انسانی حقوق کی برملا خلاف ورزیاں

تحریر: حسنین بلوچ
انسانی بنیادی حقوق کہنے کو تو کسی بھی ملک و قوم کے لئے اتنے لازم و ملزوم ہیں جتنی اس ملک کی آئین کی پاسداری ناگزیر ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے عوام، شہری یا رعایا کے لیے آئین تبترتیبدیتی ہے جب وہ ملک اپنے رعایا کیلئے کچھ حقوق دیتا ہے اور ان پر کچھ قانونی، معاشی اور دینی فرائض نافذ کرتاہے۔ اگر میں اس دنیا میں تمام ریاستوں کے قانون و آئین بیان کرتا رہوں تو شاید یہ ممکن نہیں۔ تو کیوں نا ہم اپنے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آئین کی روشنی میں فراہم کیے گئے انسانی حقوق پر تبصرہ کروں جو ریاست اپنے عوام کو فراہم کرتی ہے۔ آیا وہ حقوق شہریوں کو مل رہے ہیں یا حقوق کے نام پر ریاست ان کے ساتھ کھلواڈ کر رہی ہے۔

انسانی بنیادی حقوق کی فراہمی کسی بھی ریاست کے لیے اتنی ضروری ہیں جتنی اس ریاست کیلئے اپنی مذہبی روایات کو برقرار رکھنا لازم ہے۔ حقوق کی فراہمی ریاست کے لیے اتنی ضرورت کے عامل ہے جس طرح کسی والدین پر ان کی بچوں کی پرورش، تعلیم کی فراہمی، صحت کے سہولت سے لیس کرنا ضروری ہے۔ مگر کسی بھی قانون کے طالب علم کی نظر میں یہ ریاست کچھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں۔ وہ خلاف ورزیاں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کی شکل میں ہیں۔ یہاں صرف انسانوں کے لیے صرف زمہ داریاں بیان کی گئی ہیں بلکہ زمہ داریاں تب پوری کی جاتی ہیں جب حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

تو کیوں نہ مانگوں گیس، کیوں نہ پوچھوں حکمرانوں سے گوادر کی حق، کیوں خاموش رہوں اپنے وطن کیلئے، کیوں نہ چیخوں، کیوں نہ چلاؤں میں اپنے ان ماؤں بہنوں کے لیے جو عید کے دن گھروں میں رشتہ داروں کے ساتھ نہیں بلکہ پریس کلب کے سامنے اپنے بھائیوں اور اپنے بیٹوں کے واپسی کی فریاد کرتی ہیں، کیوں نہ آنسو بہاؤں اپنے وطن کے ان بچوں کے لیے جنکی لاشیں خود انصاف مانگنے کوئٹہ آتی ہیں۔ کیوں ساتھ نہ دوں ماہ رنگ بلوچ کو جو ظالم حکمرانوں، نوابوں، سرداروں اور اشرافیہ کے آنکھوں میں آنکھیں ملاکر طلبا و طالبات اور بلوچستان کی حقوق کی بات کرتی رہتی ہے۔

اور یہی حکمران اپنے زمہ داریوں اور رعایا کے حقوق کی فراہمی کے لیے حلف کچھ یوں اٹھاتے ہیں کہ میں خلوصِ نیت سے ملک کا حامی و وفادار رہونگا۔ یہی کہ میں اپنے فرائض کو ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ نبھا کر اسلامی جمہوریہ کے پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق سرانجام دونگا۔

یہ جملہ اگر ملک کے تمام حکمران اور اشرافیہ تقریب حلف برداری میں اٹھا رہے ہیں تو آئین کہ مطابق تمام فیصلے اور اقدامات کیوں نہیں ہو پارہے ہیں۔کیوں سرعام انسانی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے۔ کیوں اس آزادی کے باوجود بھی رعایا اپنے جینے کی آزادی سے محروم ہیں؟

اور جہاں کسی بھائی کا بہن کی عزت کو بچانے کی جرم کرنے والا بھائی کا قاتل کمرہ عدالت سے قانون کو اپنا رکہیل بنا کر باہر نکالتا ہے تو میرا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کب تلک حوا کی بیٹیاں اپنی عزت گنواتے رہیں کہ کب تلک اس زمین پر انسانوں کا خون بہے گا۔ شیطانیت کے اس دور کے خلاف میں بغاوت کا اعلان کچھ یوں کرتا ہوں:

میں باغی ہوں میں باغی ہوں
اس دور کہ رسم رواجوں سے
ان تختوں سے ان تاجوں سے
جو ظلم کے کوکھ سے جنتے ہیں
جو انسانی خون سے پلتے ہیں
جو عورت کو نچواتے ہیں
ان ظالم ان بدکاروں سے
ان ظلم کہ پہر داروں سے
میں باغی ہوں میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پہ ظلم کرو
وہ محلوں میں جو رہتے ہیں
اور بات غریب کی کرتے ہیں
ان دوکھے باز لوٹہروں سے
سرداروں سے اور وڈیروں سے
میں باغی ہوں میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پہ ظلم کرو

ہم ظلم کے خلاف سر تو کٹوا سکتے ہیں لیکن سر جھکا نہیں سکتے اور یہ سارے انسانی حقوق کی پامالی ایک اسلامی ریاست کے لیے انتہائی افسوس کی بات ہے تو میرا یہ جملہ غلط نہ ہوگا
"کہ کون عاشق خدا کی زات کا ہے
سارا چکر معاشیات کا ہے "

آئیے کچھ زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں کہ آج بلوچستان میں مسلمانوں کی بچوں پر تعلیم کے حصول کے لیے آئے ہوئے طالب علموں، وکلا اور ڈاکٹروں پر ظلم کو اگر کشمیر میں غیر مسلم ریاست کی ظلم کے ساتھ تشبیہ دوں تو شاید بلوچستان کا پلڑا بھاری ہوگا اور یہاں تو لوگوں کو کہانے کے لیے روٹی نہیں تو وہ کیا خاک پڑھیں گے۔

کہ وہ جس کا ایک ہی بچہ ہو
بھوکا آٹھ پہروں سے
بتاؤ اہل دانش تم وہ گندم لے یا تختی لے

تو میں اپنے اس تحریر کا اختتام کچھ ان اشعار سے کرتا ہوں

کہ تجھے اب کس لیے شکوہ ہے کہ بچے گھر نہیں رہتے
جو پتے زرد ہو جائے وہ پیھڑوں پر نہیں رہتے
تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کر دیگی
مسلسل جبر سے محسن دلوں میں ڈر نہیں رہتی

اپنا تبصرہ بھیجیں