معاشرتی انصاف اور اس کے تقاضے

تحریر: اکبر علی ڈومکی
جب سے انسان شعوری بیداری سے کنارہ کش ہوا تب سے اْس نے معاشرتی انصاف کے حصول کیلئے صدائیں بلند کی ہیں۔ مختلف زمانوں میں معاشرتی انصاف حاصل کرنے کے لیے انسان نے در در کی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اسلامی تاریخ انصاف کی مثالوں بھری پڑی ہیں۔
جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے کہ قریش کی ایک شاخ بنو مخزوم کی ایک معزز عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی اور قریش کے لوگوں نے چاہا کہ یہ عورت چونکہ معزز خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ چونکہ اس میں ہماری قوم کی ہمیشہ کے لیے بدنامی و رسوائی ہے۔ لہٰذا انہوں نے سیدنا اسامہ بن زیدؓ کو سفارشی بنایا جو کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنیٰ سیدنا زید بن حارثہؓ کے فرزند ارجمند تھے اور امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو اِنہیں بہت عزیز تھے۔ اہل قریش کا خیال تھا کہ نبی کریم ؐ کی سفارش رد نہیں فرمائیں گے اور اس عورت کا جرم معاف فرما دیں گے۔
قریش کے اصرار پر جب سیدنا اسامہ بن زیدؓ خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور قریش کا مدعا بیان کیا تو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓروایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے (اسامہ ؓ سے) فرمایا کیا تْو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدوں میں سے ایک کے لیے سفارش کرتا ہے۔ پھر آپؐ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا جس میں فرمایا: اے لوگو! تم سے پہلے لوگوں کو اسی بات نے ہلاک کیا کہ ان میں سے جب کوئی عزت والا چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کم حیثیت وا لا چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔“ (متفق علیہ) آپ ؐنے فرمایا: ”اگر فاطمہ بنت اسد کی جگہ آج فاطمہ بنت محمدؐ بھی اس جرم میں گرفتار ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“ (بخاری و مسلم)
تو اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انصاف کا تقاضا روز اول سے چلتا آرہا ہے اور اس کو آج کے دور کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو آج اس دور میں معاشرتی انصاف کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی طریقے سے دوسروں کا حق چھیننیپرطلا ہوا ہے۔ اس پوری دنیا میں ہر طاقتور شخص کمزور شخص کے ساتھ ظلم کررہا ہے، کمزور شخص سے اس کا حق چھینا جا رہا ہے جیسے کہ کسی کی جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنا، قاتل کو کھلی چھوٹ دینا، کسی کو اسکے سارے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا جس میں جینے کے آزادی، اظہارِ رائے آزادی،مذہبی آزادی اور دیگر کئی حقوق شامل ہیں۔
آج کے معاشرتی انصاف کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، کسی پر بیجا الزامات لگا کر اسکی ساکھ کو زک پہنچانا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور اسے انصاف کے تقاضوں سے محروم رکھنا وغیرہ وغیرہ لیکن دیکھا جائے تو ہر شخص اس معاشرے میں انصاف کا تقاضا کر سکتا ہے، یہ اس کا انسانی، معاشرتی، آئینی حق ہے اور اگر کسی کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے تو یہ ریاست کا کام ہے اس کو انصاف فراہم کرے نہ کہ اسکے زخموں پر نمک پاشی کرے۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس معاشرے میں مظلوم کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، دوسروں کی نظر میں اس کے مقام و مرتبہ کو کم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتاہے کہ کوئی حق تلفی کرنے والے پر انگلی اٹھانے کی جسارت نہ کرے اور اسکے ہر عمل کو درست تصور کیا جاسکے اور پھر مظلوم جوں کا توں ظلم و ستم کی چکی میں پستا رہے لیکن زبان پر اْف تک نہ لائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں