب بھی چاہیں 10ہزار لوگ سڑکوں پر آکر پورا سسٹم جام کرسکتے ہیں اور حکومت وقت کوسرنڈر پرمجبور کرسکتے ہیں اگرچہ اس سلسلے میں قصور سارا حکومت کا ہے کہ اس نے ٹی ایل پی سے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا تھا اور خود ہی اس سے روگردانی کرکے بدعہدی کی مرتکب ہوئی تھی یہ جو کئی دن سے وزیراطلاعات اور وزیرداخلہ بڑھکیں ماررہے تھے تحریک لبیک کے مارچ کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ دیکھ رہے تھے اور سخت ترین کارروائیوں کی دھمکی دے رہے تھے آج ان کی کیا عزت رہ گئی ہے۔
تحریک لبیک کے آگے سرنڈر ہونے سے یہ خیال آتا ہے کہ مولانا اور پی ڈی ایم کی جماعتیں حالات تبدیل کرنا نہیں چاہتیں وہ ٹائم پاس کرکے2023ء کے انتخابات کاانتظار کررہی ہیں ورنہ جی ٹی روڈ پر وہ10ہزار سے کہیں زیادہ لوگ لاکر اسلام آباد کی طرف مارچ کرسکتی تھیں اور حکومت کو دقت ڈال سکتی تھیں لیکن پی ڈی ایم کے رہنما ادھر ادھر جلسہ اور ریلیاں کرکے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں کیونکہ وہ وقت سے پہلے تبدیلی نہیں چاہتے وہ موجودہ حکومت کی بدحواسی بیڈگورننس اورمالیاتی نااہلی کو مزید اجاگر کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں جب دوسال پہلے مولانا نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو انہیں چائے پانی پر ٹرخایا گیا تھا ”پیزے“ کاایک ٹکڑا بھی نہیں دیا گیا تھا حالانکہ اس وقت پیزے والی سرکار ملک میں موجود اور اہم عہدے پر فائز تھے پیزے کے بغیر مولانا نے مارچ ختم کردیا تھا اور کپڑے جھاڑ کر سیدھے عبدل خیل گئے تھے۔
موجودہ حکومت کا نعرہ احتساب دراصل پاپا جونز پیزے کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا تھا کیونکہ جب ان کے مشیر کے اثاثے ظاہر ہوئے تو پیزے کے معاملہ کا ذکر نہیں تھا جو کہ اربوں روپے پر مشتمل تھا عجیب بات ہے کہ جو اعلیٰ شخصیات بلوچستان میں تعینات ہوئیں ان کے اربوں روپے کے اثاثے ظاہر ہوئے لیکن جنرل عبید اللہ خٹک کے سوا کسی کیخلاف کارروائی ناہوئی بلکہ عمران خان نے اپنے مشیر کو کلین چٹ دیدیا جس کے بعد لوگ سمجھ گئے کہ احتساب کا سارا نعرہمذاق ہے اور اس کا مقصد مخالفین کو پریشان کرنا اور سیاسی طور پر راستے سے ہٹاناہے۔
جہاں تک مسلح جھتوں کاتعلق ہے تو اس کا آغاز جنرل ضیاؤالحق نے کیا تھا ان کے دور میں سپاہ صحابہ نامی تنظیم وجود میں آئی تھی اس تنظیم نے کافی فرقہ وارانہ کارروائیاں کیں بعدازاں اس پر پابندی عائد کردی گئی اس تنظیم کے رہنماؤں نے لشکر جھنگوی کے نام سے نئی تنظیم بنائی
اس تنظیم کے پیروکار بنیادی طور پر جے یو آئی کے مکتبہ فکر سے تھے بھٹو کے دور میں تحریک تحفظ ختم نبوت کے نام سے ایک تنظیم بنی تھی اس کا تعلق بھی جے یو آئی سے تھا ریاست نے کافی عرصہ سے جہاد کشمیر کیلئے مسلح جھتے بنائے تھے جن میں بیشتر کشمیر کی تنظیمیں شامل تھیں البتہ ان میں سے جماعت الدعویٰ سب سے نمایاں ہے طویل عرصہ تک یہ جماعت ایک اہم قومی اثاثہ تھی تاہم عالمی دباؤ پر اسکے امیر حافظ سعید کو بظاہر نظربند کردیا گیا اور لاہور کے قریب مرید کے میں اس کے جنرل ہیڈکوارٹر کو حکومت نے تحویل میں لیا لیکن سارے ادارے کسی رکاوٹ کے بغیر چل رہے ہیں۔
جہادی فیکٹرجنرل ضیاؤ الحق کے دور میں اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں سوویت یونین کیخلاف جہاد شروع کردیا اس کے بعد جہاد ایک فیشن بن گیا سینکڑوں مسلح جھتے بن گئے اور سابقہ فاٹا ٹریننگ سینٹر کی حیثیت رکھتا تھا افغان جہاد کی وجہ سے اسامہ بن لادن افغانستان آیا اور یہیں سے القاعدہ کو منظم کیا گیا چند سال کے دوران سینکڑوں جہادی جھتے وجود میں آئے۔
افغان جہاد ختم ہونے پر امریکہ کے واپس جانے اور ضیاؤ الحق کے رخصت ہونے کے بعد مجاہدین افغانستان اور پاکستان کے اندر رہے رمزی یوسف خالد شیخ محمد عمارالبلوشی اور دیگر پاکستان کے اندر گرفتار ہوئے حتیٰ کہ اسامہ بن لادن کاکول اکیڈمی کے پہلو میں امریکہ کے ہاتھوں مارے گئے یہ ایک سربستہ راز ہے کہ اسامہ بن لادن نائن الیون کے بعد اتنا عرصہ کیسے ایبٹ آباد میں چھپے رہے سابق فوجی صدر جنرل مشرف نے کئی بار غیرملکی میڈیاز کوانٹرویو میں خود حیرانی کااظہار کیا کہ اسامہ کیسے ہماری نظروں سے اوجھل رہے لیکن اب سب کچھ ظاہر ہوگیا ہے اسامہ کی نشاندہی کرنے والا اعلیٰ اہلکار امریکہ میں پرتعیش زندگی گزاررہا ہے لیکن اس نے ابھی تک انعام میں حصہ دار اپنے ساتھیوں کے نام ظاہرنہیں کئے ہیں واقعہ ایبٹ آباد کو جب 30سال مکمل ہوجائیں گے تو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ واقعہ کی اصل صورتحال اور مدد دینے والی پاکستانی شخصیات کے ناموں کاراز طشت ازبام کردے گا۔
اسامہ تو امریکی آپریشن میں مارے گئے لیکن ایمن الظواہری غائب ہیں معلوم نہیں کہ وہ حیات ہیں یا مرچکے ہیں۔
مشرف کے دور میں جب ایم ایم اے کو اقتدار میں حصہ دیا گیا تو سوات میں ملافضل اللہ کی سربراہی میں ایک الگ اسلامی ریاست قائم ہوگئی ایم ایم والے کبھی سوات کو آزاد نہ کرواسکے اسی طرح صوفی محمد کی تحریک بھی اسی زمانے میں زوروں پر تھی جس نے ہزاروں معصوم نوجوان امریکہ کیخلاف جہاد میں حصہ لینے کیلئے افغانستان بھیجے تھے لیکن ان میں سے بہت کم واپس آئے۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان طویل عرصہ تک مجاہدین کے مختلف جھتوں کی آماجگاہ رہے حتیٰ کہ عرب اور افریقی جہادی بھی کافی عرصہ یہاں پت مقیم رہے حتیٰ کہ یہ ایسٹرن ترکستان موومنٹ کامرکز بھی رہا۔
اگر دیکھاجائے تو مسلح مذہبی جھتوں کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے امریکہ نے طالبان اس وقت تشکیل دیئے جب پاکستان میں بینظیر کی حکومت تھی تحریک طالبان پاکستان کے ایک تربیت یافتہ کمانڈر دستے نے2007ء میں راولپنڈی کے کمپنی باغ میں بینظیر کی جان لے لی جبکہ انہی جھتوں نے خیبرپشتونخوا میں اے این پی کے کئی درجن رہنماؤں اور کارکنوں پر خونی حملے کئے۔
نائن الیون کے بعد داعش نامی تنظیم بھی وجود میں آئی یہ تنظیم عراق اور شام سے رخصت ہوگئی لیکن یہ افغانستان اور پاکستان میں موجود ہے طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد داعش نے کئی جان لیوا حملے کئے ہیں حیرانی کی بات ہے کہ کوئٹہ اور کابل میں ہزارہ برادری پر جتنے حملے ہوئے داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی اس کے باوجود پاکستانی حکام کایہی دعویٰ رہا کہ داعش کایہاں پر وجود نہیں ہے حتیٰ کہ مستونگ کے قریب ایک چینی جوڑے کو ذبح کردیا گیا اور اس کی ویڈیو بھی جاری کردی گئی پھر بھی کہا گیا کہ داعش یہاں پر موجود نہیں ہے البتہ یہ امکان ہوسکتا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیاں داعش کے نام پر کی گئی ہوں۔
ماضی کے واقعات سے ثابت ہے کہ طویل عرصہ تک مذہبی عناصر میں مسلح جھتے سنی سے وابستہ لوگوں نے بنائے جبکہ1970ء سے2000ء تک بریلوی مکتبہ فکر پر امن رہا ان میں ملیٹینسی کا رجحان نہیں تھا لیکن تحریک لبیک کے قیام کے بعد اہم عناصر نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اس مسلک کو بھی استعمال کیاجائے یعنی یہ جن بھی خودتخلیق کیا گیا اسے حسب ضرورت بوتل سے باہر نکالاگیا اور دوبارہ بند کردیا لیکن لگتا ہے کہ مستقبل میں اسے دوبارہ بند کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہونگی جس طرح شاہدخاقان نے اس کے آگے سرنڈر کیا تھا اسی طرح موجودہ حکومت نے بھی سرنڈر کیا ہے ایک بنیادی بات یہ ہے کہ نورانی میاں کی رحلت کے بعد بریلوی مکتبہ فکر منتشر ہوگیا تھا لیکن ممتاز قادری کی سزائے موت کے بعد علامہ خادم حسین رضوی نے اس مکتبہ فکر کو اکٹھا کردیا اور ان کی قیادت میں نوجوانوں کا بڑا مسلح جھتہ تیار ہوگیا۔
معلوم نہیں کہ مستقبل میں یہ گروہ کیا شکل اختیار کرے گا لیکن یہ طے ہے کہ اسے جے یو آئی کے مقابل کسی وقت بھی استعمال کیاجاسکتا ہے جے یو آئی سکہ بند سیاسی لوگوں کا مجموعہ ہے جو کافی سیاسی بصیرت رکھتا ہے لیکن تحریک لبیک والے سیاسی لوگ نہیں ہیں اور ان کی اکثریت دنیا سے بے خبر معصوم لوگوں پرمشتمل ہے اس لئے انہیں آسانی کے ساتھ تحریک چلانے اور انتہا پسندانہ کارروائیوں پر آمادہ کیاجاسکتا ہے۔
چونکہ تحریک انصاف کے چیئرمین نے خود بریلوی مسلک اختیار کرلیا ہے اس لئے تحریک لبیک اور ان میں دوریاں درست معلوم نہیں ہوتیں ان کے نظریات ایک دوسرے کے قریب ہیں اس کے باجود اگر اس تنظیم کو غیر لوگ استعمال کریں یہ تحریک انصاف کیلئے قابل قبول نہیں مستقبل میں بھی روشن خیال اور میانہ رو جماعتوں کو سیدھا رکھنے کیلئے ایسے جھتوں کی ضرورت پڑے گی اور انہیں بہ وقت ضرورت استعمال کیاجاسکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں