عورتوں کے حقوق اور ہمارا معاشرہ

تحریر: الماس ترین
ہمارے معاشرے میں ہر شخص اس وقت تک انسانی حقوق کا علمبردار کہلاتا ہے جب تک کہ عورتوں کے حقوق تک بات نہ آجاۓ اور اپنی اس سوچ کو بڑھاوا دینے کیلئے اور ایسی سوچ کو درست ثابت کرنے کے لئے مجھ جیسا ہر شخص بنا کچھ سوچے سمجھے یہ کہہ دیتا ہے کہ عورتوں کے لئے چار دیواری اور پردے کا حکم اسلام نے دیا ہے۔ تاریخ اٹھا کر اگر دیکھا جاۓ تو حقیقت یہ ہے کہ جتنی عزت و حقوق اسلام نے عورت کو دیے ہیں شاید ہی اس کی مثال کہیں اور مل سکے۔

ہمارے معاشرے میں عورت کو غیرت کا نام دے کر چار دیورای تک ہی محدود کر دیا جاتا ہے اور اسی طرح ان کی تعلیم اور اس کے جیسے کئی بنیادی حقائق کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ جب کبھی عورت نے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائی ہے تو اس کی آواز کو کسی نہ کسی طریقے سے دبانے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ ہمارے معاشرے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر عورتوں کو ان کے حقوق کا پتاچلتا ہے تو ہم سے ہماری وہ نام نہاد کمانڈ نہ چھن جاۓ جس کے ساۓ تلے ہم اپنی انا کو مطمئن رکھے ہوۓ ہیں۔

اگر ہم موجودہ دور میں اپنے معاشرے کی بات کر لیں تو کچھ عرصہ پہلے عورتوں کے حق میں لگاۓ گئے ایک عام سے نعرے کو بنا جانے، بنا سمجھے کئی لوگوں نے اپنی ہی سوچ کے مطابق بیان کیا اور اسے ہر لحاظ سے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی۔ وہ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ہم ہر چیز کو ویسا ہی سمجھتے ہیں جیسے ہم خود اُسی طرح سے ہوتے ہیں۔

آج بھی ہزاروں بے وقوفوں کی نظر سے کوئی بھی اگر متنازعہ بات گزرتی ہے تو ان کا پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ “یہ بات کسی وومین رائٹ ایکٹوسٹ نے ہی کہی ہوگی۔” ہم اس جملے سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کس طرح سے عورت اور ان کے حقائق پہ بات کرنے والوں کو سمجھا جاتا ہوگا۔

کسی دور میں کہا جاتا تھا کہ آپ کو اگر کسی کی شخصیت کو پرکھنا ہو تو اس کے ساتھ لمبا سفر کر کے دیکھ لیں، اسی طرح میرا یہ ماننا ہے کہ آج کل کے دور میں اگر آپ کو کسی کی شخصیت سے واقف ہونا ہے تو آپ اس سے عورتوں کے حقوق کے بارے میں بات کر لیں اور نتیجہ خود بہ خود آپ کو مل جاۓ گا۔

بالآخر میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ تمام شخصیات قابل تحسین ہیں جنہوں نے تمام فضول و عبث خیالات اور رسومات کو پیچھے دھکیل کر اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور تمام عورتوں کو انکے حقوق دے کر انہیں تعلیم جیسے زیور سے وابستہ کر کے پوری دنیا کو ایک مثبت پیغام دیا ہے کہ عورت جیسی مضبوط، عاجز، خوبصورت و مددگار تخلیق کی اس معاشرے میں کیا اہمیت و حیثیت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں