مسائلستان نصیرآباد

تحریر: ذوالفقار علی ڈومکی
نصیر آباد کا شمار بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں سے ہوتا ہے جس کے باسی زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ خصوصی طور پر سرکاری اسپتال جہاں پر سرکاری ادویات کا فقدان ہے اور مریض ہمیشہ زلیل خوار ہوتے ہیں۔ ڈویژنل ہیڈ کواٹر ہونے کے باوجود نصیرآباد سول اسپتال میں پیناڈول کی ایک ٹیبلٹ بھی موجود نہیں، لوگ مہنگی ادویات پرائیویٹ میڈیکل اسٹور سے خریدنے پر مجبور ہیں۔ ہاسپٹل کو ملنے والا سارا فنڈ کرپشن کے بھینٹ چڑھ جاتا ہے جبکہ ٹرامہ سینٹر میں بھی کوئی ڈاکٹر موجود نہیں، ایمرجنسی کی صورت میں آنے والے مریض کو لاڑکانہ ریفر کرنے کے علاوہ کوئی بھی علاج معالجے کی سہولیات دستیاب نہیں ہے۔ 2020 میں سول اسپتال کا بجٹ 4 کروڑ 25 لاکھ ہونے کے باوجود کئی سالوں سے ادویات موجود نہیں اور ڈائیلسز سنٹر بھی بند پڑا ہے۔
دوسری طرف نصیرآباد کا تعلیمی نظام خستہ حالی اور زبوں حالی کا شکار ہے۔ تعلیمی نظام کسی بھی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے، ماں باپ دن رات محنت کرتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ میرا بیٹا تعلیم حاصل کرکے ایک بڑا آدمی بن جائے گا مگر نصیر آباد میں بیشتر اسکول علاقے کے وڈیروں اور نوابوں کے کنٹرول میں ہیں اور وہ انہیں اپنے بھینسوں کے باڑوں میں تبدیل کر دیتے ہیں اور زیادہ تر ایسے اسکول اساتذہ کی غیر حاضری کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ یہ بد قسمت ضلع تعلیمی دوڑ میں سب سے پیچھے ہے۔ اب تو یہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے بلکہ نصیرآباد کے لوگ 2021 کے بجائے 1921 کی زندگی جی رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے منتخب نمائندے اور تعلیم کے افسران خوابِ خرگوش کی نیند سو رہے ہیں۔
دوسری جانب ڈیرہ مراد جمالی جس کو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کا حیثیت حاصل ہے مگر بائی پاس نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ٹریفک کا مسئلہ روز کا معمول بن چکا ہے اور مین بازار سے اڑنے والی مٹی نصیرآباد کے عوام کے لئے مختلف بیماریوں کا سبب بن رہی ہے۔ نصیرآباد جو کہ ایک گرین بیلٹ ایریا کے نام سے جانا جاتا جسے بلوچستان کا گلستان اور سبزہ زار بھی کہا جاتا ہے اور کیوں نہ کہا جائے یہاں کی فصل اور پھل نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں اپنی ہریالی اور زراعت کے لحاظ سے پہچان رکھتا ہے اور زراعت کی وجہ سے پورے بلوچستان میں اپنی پہچان رکھتا ہے اور یہاں سے پیدا ہونے والی فصلوں اور سبزیوں کو سندھ اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں ترسیل کیا جاتا ہے لیکن افسوس امر کی ہے کہ یہ ہریالی اور زراعت نصیرآباد کے درپیش مسئلوں کو حل کرنے میں کافی نہیں۔
نصیرآباد کو پانی فراہم کرنے والا واحد ذریعہ پٹ فیڈر کینال ہے جو حکومتی عدم توجہی، پانی کی چوری، صفائی اور ڈی سیلنگ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور نصیر آباد کے کسان اور زمیندار آئے روز سڑکوں پر قرآن پاک کو اٹھائے سراپا احتجاج ہوتے ہیں اور دوسری طرف اوچ پاور پلانٹ جو نصیرآباد کے لوگوں کو مفت بجلی، تعلیم، صحت، پانی، سڑکیں، ملازمت اور تمام بنیادی سہولیات دینے کا پابند ہے مگر آج تک اوچ پاور پلانٹ کی طرف سے اپنے وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کوئی مناسب اقدام نہیں اٹھایا گیا اوچ پاور پلانٹ میں پیدا ہونے والی (MW 576)میگاواٹ بجلی جس پر سب سے پہلے اس شہر کے عوام کا حق بنتا ہے جو سندھ اور پنجاب کے دیگر شہروں کو فراہم کیا جارہا ہے اور یہاں کے لوگ لوڈشیڈنگ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو نصیرآباد کے لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے جس کی جتنی مزمت کی جائے کم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں