پڑھنا لکھنا، عورتوں کا ایک ادھورا خواب!

تحریر: یحیٰی شکیل احمد
ایک قوم کی تعمیر و ترقی میں تعلیم ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ایک خوش حال اور مہذب معاشرے میں مرد اور عورت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ قومی ترقی کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اپنا حصہ ڈالنے حق دینا چاہیے۔ تعلیم کے حصول کے لیے مردوں اور خواتین کو یکساں مواقع فراہم ہونے چاہئیں۔
حضور پاکؐ کا فرمان ہے: ’’علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر لازم ہے۔‘‘
عورت ہر معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کہ مرد۔ عورت کو زندگی کے ہر پہلو میں حصہ بننے کا حق ہے۔ عورت معاشرے کا اہم جز ہے۔ جسے ہر روپ میں اسلام نے اعلیٰ مقام و مرتبہ دیا ہے۔ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کو حقوق سے نوازا۔ ان حقوق میں ایک حق تعلیم کا بھی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
صنفی امتیاز کے سدِباب اور یکساں حقوق کی فراہمی سے ہی پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہے۔ لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ مقامی روایات کی بنا پر کچھ لوگ خواتین کو تعلیم کی فراہمی سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ بعض یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر ہر لڑکی نے پڑھنا لکھنا سیکھ بھی لیا تو پھر وہ کونسا تیر مارتی ہیں جب کہ بعض مظلوم و محکوم والدین اپنی بچیوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ خاندانی رسوم و رواج، عورتوں کے تحفظ کے بارے میں مخصوص اندازِ فکر، کم عمری کی شادیاں، پڑھی لکھی خواتین کی بے روزگاری، بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر نہ سمجھنا جیسی وجوہات عام نظر آتی ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ” (ایچ آر ڈبلیو) کے مطابق عورتوں کی علم کے حصول کی شاہراہ میں سیاسی عدم استحکام اور ایجوکیشن اتھارٹی کی عدم توجہی، نسلی اور مذہبی تناؤ، دہشت گردی اور عسکریت پسندی اور غربت اور غیرت جیسے عناصر سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لڑکیاں زیورِ تعلیم سے محروم ہیں۔ لاکھوں زندگیاں تباہ ہوگئی ہیں۔ لاکھوں خواب چکناچور ہوگئے ہیں۔
لیکن جب میں اس تکلیف زدہ خطے کو سنتا ہوں تو محض چیخ و پکار سننے کو ملتی ہے۔ جب میں معاشرے کے شعوروفہم اور تعلیم یافتہ لوگوں پر نظر دوڑاتا ہوں تو بےحسی کے عالم میں نظر آتے ہیں۔ جب میں بالا حکام اور سیاسی نمائندوں کو جھنجوڑتا ہوں تو وہ خوابِ خرگوش سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔
ہیومن رائٹس واچ رپورٹ نے انکشاف کیا کہ اسکول کی تعلیم سے محروم رہ جانے والوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں نویں جماعت میں صرف 13 فیصد لڑکیاں اسکول کی تعلیم جاری رکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ چھٹی جماعت سے پہلے 59 فی صد لڑکیاں اسکول چھوڑ جاتی ہیں اور گھریلو کاموں میں مشغول رہتی ہیں جب کہ 21 فیصد لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے اور وہ تعلیم کا سفر جاری رکھنے سے قاصر رہتی ہیں۔
وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں گے لیکن ابھی تک کوئی بھی نتیجہ خیز اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ محکمہ تعلیم اور بالا حکام کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں میں تعلیمِ نسواں کی اہمیت کو اجاگر کرنا، غریب لوگوں کو مفت تعلیم دینا، تعلیمِ نسواں کو فروغ دینا، کیوں کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تعلیمِ نسواں پر توجہ دیے بغیر ایک ترقی یافتہ ملک کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں